آدھی عورت اور گنگناتی بھوت بچی


\"\"(کمزور دل خواتین اور حضرات اس تحریر کو ضرور پڑھیں۔)

 آپ میں سے کافی لوگ میری تحریر \”دنیا کے آسیب زدہ ہوٹل اور میں\” پڑھ چکے ہوں گے۔ یہ اس کا دوسرا حصہ سمجھ لیں۔ ایسے واقعات لکھنے کے بعد کچھ ساتھیوں نے رابطہ کیا اور اپنی آپ بیتیاں سنائیں۔ ابھی دو دن پہلے جدہ سے واپسی پر دھند کی وجہ سے پرواز تاخیر کا شکار ہو گئی۔ اور واقعی شکار ہی ہوئی، ایسی کہ جدہ ہوٹل سے نکل کر لاہور گھر پہنچنے تک تیرہ گھنٹے لگ گئے۔ دوران پرواز ایک ساتھی سے بات ہو رہی تھی کہ قیام کیسا رہا جدہ میں؟ تو کہنے لگے یار خاور، مجھے یہاں رات میں نیند نہیں آتی۔ سارا دن سوتا ہوں بس۔ رات کو نہیں۔ وجہ پوچھی تو بتایا کہ بس دل گھبراتا ہے، ہوا آج تک کچھ نہیں۔ اسی دوران ہماری ایک سینیئر ساتھی بھی آ گئیں اور پھر ان کی آپ بیتی شروع ہو گئی۔ بہتر ہو گا انھی کی زبانی سنی جائے۔

کہنے لگیں، بہت عرصہ پہلے کی بات ہے ہم لوگ ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم کے ایک بہت مشہور ہوٹل میں قیام کرتے تھے۔ ایک روز معمول کی پرواز پر ڈیوٹی سر انجام دے کر تھکے ہارے ہوٹل پہنچے۔ میری ساتھی کہنے لگی کہ کنیکٹنگ روم لے لینا تا کہ ایک دوسرے کے کمرے میں جانے کی آسانی ہو۔ بس یہی وہ لمحہ خبیثیہ تھا جب ہم نے استقبالیہ پر کھڑے آدمی سے کنیکٹنگ روم کی درخواست کی۔ کمرے میں آ کر سامان رکھا۔ کھانا کھایا۔ قران پاک کا نسخہ جو ہر وقت دستی سامان میں موجود ہوتا ہے، سائیڈ ٹیبل پر رکھا، نماز پڑھی اور سو گئے۔

رات کے کسی پہر آنکھ کھلی تو محسوس ہوا کمرے میں ہم دونوں کے علاوہ کوئی اور بھی موجود ہے۔ خوف کی وہ مخصوص کیفیت ریڑھ  کی ہڈی میں سنسنا گئی اور میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ بیڈ کے سامنے دو ٹانگیں نظر آ رہی ہیں۔ ہمت کر کے تھوڑا اور اوپر دیکھا تو سکرٹ نظر آیا۔ اس سے اوپر دیکھا تو کمرے میں موجود ٹی وی اور دیوار نظر آنے لگی۔ غیر یقینی کی کیفیت کے ساتھ پھر نیچے دیکھا تو چار نہیں، چالیس طبق روشن ہو گئے۔ ساتھ ساتھ کمرے کی لائٹ بھی روشن کرنی پڑی۔ ایک سکرٹ اور دو ٹانگیں آپ کے کمرے میں گھوم \"\"رہی ہوں تو آپ کیا کریں گے؟ ظاہر ہے خدا کو یاد کریں گے۔ چنانچہ کچھ بولنا چاہا تو آواز بند۔ گردن موڑ کر دیکھا تو میری دوست بھی خوف اور حیرانگی کے ساتھ اس آدھی عورت کو دیکھ رہی تھی اور کچھ بولنے سے قاصر تھی۔ بڑی مشکل سے ہاتھ بڑھا کر قران پاک اٹھایا تو اس آدھے جسم نے کمرے میں تیز تیز چلنا شروع کر دیا، پردے کھلنے اور بند ہونے لگے اور پھر دونوں کمرے تمسخرانہ قہقہوں سے گونج اٹھے جیسے وہ ہنس کے کہہ رہی ہو \” کوئی فائدہ نہیں\”۔ وہ دونوں کمروں کے عین بیچ والے دروزے پر کھڑی تھی۔ نقشہ کچھ ایسا تھا کہ باہر نکلنے کا دروازہ بھی بیچ والے دروازے کے ساتھ تھا۔ نہایت مشکل سے ورد شروع کیا۔ اور ایک مرتبہ جب اس نے کھڑکی کا رخ کیا تو ہم دونوں نے ہمت کر کے کمرے سے باہر نکلنے کی کوشش کی جو کامیاب رہی۔

دوڑتے ہوئے لابی میں پہنچے تو دیکھا ہمارے سینیئر بھی وہاں موجود ہیں۔ رنگ اڑا ہوا اور پریشان حال۔ کہنے لگے تم دونوں کو کیا ہوا ہے؟ ہم نے بتایا کہ ہمارے کمرے میں آدھی عورت نے قبضہ جمایا ہوا ہے۔ یہ سنتے ہی ان کے چہرے کا پیلا ہوتا ہوا رنگ سفیدی سے جا ملا۔ ہم نے کہا آپ کے ساتھ کیا بیتی؟ تو کہنے لگے وہ باقی آدھی عورت میرے کمرے کی کھڑکی سے چپکی ہوئی ہے۔ فرماتے ہیں نماز پڑھ رہا تھا۔ کھڑکی کے پردے کھلے ہوئے تھے۔ باہر ابھی اندھیرا تھا۔ ایک ہیولا سا نظر آیا۔ میں نے سوچا شاید کھڑکیاں صاف کرنے والا عملہ ہے۔ اٹھ کر جو پردہ برابر کرنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں ایک عورت کا کٹا ہوا بالائی دھڑ ہے جو کھڑکی سے چپکا ہوا ہے۔ اس کی انگلیاں حرکت کر رہی تھیں اور سانس بھی چل رہی تھی۔ بس بڑی مشکل سے نیچے پہنچا ہوں۔\"\"

مینجر آیا۔ ہم نے اپنی اپنی روداد سنائی۔ اس نے معذرت کی۔ پتہ یہ چلا کہ جو کمرے ہمیں دیئے گئے وہ مہمانوں کو دینا ممنوع تھے۔ جس نے دیئے وہ غالبا نیا بھرتی ہوا تھا۔ دو دو گارڈز کے ساتھ ہم کمروں میں گئے۔ اپنا سامان اٹھایا اور نئے کمروں میں شفٹ ہوئے۔ وطن واپس آئے۔ ہیڈ آفس جا کر یہ جان لیوا واقعہ بتایا۔ اس کے بعد ایمسٹرڈیم کے بجائے قریبی علاقے روٹرڈیم میں ہوٹل کا انتظام کیا گیا۔

پھر ایک بار لندن کے ہوٹل میں رات کے وقت آنکھ کھلی تو ایسی آواز آ رہی تھی جیسے کوئی سیٹی بجا کر گنگنا رہا ہو۔ میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ دیکھا تو ڈریسنگ ٹیبل پر ایک بچی بیٹھی اپنے گیلے بالوں میں کنگھی کر رہی ہے۔ میرے اٹھتے ہی اس نے گنگنانا بند کر دیا اور گھوم کر مجھے دیکھنا شروع کر دیا۔ شکر خدا کا بچی کی شکل پیاری تھی۔ اپنے اوپر قابو رکھا اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تو وہ بچی باتھ روم میں چلی گئی اور دروازہ بند کر لیا۔ اسی وقت کمرے کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا۔ میں نے دروازے میں موجود ویونگ ہول سے دیکھا تو ایک کالا حبشی ویٹر کھانے کی ٹرے لیئے کھڑا تھا۔ میں نے کہا کہ میں نے کوئی آرڈر نہیں دیا مگر وہ بضد تھا کہ آرڈر آپ کے کمرے کا ہی ہے۔ میں نے ریسپشن فون ملایا اور پوچھا، انھوں نے روم سروس سے پوچھا۔ جواب یہی تھا کہ آپ کے کمرے سے کھانا آرڈر کیا گیا ہے۔ میں نے پھر بھی دروزہ نہیں کھولا اور ویٹر کو واپس بھیج دیا۔ اگلے دن تمام معاملہ مینجر کو بتایا۔ جانچ کی تو معلوم ہوا کہ روم سروس کے پاس جو کال گئی تھی اس کا ریکارڈ کال ریکارڈز میں نہیں تھا اور نا ہی آپریٹر کے پاس۔ اس وقت کمرے سے ڈائیریکٹ روم سروس کال ملانا ناممکن تھا۔

چنانچہ اگر کبھی ہوٹل میں بغیر منگائے کھانا آ جائے تو سوچ سمجھ کر کمرے کا دروازہ کھولئیے گا۔ زیادہ بھوک لگی ہو تو کھایا بھی جا سکتا ہے، کھانا تو کھانا ہوتا ہے، انسان لے کر آئے یا بھوت۔


دنیا کے آسیب زدہ ہوٹل اور میں
خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 40 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments