یونیورسل توہمات، انٹرنیشنل خرافات اور نیشنل بد شگونیاں


\"\"کتب خانوں میں دل خوب ہی لگتا، کبھی فراغت ہو تو حالات حاضرہ کیا، مذہب کیا، میں تو فزکس، ائیرو اسپیس ٹیکنالوجی، اناٹومی کی کتابوں کے بھی دو چار پنے پلٹ لیتی ہوں کہ شاید کوئی علم کا موتی ہاتھ لگ جائے۔ ایسے ہی اسلام آباد کی ایک بڑی لائبریری میں ایک دن میں یہاں وہاں کچھ ان دیکھی کتابوں کو ٹٹولتی پھر رہی تھی کہ نظر ایک دلچسپ کتاب پر پڑی\”اے ڈکشنری آف سپرسٹیشنز\”۔(توہمات کی ڈکشنری) آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے تحت چھپنے والی اس کتاب میں ان تمام توہمات کا ذکر ہے جس نے دنیا کے ہر مذہب ہر نسل کے شخص کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے، کبھی یہ وسوسے کسی نیک کام کے آڑے آتے ہیں اور کبھی تو یہ سرے سے کوئی کام ہی نہیں ہونے دیتے۔

میں وسوسوں کی ڈکشنری کے ورق پلٹتی رہی اور ڈکشنری میں لکھا ہر وہم بہت جانا پہچانا لگا، اکثر وہ توہمات ملیں جو ہم نے اپنی نانیوں دادیوں سے سنی تھی، جیسے آئینے کا ٹوٹنا ہماری بڑی بوڑھیوں کے لیے ایسا ہی تھا جیسے کوئی بہت بڑا طوفان آگیا۔ ڈکشنری کہتی ہے کہ قدیم پروٹسٹنٹ مذہبی کتابوں کی رو سے آئینے کا ٹوٹنا نحوست کی علامت ہے، جس گھر کا آئینہ ٹوٹا وہاں سات سال تک ایسی منحوست چھائی رہے گی کہ کسی گھر والے کی جان بھی جا سکتی ہے۔

کرسچینیٹی کی قدیم دیومالائی کتب کے مطابق کمرے میں رکھی موم بتی خود بجھ جائے تو مطلب کسی گھر والے کی موت یقینی ہے، یہاں تک کہ کمرے میں اکیلی موم بتی کو جلتا چھوڑ دینے پر سزا بھی تھی۔

آگے ملاحظہ فرمائیں۔۔

کیا گھر میں پڑے لکڑی کے بیڈ  بستر بھی موت کا سامان ہوسکتے ہیں؟ ظاہر ہے بالکل نہیں۔ نہ جی نہ، دنیا میں ایسی سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ اگر تین افراد ایک بیڈ کے تختے اور پیچ کسنے کی جرات کریں گے تو اس پر لیٹنے والے کی موت یقینی ہے۔ مطلب موت نہ ہوئی پڑوسن والی آنٹی ہوگئیں جو بار بار ماچس اور ایک کٹورہ چینی مانگنے آجاتی ہیں۔

موت کا ذکر ہی چلا ہے تو سنیں، برطانیہ کے علاقے یارک شائر میں اگر جانا ہو تو وہاں کے بزرگ مقامیوں کو دو بار گڈ بائے بولنے کی جسارت نہ کیجیئے گا، بہت مار پڑے گی، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دو بار گڈ بائے دنیا سے گڈ بائے ہونے کا پاس ورڈ ہے۔

ویسے موت پڑے ایسے وہموں کو، ذکر کچھ خوشیوں کا ہوجائے۔ ہماری یہاں کی شادیوں میں بات بات پر خواتین کو بد شگونی کے خوف ستانے لگتے ہیں، دلہن کا چہرہ کوئی نہ دیکھے ورنہ روپ نہیں آئے گا بڑا معمول کا جملہ ہے، اب ذرا اس کے جواب میں دلہنیں کورا جواب دے دیتی ہیں کہ روپ تو میک اپ آرٹسٹ لائے گی بے فکر ہوجائیں۔ خیر برصغیر کی شادیوں میں جہاں اور بہت سی خرافات کا بڑا حصہ ہوتا ہے وہیں یہ شگون بھی بات بات ہر بد شگونی میں بدل جاتا ہے، جیسے دلہن کی چوڑی ٹوٹ گئی بد شگونی ہوگئی، شادی والے گھر میں کوئی سفید یا کالا جوڑا پہن آئے تو حسب روایت گھر والے اس مہمان کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ شادی والے گھر میں گلاس ٹوٹ جائے یا دلہن کے ماتھے پر لگا ٹیکا الٹ جائے ارے قیامت آجاتی ہے قیامت، یہ سب بد شگونی کے زمرے میں آتا ہے۔ مغرب میں بھی شادیوں سے بہت سے شگونیاں اور بد شگونیاں جڑی ہیں، جیسے کہ دلہن شادی کے بعد گلدستہ پیچھے اچھالتی ہے، جس خوش نصیب نے وہ گلدستہ کیچ کرلیا اگلی شادی اسی کی ہوتی ہے، یعنی کہ کرکٹ کھیلنے والی لڑکیوں کا مستقبل روشن ہے۔

سوئٹزرلینڈ کی خواتین کا ایک واہمہ تو ایسا بیہودہ ہے کہ ان بے تکے خیالات کے موجدین کو سات سلام کرنے کا جی چاہتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ سے منسوب روایت کہتی ہے کہ حاملہ خاتون کی نشت پر اس کے اٹھنے کے فوری بعد جو لڑکی بیٹھے گی وہ حاملہ ہوجائے گی۔ مطلب حد ہی ہے بے اعتمادی کی۔ سوئٹزرلینڈ کی روایت پر زیادہ چوں چرا کیے بغیر سنیں ہماری خواتین بھی کسی سے کم نہیں۔ بہت سی شادیوں میں یہ ریت پرانی ہے کہ دلہن کی سیٹ پر اس کے اٹھتے ساتھ ہی بیٹھنے والی لڑکی کے ہاتھ پیلے اور جیلس رشتہ داروں کے منہ نیلے ہونے کے چانسز ہیں۔

قارئین، زیادہ ڈپریس ہونے کی ضرورت نہیں یہ خرافات صرف ہماری میراث نہیں۔ تحریر کا مقصد ان جہالتوں کو بھی لائم لائٹ میں لانا ہے جو ترقی یافتہ ممالک میں صدیوں سے رائج ہیں اور بعض توہمات کو تو دینی اقدار کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ بات تو بالکل سیدھی ہے توہمات، وسوسے اور خرافات پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔ جب ان توہمات کے ماننے والوں میں اعتماد کی کمی ہوگی تو ایسی ہی ڈکشنریاں وجود میں آئیں گی۔

چلیں اس تحریر کو حرف بہ حرف پڑھیں اور شئیر کریں، اگر شئیر نہ کیا تو کوئی ناگہانی آفت آپ کو فیس بک پر آکر جکڑ لے گی۔ ایک شخص نے اس آرٹیکل کو اگنور کیا تو اس کا کمپیوٹر خود بخود خراب ہوگیا، شئیر کرنے والے کی لاٹری نکل آئی۔

________________________________________

عفت حسن رضوی نجی نیوز چینل میں سپریم کورٹ کاریسپانڈنٹ ہیں، برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی سوانح نگار اور انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکا کی فیلو ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: IffatHasanRizvi@

عفت حسن رضوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عفت حسن رضوی

نجی نیوز چینل میں ڈیفنس کاریسپانڈنٹ عفت حسن رضوی، بلاگر اور کالم نگار ہیں، انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی فیلو ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @IffatHasanRizvi

iffat-hasan-rizvi has 29 posts and counting.See all posts by iffat-hasan-rizvi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments