بنگلہ گھاٹ کی گہری رات اور لہو میں ڈوبے ماہی گیر


میرے لئے اپنی بات کہنا آسان ہو جائے گا اگر آپ مجھے 22 مئی 1971 کے روز کہی گئی ناصر کاظمی کی مسلسل غزل کے تین اشعار \"\"

سنانے کی اجازت دے دیں۔ ان اشعار سے سنہ 71 کی سیاسی اور انسانی صورت حال واضح ہو جائے گی۔

جنت ماہی گیروں کی    ٭٭٭  ٹھنڈی رات جزیروں کی

سبز سنہرے کھیتوں پر ٭٭٭  پھواریں سرخ لکیروں کی

اس بستی سے آتی ہیں  ٭٭٭  آوازیں زنجیروں کی

25 مارچ 1971ء کی تاریک رات تھی اور سہ فریقی مذاکرات بلانتیجہ ختم ہو چکے تھے۔ بھٹو صاحب نے کراچی کی فلائٹ پکڑی اور پہنچنے پر بیان داغ دیا: ’شکر ہے، پاکستان بچا لیا گیا‘۔ اس قیامت خیز رات کو ڈھاکہ یونیورسٹی مشین گن اور مارٹر گولوں کا نشانہ بنی۔ دو اجتماعی قبریں بنائی گئیں جن میں سے ایک میں 148 لاشیں دفنائی گئیں۔ یہ اجتماعی قبر گویا پاکستان کے جسد اجتماعی کی آخری آرام گاہ بھی تھی۔ ڈھاکہ میں امریکی قونصل خانے کی اطلاعات کے مطابق یونیورسٹی میں لگ بھگ پانچ سو طلبہ کھیت رہے۔ لڑکیوں کا رقیہ ہاسٹل نذر\"\" آتش کر دیا گیا۔ پاکستانی فوجی امریکی ٹینکوں میں ڈھاکہ کا گشت کر رہے تھے۔ بنگالی اخبارات کے دفاتر پر ٹینکوں سے حملہ ہوا۔ گاڑیاں روک کر پوچھا جاتا: بنگالی ہو یا مسلمان؟ چٹاگانگ میں بھی خون کی ہولی کھیلی گئی۔ کومیلہ سے معمر سیاست دان دھریندر ناتھ دتا کو ان کے گھر سے اغوا کر کے ان پرجسمانی تشدد کیا گیا اور بالآخر قتل کر دیا۔ نواکھلی میں گاندھی جی کے قائم کردہ آشرم کے چار خدمت گاروں کو قطار میں کھڑا کر کے گولی مار دی گئی۔ مگر کشت و خوں کے یہ مناظر مغربی پاکستان کی آنکھوں پر بندھی پٹی سے دکھائی نہیں دیتے۔

سقوط ڈھاکہ کے متعلق پاکستان میں لکھی جانے والی سب کتابوں میں ایک خاصیت مشترک ہے اور اس جانب اقبال احمد صاحب نے متوجہ کرایا: کہ پاکستان میں اس واقعے کے متعلق لکھی جانے والی سب کتابیں یا تو سابق فوجیوں نے لکھی ہیں یا بیوروکریٹس نے۔ اس طرح یہ کتابیں تاریخ کی بجائے ’بیان صفائی‘ بن گئیں۔ اس موضوع پر صحافیوں، دانشوروں یا اساتذہ نے قلم نہیں اٹھایا، جو تشویش ناک ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں رنج والم کے مواقع گنے جائیں تو تقسیم ہند کے دوران فسادات اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی سرفہرست ہیں۔ المیہ یہ \"\"ہے کہ سرکاری بیانیے میں ان واقعات کی تفصیلات اور ان کے محرکات پر غور وفکر کی زحمت کم ہی کی جاتی ہے۔ نصابی کتب میں ان دونوں واقعات کی ذمہ داری ہندوؤں، سکھوں یا غیر مسلم قوتوں پر ڈالی جاتی ہے۔ تقسیم سے کئی ماہ قبل راولپنڈی اور پوٹھوہار کے علاقے میں غیر مسلم خون کی جو ہولی کھیلی گئی، ہماری نصابی کتب اور ذرائع ابلاغ اس پر خاموش ہیں۔ سنہ 1940 کی قرارداد لاہور میں خود مختار مسلم ’ریاستوں‘ کا ذکر کیا گیا تھا۔ اپریل 1946ء میں اسے ڈرافٹنگ کی غلطی قرار دیا گیا۔ تاریخ سے روگردانی کا یہ چلن منفرد نہیں، بیشتر اقوام نے اپنی تاریخ مرتب کرتے وقت قومی مفادات کی چھلنی کا استعمال کیا ہے۔

تاریخ کے اس طالب علم کے مطالعے میں شامل مشرقی پاکستان کے تنازعے پر لکھی گئی کتب، مضامین اور یادداشتیں یقیناً اس راہ کے دیگر مسافروں کے لیے متعدد سوالات کے جواب دینے کا باعث بنیں گی۔

1۔ گزشتہ برس ایک حقیقی اور ایک فرضی سابقہ فوجی کی ڈائری سمیت اس تنازعے کے دوران امریکہ بہادر کے کردارپر کتب پڑھنے کا موقع ملا۔ کرنل نادر علی نے سنہ 1971ء کے حوالے سے اپنی یادداشتیں کچھ سال قبل برطانوی نشریاتی ادارے کی اردو ویب سائٹ کے لیے بیان کی تھیں۔ 2013 میں ایک آن لائن جریدے میں ذکی نقوی صاحب نے ’سپاہی تنویر حسین کی ڈائری‘ لکھی جو ’مشرقی پاکستان کے ایک سرحدی گاؤں میں تعینات کسی پلٹن کے سپاہی کی فرضی ڈائری‘ کے چند صفحات پر مشتمل ہے۔

2۔ بھارتی صحافی سلیل تری پاٹھی نے مشرقی پاکستان سے بھارت کی جانب نقل مکانی کرنے والوں کا حال بیان کیا ہےاور آزادی کے بعد \"\"بنگلہ دیش کی حالت پر ایک بہترین کتاب تحریر کی ہے جس کا نام The Colonel Who would not repent ہے۔

2۔ سبھاش چندرا بوس کے خاندان سے تعلق رکھنے والی مصنفہ شرمیلا بوس نے مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے ’کارناموں‘ پر تحقیق کی ہے۔ شرمیلا بوس کی کتاب The Dead Reckoning مشرقی پاکستان میں پاک فوج پر نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزامات پر ایک اہم تحقیقی کتاب ہے۔

3۔ علی احمد خان کی یادداشتیں بنام ’جیون اک کہانی‘، مشرقی پاکستان کے حالات اور بنگالیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی داستان ہے۔ یہ یادداشتیں سہ ماہی \’آج\’ میں شائع ہوئیں اور کتابی شکل میں دستیاب ہیں۔

4۔ کرنل خواجہ جلیل احمد آرمی ایجوکیشن کور کی جانب سے ستمبر 1971ء میں مشرقی پاکستان تعینات کئے گئے تھے۔ کرنل خواجہ جلیل احمد کی کتاب From Captivity to Freedom اور برگیڈیئر عبدالرحمان صدیقی کی تصنیف East Pakistan: The Endgame بھی متعدد حوالوں سے اہم ہیں۔ برگیڈیئر عبدالرحمان صدیقی فوج کے ادارے ISPR کے رکن تھے۔

5۔ برطانیہ کی کارڈف یونیورسٹی میں تاریخ کے طالب علم Dave Riley سنہ 1971ء کے واقعات کے متعلق امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے De-classified دستاویز اکٹھی کرتے اور اسے دوسروں تک Twitter کے ذریعے پہنچاتے ہیں۔ یہ دستاویزات مشرقی پاکستان کے تنازعے میں عالمی طاقتوں کے کردار کو سمجھنے کا مستند ترین ذریعہ ہیں۔

6۔ امریکی صحافی گیری بیس (Gary Bass) نے The Blood Telegram کے نام سے کتاب لکھی جس میں ڈھاکہ میں موجود امریکی \"\"سفیر کے بھیجے ایک مشہور ٹیلی گرام اور وائٹ ہاؤس کی Declassified دستاویز پر نظر ڈالی گئی ہے۔ ہنری کسنجر اور رچرڈ نکسن کے پاکستان کے حوالے سے احکامات بھی اس کتاب کا حصہ ہیں۔

تاریخی حوالے مشرقی پاکستان کے تنازعے کے ایک اہم پہلو کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں بسنے والی بنگالی اکثریت کی سیاسی، ثقافتی، لسانی، انتظامی اور معاشی ترجیحات، مغربی پاکستان کی مقتدر اشرافیہ کے مفادات کے مقابلے میں نظر انداز کی گئیں۔ یہی فسانہ مغربی پاکستان میں بسنے والی غیر پنجابی اور غیر مہاجر قومیتوں کا بھی ہے۔ قومیت کے معاملے پر مشرقی اور مغربی پاکستان کی قیادت اور سیاسی جماعتوں کا نقطہ نظر مختلف تھا۔ مطالبہ پاکستان کے محرکات اور مقاصد بھی دونوں جغرافیائی اکائیوں کے لیے یکساں نہ تھے اور یہی اختلاف تقسیم کے بعد دونوں جانب کی سیاست کا رُخ متعین کرنے کا باعث بنے۔ آزادی کے بعد پاکستان کے دونوں بازوؤں میں دستور، صوبائی خود مختاری، زبان اور وسائل کی تقسیم جیسے معاملات پر ہونے والے اختلافات سے اس خلیج کا اندازہ ہوتا ہے۔

قرارداد مقاصد پر بحث کے دوران مشرقی پاکستان کے بیشتر نمائندوں نے مذہب اور ریاست کے امتزاج کی بھرپور مخالفت کی۔ مشرقی \"\"پاکستان میں تقسیم کے کچھ ماہ بعد ہی زبان کے مسئلے پر ہنگامے شروع ہو گئے اور جناح صاحب جیسا مقتدر سیاست دان بھی ان ہنگاموں کو روکنے سے قاصر رہا۔ 25 فروری 1948 کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں دھریندر ناتھ دتا نے قومی زبان کے ضمن میں اردو کے ساتھ بنگالی کو مساوی درجہ دینے کی قراردار پیش کی۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے جوابی تقریر میں کہا: پاکستان کروڑوں مسلمانوں کی خواہش کا نتیجہ ہے اور ایک کروڑ مسلمانوں کی زبان اردو ہے۔ ایک قوم کے لئے محض ایک زبان ہونا کافی ہے اور وہ زبان صرف اردو ہی ہو سکتی ہے۔ دھریندر دتا ڈھاکہ پہنچے تو ہوائی اڈے پر نوجوان طلبہ پھولوں کے ہار لئے کھڑے تھے۔ اس بنگالی سیاست دان نے جناح صاحب کی 11 اگست والی تقریر ریڈیو پر سننے کے بعد بھارت کی جگہ پاکستان کا انتخاب کیا تھا۔ 21 فروری 1952 کو بنگالی طلبہ برکت، سلام، جبار اور رفیق پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا شکار ہوئے۔ پاکستان میں بنگالی قوم پرست تحریک کو اپنے اولین شہدا مل چکے تھے۔ آنے والی دہائی میں بنگالی زبان کو کبھی عربی تو کبھی رومن رسم الخط میں لکھنے کی تجاویز سامنے آئیں، حکومت نے ٹیگور کا صد سالہ جشن منانے سے روکا اور وزارت اطلاعات کی جانب سے ریڈیو کو ہدایت موصول ہوئی کہ نظریہ پاکستان سے منافی ٹیگور کے گانے چلانے سے احتراز کیا جائے۔

سماجی کارکن اور لکھاری، طاہر مہدی کے مطابق مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے لئے تقسیم کے معانی بالکل مختلف تھے اور دونوں

\"\"اطراف متفرق سیاسی محرکات پائے جاتے تھے۔ بنگالی عوام کے لئے مذہب، نظریہ پاکستان اور اردو زبان کی حیثیت ثانوی تھی۔ بنگال میں اشرافیہ مقامی ہندوؤں پر مشتمل تھی جب کہ مغربی پاکستان میں اشرافیہ یو پی سے درآمد کی گئی (یا موقع پرستی کے تحت خود ہی آ گئی تھی)۔ یو پی کی اشرافیہ میں بنگال مخالف رویہ تاریخی طور پر موجود تھا۔ انگریز نے سنہ 1757ء میں بنگال کو فتح کیا تھا جب کہ مرکزی ہندوستان 1857ء تک برٹش راج کا باقاعدہ حصہ نہیں بنا تھا۔ بنگال کے باسی اس وقت تک تعلیم کے میدان میں برتر تھے اور سرکاری نوکریوں کے لئے انہیں ترجیح دی جاتی تھی۔ یو پی کی اشرافیہ کے لئے یہ صورت حال قابل قبول نہ تھی اور انہوں نے اپنے طور پر مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ سرسید احمد خان کے بنگالیوں کے متعلق نسل پرست خیالات تاریخ کا حصہ ہیں۔ بنگالی قوم میں اپنی زبان، ثقافت اور معاشرت کے متعلق ایک خاص انسیت پائی جاتی تھی جسے مغربی پاکستان کی اشرافیہ سمجھنے سے قاصر تھی۔ ان حالات میں پاکستان کی وحدت برقرار رکھنا غیر فطری تھا۔

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments