باچا خان، رنجیت سنگھ اور انقلابیوں کا پروپیگنڈا


\"\"اگر سوشل میڈیا پرآپ کا اکاونٹ بن گیا تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اب آپ اپنی نیم پختہ عقل اور تحقیق سے عاری سوچ لے کے دنیا پر مسلط ہو جاؤ۔ اور جو دل میں آئے، کہتے جاؤ جو دل میں آگیا شیر کرلو ۔ اظہار خیال کا موقع مل گیا۔ اس کا مطلب ہرگز ہر گز یہ نہیں ہوسکتا کہ اب کوئی بھی بے بنیاد بات اور پروپیگنڈا آپ کا حق بن گیا۔ علم وتحقیق اب بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا تھا۔ یہ اجازت بھی نہیں مل سکتی کہ جس سے نطریات کا معمولی ٹکراؤ ہو۔ اس پہ الزامات کی بوچھاڑ کر دو اور جو دل میں آئے کہتے جاؤ۔ لوگوں پہ فتووں اور غداری کے الزامات لگاؤ ۔ یہ اختیار نہ کل اپ کے پاس تھا نہ اب اپ کے پاس ہے۔ معاشروں میں نظریات کا فرق روز اول سے موجود ہے۔ ایک کا آئیڈیل دوسرے کے لیے کل بھی ولن تھا آج بھی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے۔ ان معاشروں کو ہی سکون کے دن ملے ہیں جہاں لوگوں نے ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کیا ہے۔

کافی عرصے سے ایک پوسٹ سوشل میڈیا میں گردش کررہی ہے۔ جس کو سوشل میڈیا کے شاہین، پاکستان میں انقلاب کے داعی کج فہم انقلابی دھڑادھڑ شیر کررہے ہیں ۔ اور اگے سے باقی انقلابی اپنا غصہ ناقابل بیان الفاظ میں نکالتے ہیں ۔ اس پوسٹ میں خان عبد الغفار خان المعروف باچا خان کو اپنی بیٹی کی شادی میں جاتے دکھایا گیا ہے۔ جس کی شادی بقول ان کے رنجیت سنگھ سے ہو رہی ہے۔ اب تاریخ پہ جبر دیکھیے۔ حقیقت سے ان کا فاصلہ ناپیے۔ بے شرمی اور کج فہمی کا لیول دیکھیے کہ اپنی سیاسی رقابت میں تاریخ کا چہرہ تک مسخ کردیا ۔ زور انقلاب میں تاریخ کا ایسا پوسٹ مارٹم اگر ابن خلدون یا کوئی اور تاریخ دان دیکھتا تو وہ بھی حیران رہ جاتا ۔ تاریخ پہ یہ تاریخی ظلم ذرا ملاحظہ فرمالیں ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ تیرہ نومبر1780 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ جبکہ ستائیس جون 1839 کو لاہور میں انتقال کرگیے ۔ ان کا بیٹا کڑک سنگھ باہیس فروری 1801 کو کو پیدا جبکہ پانچ نومبر1839 کو انتقال کر گیا۔ اب ملاحظہ فرمالیں باچا خان (جن کی پیدائش کا سال 1890 ہے) کو اپنے پیداہش سے پچاس سال پہلے مرنے والے شخص کے ساتھ ستر سال بعد بیٹی کی شادی میں دکھایا گیا۔ اور اس پہ جبر یہ کہ اس پہ یقین بھی کیا گیا اور بجآئے تحقیق کے اس کو آگے بھی شیر کرتے گیے۔ کسی ایک بھی بالغ نظر انقلابی نے ایک بھی بار تاریخ کے صفحے پلٹنے کی کوشش نہیں کی۔\"\"

بیان جتنا سادہ تھا۔ عرض بھی اتنی ہی سادہ سی ہے۔ باچا خان پہ تنقید بیشک آپ کا حق ہے ۔ کوئی آپ کو اس حق سے نہیں روک سکتا ۔ تاریخ میں جس نے جتنے زیادہ صفحوں میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ اتنی ہی تنقید کے نشتر اسی پہ لگے ہیں ۔ تنقید سے گھبرانے والے سیاسی کارکن کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ منزل کا رستہ تنقید کے کانٹوں سے ہو کے گزرتا ہے۔ جو باچا خان کو کل پسند کرتا تھا ۔ جمعہ خان صوفی کی کتاب پڑھنے کے بعد بھی پسند کرے گا۔ جس نے باچا خان کو اپنا رہبر مانا ہے۔ انہوں نے نے بطور رہبر ان کا انتخاب نہیں کیا. بس وہ اس ملنگ سے اپنی نظر نہ ہٹا سکے۔ کسی نے ان کو رہنما بنانے کی کوشش نہیں کی بس وہ ان کی ہستی کو نظرانداز نہیں کر پائے۔ باچا خان یا کوئی بھی تاریخ ساز انسان کسی کی تنقید سے معمولی نہیں بن جاتا ۔ لیکن تنقید کرنے والے بھی تو معیار رکھتے ہیں۔ زور تنقید میں تاریخ پہ ہی جبر کا کیا مطلب؟ سیاسی نظریے کی مخالفت اپنی جگہ باچا خان سے خار بھی سمجھ آ جاتی ہے ۔ لیکن تاریخ کا چہرہ بگاڑدینا کہاں کا انصاف ہے۔ لکھنے کیلیے پلیٹ فارم مل گیا تو مبارک ہو شوق سے اپنا اور اپنے نظریے کا پرچار کرو ۔ اپنی پارٹی کو منتخب کرنا اور اس کے حق میں اپنا زور قلم استعمال کرنا تمارا حق ہے ۔ لیکن اس حق کے پیچے چھپ کے تاریخ اور حقیقت پہ خنجر زنی کرنے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے۔ اپ کی نفرت اپ کو مبارک لیکن تاریخ کو تو مسخ نہ کریں۔ اتنی بے تکی اور بے دلیل بحث سے اخر مطلوب کیا ہے؟ کیا کوئی اہل عقل ودانش اس دنیا میں نہیں بچا جو آپ کے اس جھوٹ کو بے نقاب کرے؟۔ انقلاب بیشک لے آئو۔ حکومت میں آ کے سب ٹھیک بھی کرلو کوئی نہیں روک رہا لیکن حقیقت سے منہ موڑ کے نہیں۔ اتبدیلی بیشک لے آئو۔ لیکن اپنا معیار بلند کرکے کسی کی پگڑی اتار کے نہیں ۔ کیونکہ تاریخ کسی کے بدلنےسے نہیں بدلتی۔ بس خود کو بدلنے والے کی قامت بیان کر دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments