چکوال کے احمدیوں سے لولے لنگڑے انصاف کی ابتدائی ضمنیاں


\"\"عید میلاد النبیؐ کے موقع پر چکوال کے ایک گاؤں میں احمدیوں کی عبادت گاہ بیت الذکر پر مشتعل ہجوم کے حملہ کے بعد علاقے کی پولیس نے ایک سو نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ تھانہ چوا سیدن شاہ کے ایس ایچ او محمد نواز نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ مقدمہ احمدی اور غیر احمدی دونوں گروہوں کے لوگوں کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ مقدمہ دہشت گردی کی دفعہ 7 کے تحت درج ہؤا ہے لیکن کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ اس طرح پولیس ایک اقلیتی گروہ کی عباد ت گاہ پر حملہ کو ایک ایساتصادم بنا کر پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے، جس میں دونوں فریقوں نے تشدد کا استعمال کیا۔ حکومت پنجاب نے کل ہی یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تنازعہ دو گروہوں کے درمیان غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ ملک کی اعلی سیاسی قیادت اور اسلام نافذ کرنے کے دعویدار علمائے کرام اس المناک سانحہ پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔

پولیس کی کارروائی اور حکومت پنجاب کی پر اسرار خاموشی سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ حکمران صرف یہ چاہتے ہیں کہ اس معاملہ کو جلد از جلد دبا دیا جائے اور اس حوالے سے خبروں اور تبصروں کا سلسلہ بند ہو جائے۔ پولیس نے اس حقیقت کے باوجود نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے کہ اس حملہ کی قیادت کرنے والا مذہبی رہنما سید سبط الحسن شاہ ببانگ دہل کل کی کارروائی کو مسلمانوں کی فتح قرار دے رہا ہے کیوں کہ انہوں نے احمدیوں کو عبادت گاہ سے نکال باہر کیا۔ دارالذکر پر حملہ کے بعد شر پسندوں نے عبادت گاہ پر قبضہ کرلیا تھا۔ بعد میں پولیس نے اسے پر تشد مظاہرین سے واگزار کروایا لیکن اس کا قبضہ ابھی تک پولیس کے پاس ہے۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اب نقص امن کے نام پر اس ادارے کو بند کردے گی اور بالآ خر علاقے کا کوئی با اثر مولوی اس جگہ اپنا مرکز اور مسجد بنا کر اسلام اور مسلمانوں کی فتح کا اعلان کرنے لگے گا۔

یہ حملہ چکوال کے ایک چھوٹے گاؤں میں ہؤا تھا۔ سب کو ان لوگوں کے نام پتہ ہیں جو اس افسوسناک واقعہ میں ملوث تھے۔ جلوس کی قیادت کرنے والا علی الاعلان اپنے فتحیاب ہونے کا دعویٰ کررہا ہے لیکن پولیس کی ایف آئی آر میں جو سو لوگ نامزد کئے گئے ہیں ، وہ ’نامعلوم‘ ہیں۔ تھانے کا انچارج البتہ یہ جانتا ہے کہ ان نامعلوم لوگوں میں لازمی طور سے احمدی بھی شامل ہوں گے۔ اب آنے والے دنوں میں ایک چھوٹے اقلیتی گروہ کے چند گھرانوں کو خاموش کروانے کے لئے اس پولیس رپورٹ کا سہارا لیا جائے گا۔ اگر احمدیوں کی قیادت نے ملزموں اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تو ان کے چند لوگوں کو بھی حملہ، قتل اور اقدام قتل جیسے الزامات میں دھر لیا جائے گا۔ کیوں کہ یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ اس موقع پر ہونے والی فائرنگ میں ایک غیر احمدی ہلاک ہؤا ہے جبکہ ایک معمر احمدی شخص حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کرگیا تھا۔ گویا احمدی کا مرنا فطری اور غیر احمدی کا مرنا احمدیوں کی ’شرارت‘ ثابت کرنا آسان ہے۔ اس دباؤ میں احمدیوں کے پاس خاموش رہنے ، شکایت واپس لینے اور اپنی قدیمی عبادت گاہ کو حق بہ حقدار رسید کے مصداق ’مسلمانوں‘ کے حوالے کرنے کے سوا چارہ بھی کیا ہے۔ پاکستان کی ریاست ، حکومت اور پولیس اقلیتوں کو اسی قسم کا تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

یہ اسی قوم کے لوگ ہیں جو مساجد میں مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں پر ہندوؤں کے مظالم کے خلاف رقت آمیز دعائیں مانگتے ہیں۔ روہنگیا مسمانوں پر ہونے والے مظالم پر آنسو بہاتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں اور حکومت پر ان مظلوموں کی مدد کرنے کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں۔ اس ملک کے یہ دردمند مسلمان فلسطین کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے غم میں گھلے جاتے ہیں۔ امریکہ میں کسی مسجد پر حملہ ہو یا یورپ میں کسی مسلمان پر تشدد کی خبر آئے تو اسے مشرکین کی سازش اور اسلام دشمنی قرار دیتے دیر نہیں لگاتے۔ یہ سب دعوے اس بنیاد پر کئے جاتے ہیں کہ اقلیت کے طور پر مسلمانوں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانا ظلم ہے۔

تو کیا اس قوم کے ہر فرد سے یہ سوال نہیں کیا جانا چاہئے کہ خود اپنے ملک میں آباد اقلیتوں کے ساتھ ان کا سلوک اسی عالمگیر اصول کے برعکس کیوں ہے۔ اسلام کا کون سا ضابطہ، سنت رسولؐ کی کون سی توجیہ، انسانی حقوق کے چارٹر کی کون سی شق یا ملکی آئین و قانون کی کون سی دفعہ اس ملک کے سارے مسلمانوں کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ جس کو چاہیں ’کافر‘ قرار دے کر انتقام اور ظلم کا نشانہ بنائیں۔ کمسن ہندو و عیسائی بچیوں کو اغوا کرکے اسلام کی تبلیغ کا مقدس فریضہ ادا کریں اور جب سندھ کی صوبائی حکومت اس غیر انسانی رجحان کی روک تھام کے لئے قانون سازی کرنے کی کوشش کرے تو اسلام کے جغادری محافظ ٹیلی ویژن پروگراموں اور جلسے جلوسوں میں اسے اسلام سے دشمنی قرار دیں۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ آخر تیرہ، چودہ یا پندرہ برس کی ہندو بچیاں ہی کیوں اسلام سے متاثر ہوتی ہیں ، اس عمر کا کوئی لڑکا یا کوئی بالغ عورت یا بوڑھا کیوں اس طرف راغب نہیں ہوتا تو وہ اعلان کریں کہ اسلام سچا مذہب ہے ، اس کا راستہ روکنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ تو کیا مسلمانوں کو دوسرے سب مذاہب کو جھوٹا کہنے اور ان کے خلاف محاذ آرائی کا حق حاصل ہے۔

اسلام کے یہ سارے سپاہی متحد ہیں۔ یہ اتحاد اس وقت تک برقرار ہے جب تک ان کے نشانے پر کوئی احمدی، کوئی ہندو یا کسی دوسری اقلیت کا کوئی فرد ہے۔ البتہ جب ایسا کوئی موقع نہیں ملتا تو یہ جیالے خود اپنی صفوں میں ’کافر‘ تلاش کرکے، انہیں تہہ تیغ کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان انہی ’جیالوں‘ کے خلاف معرض وجود میں آئے تھے۔ چکوال کے بیت الذکر میں تشدد کا نشانہ بننے والے لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ یہ قومی منصوبے ان کی حفاظت کرنے میں کیوں ناکام ہیں۔ اس کا جواب صرف فوج یا حکومت کو ہی نہیں دینا، اس کا جواب پاکستان کے ہر اس شخص کو دینا ہے جو خود کو مسلمان کہتا ہے۔ اگر وہ کل کے حملہ کی مذمت میں ہاتھ کھڑا کرنے اور اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے تو جان لیا جائے کہ اللہ بھی ظالم اور نا انصاف قوموں کی مدد کو نہیں آتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments