چانکیہ : ایک عظیم عالم یا شیطان مجسم؟


\"\"

ٹیکسلا یونیورسٹی کا وہ عالم کی جو ہندو نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے نزدیک عیار ہندو ذہنیت اور بدی کی علامت ٹھہرا ہے۔

چانکیہ۔ ہمارے عام آدمی کے لیے منفی ہندو ذہنیت کا استعارہ ہے۔ لیکن دنیا کے لیے وہ اتنا عظیم عالم ہے کہ اس کا نام پولیٹکل سائنس کے بانیوں افلاطون اور ارسطو کے ساتھ لیا جاتا ہے، تو دوسری طرف اسے آدم سمتھ کی کلاسیکی اکانومی سے پہلے کے دور کا عظیم ترین معیشت دان جانا جاتا ہے۔

ہمارے اپنے ٹیکسلا کا یہ فرزند ہمارے لیے نفرت کا نشان ہے۔ لیکن اس کے بارے میں ہمارے علم کا یہ عالم ہے کہ ہم اس کا نام بھی درست طریقے سے نہیں لیتے ہیں، اور اسے چا۔نک۔یا کی بجائے چانک۔یا کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور اسے ہندو ذہنیت کا نمائندہ قرار دیتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچتے کہ چانکیہ ہندو نہیں تھا بلکہ ہندو برہمنوں کے خلاف پیدا ہونے والے مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ آئیے اس کے بارے میں مزید کچھ جانتے ہیں۔

\"\"یہ محترم تقریباً 350 قبل از مسیح میں پیدا ہوئے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ چانکیہ کی جائے پیدائش ٹیکسلا تھی۔ کچھ اسے شمالی ہندوستان کا پیدائشی قرار دیتے ہیں۔ اور کچھ جنوبی ہندوستان کا۔ ہر خطہ اسے اپنانے کے لیے بے قرار ہے۔ سوائے ٹیکسلا کے۔ جسے کے بارے میں سب متفق ہیں کہ چانکیہ نے وہیں ابتدائی تعلیم پائی اور بعد میں ٹیکسلا یونیورسٹی سے ہی اعلی تعلیم پا کر وہاں استاد بنا۔

چانکیہ کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ مختلف حکایات ہی ملتی ہیں۔ کچھ کہتی ہیں کہ وہ پاٹلی پتر، موجودہ پٹنہ، کے مگدھ نندا راجہ کے دربار میں ایک وزیر کے توسط سے گیا، اور وہاں سے نندا راجہ نے اسے بے عزت کر نکال دیا۔ اس پر چانکیہ نے قسم کھائی کہ وہ مگدھ کی سلطنت تباہ کر دے گا۔ کچھ کہتے ہیں کہ جب سکندر یونانی نے ٹیکسلا فتح کیا تو چانکیہ مگدھ کے راجہ کے پاس گیا کہ یونانیوں کو یہاں سے نکال دو۔ لیکن مگدھ کے راجہ نے الٹا چانکیہ کو ہی نکال دیا۔ اس پر چانکیہ نے مگدھ سلطنت کو تباہ کرنے کی قسم کھائی۔

\"\"بہرحال، ٹیکسلا میں ہی چانکیہ اور ایک بے سر و سامان کھشتری چندر گپت کی ملاقات ہوئی۔ دونوں نے مل کر اس طاقت ور مگدھ سلطنت کو فتح کرنے کا خواب دیکھا جس کے دو لاکھ پیدل فوجیوں، اسی ہزار گھڑ سواروں، آٹھ ہزار جنگی رتھوں، اور چھے ہزار جنگی ہاتھیوں کی فوج کا ذکر سن کر ہی پورس کی لڑائی سے حواس باختہ سکندر کی یونانی سپاہ نے سکندر سے بغاوت کر کے واپسی کی راہ اختیار کی تھی۔

بہرحال ہمالیہ کے راجہ پرواتکا، جو بعض لوگوں کے نزدیک پورس کا ایک نام ہے، کے ساتھ مل کر مگدھ کے خلاف جنگ شروع ہوئی۔ 322 قبل از مسیح تک چندر گپت موریہ نے مگدھ کو فتح کر لیا تھا۔ 323 قبل از مسیح میں سکندر کے مرحوم و مغفور ہونے کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے صوبے داروں سے بھی چندر گپت موریہ کی جنگیں شروع ہو گئی تھیں۔ ان صوبے داروں میں سے کم از کم دو نے مشکوک حالات میں داعی اجل کو لبیک کہا جس میں چانکیہ کے جاسوسوں کا ہاتھ ہونے کا شبہ کیا جاتا ہے۔ ان جنگوں میں چندر گپت نے موجودہ پاکستان کا کافی علاقہ یونانیوں سے واپس چھین لیا۔ 305 قبل از مسیح میں سکندر کے جانشینوں میں سے سب سے طاقتور، سلیکوس سے چندر گپت کی جنگ ہوئی۔ سلیوکس گندھارا سے لے کر ایران اور بابل تک کا بادشاہ تھا۔

\"\"چانکیہ کی سکھائی پڑھائی کام آئی اور چندر گپت مورنہ نے سلیوکس کو جنگ میں شکست دی۔ سلیوکس نے اپنی بیٹی کی شادی چندر گپت موریہ سے کر کے اور موجودہ پاکستان کا تقریباً پورا علاقہ اور موجودہ افغانستان کا کافی زیادہ حصہ چندر گپت کی نذر کیا۔ چندر گپت موریہ نے ازراہ کرم پروری سلیکوس کو پانچ سو جنگی ہاتھیوں کا تحفہ دیا۔ ان ہاتھیوں ہی کی وجہ سے سلیوکس نے سکندر کے دوسرے کامیاب ترین جرنیل جانشین بادشاہ، اینٹی گونس کو اناطولیہ میں شکست دی۔

بہرحال، اس زمانے میں ریٹائرمنٹ ایج شاید چالیس پینتالیس سال تھی، تو جین مت کو ماننے والا چندر گپت موریہ محض اکتالیس بیالیس سال کی عمر میں راج پاٹ اپنے بیٹے بندوسار کے سپرد کر کے سادھو ہو گیا۔ اور جین روایات کے مطابق تادم مرگ فاقہ کشی اختیار کر کے پرلوک سدھار گیا۔

اس کے بعد چانکیہ نے بندوسار کے لیے وزارت کی ذمہ داری سنبھال لی اور اس کی مدد سے بندوسار نے سولہ ریاستوں کو شکست دے کر انہیں اپنی سلطنت میں شامل کیا اور بحیرہ عرب سے لے کر خلیج بنگال تک کا علاقہ اس کی سلطنت میں شامل ہوا۔ 275 قبل از مسیح میں چانکیہ کا انتقال ہوا۔

چانکیہ کے انتقال پرملال کے بارے میں دو روایتیں مشہور ہیں۔ ذرا سنسنی خیز والی یہ ہے کہ مہاراجہ چندرگپت کو زہر کے ذریعے موت سے بچانے کے لیے چانکیہ اسے روز تھوڑا تھوڑا زہر دے کر اس کا عادی بنا رہا تھا (نوٹ کریں، کوئی محقق کوشش کرے تو کچھ زور لگا کر ویکسین بھی ممکنہ طور پر چانکیہ کی ایجاد ثابت کی جا سکتی ہے)۔ ایک دن مہاراجہ کا کھانا مہارانی تناول فرما گئیں اور انتقال فرما گئیں۔ اس وقت وہ حاملہ تھیں اور چانکیہ نے اسی وقت اپنے خنجر سے بڑا آپریشن کر کے راجکمار بندوسار کو مہارانی کے پیٹ سے نکال کر بچا لیا۔ بعد میں پینتالیس سال کی عمر میں مہاراجہ بندوسار پر ان کے وزیر سبندھو نے، جو چانکیہ سے جلتا تھا، یہ راز فاش کیا کہ چانکیہ کا دیا ہوا زہریلا کھانا کھانے کی وجہ سے مہاراجہ کی اماں سورگ باشی ہوئی تھیں، تو مہاراجہ چانکیہ سے شدید ناراض ہو گئے۔ چانکیہ کو پتہ چلا کہ مہاراجہ اس سے اس حد تک ناراض ہے تو چانکیہ نے، جو جین مت کا پیروکار تھا، موت کے لیے جین مت کی ایک عمومی روایت کا سہارا لیا۔ تادم مرگ فاقہ کشی کا، جیسے چندر گپت نے بھی کیا تھا۔

\"\"

اسی اثنا میں بندوسار کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے سبندھو کو چانکیہ کے پاس بھیجا کہ مہاراج، اپنا فاقہ توڑ کر زندگی کی طرف لوٹ آئیں۔ لیکن سبندھو نے چانکیہ کو زندگی کی طرف واپس لانے کی بجائے اسے زندہ جلانے کی رسم کا بندوبست کر دیا۔ اس کے تین سال بعد بندوسار بھی راج پاٹ اپنے بیٹے اشوکا کے حوالے کر کے سادھو بن گیا اور خود فوت ہو گیا۔ بندوسار اپنے باپ چندر گپت اور چانکیہ کے برعکس جین مت کی بجائے ایک ناستک مذہب آجیویکا کا پیروکار تھا۔

دوسری ذرا کم مصالحے والی روایت، جو کہ حقیقت کے زیادہ قریب ہے وہ یہ کہتی ہے کہ عیار و مکار چانکیہ، کسی کل کے بچے وزیر کی سازش کا شکار نہیں ہوا تھا۔ جب اس کی عمر تقریباً پچھتر برس ہو گئی، تو وہ سادھو ہو گیا اور جین مت کے فاقہ کشی کے ذریعے فوت ہونے کے مقبول طریقے کے ذریعے آنجہانی ہو گیا۔

چانکیہ کی کتاب ارتھ شاستر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے تین حصے ہیں۔ انتظامیہ، ضابطہ قانون و انصاف، اور خارجہ پالیسی۔ ہماری روایات میں چانکیہ اپنی اسی خارجہ پالیسی، اور دشمن کو شکست دینے کے لیے جاسوسی اور سبوتاژ کی کارروائیاں کرنے کے طریقے سکھانے کی وجہ سے ”ہندو عیاری“ کی علامت بن گیا ہے۔ حالانکہ یہ طریقے ہر ریاست اختیار کرتی ہے۔ ان میں مسلم اموی اور عباسی خلافتیں بھی شامل ہیں، اورنگ زیب جیسا نیک بادشاہ بھی، اور انہیں کارروائیوں کی وجہ سے ہم دعوی کرتے ہیں کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں نمبر ون ہیں۔ لیکن انہیں کارروائیوں کا سلیبس اگر چانکیہ مرتب کرے تو وہ ہندو نہ ہونے کے باوجود ”شیطانی ہندو ذہنیت“ کی علامت قرار پاتا ہے۔

\"\"

ارتھ شاستر میں خارجہ پالیسی کے علاوہ بہت کچھ ہے۔ علوم و فنون، زراعت، معیشت، ازدواجیات، سیاسیات، صنعت و حرفت، قوانین، رسوم و رواج، ادویات، فوجی مہمات، اور ریاست کے استحکام سمیت بہت سے موضوعات پر اس میں تفصیلی بحث کی گئی ہے۔

آزادی کے بعد بھارتی حکومت نے نئی دلی کا ڈپلومیٹک انکلیو بنایا تو اس کا نام چانکیہ پوری رکھا۔ 1956 میں چانکیہ پوری میں مشہور امریکی چیف جسٹس ارل وارن نے امریکی سفارت خانے کا سنگ بنیاد رکھا تو کہا کہ ”انڈیا کے پاس حضرت مسیح کی ولادت سے تین سو سال پہلے ایک ایسا عظیم دانشور تھا جس نے کہا کہ ایک حکمران ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو اپنی رعیت کو ناخوش نہیں کر سکتا ہے اور اسے ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جس سے اس کے عوام اسے ناپسند کرنے لگیں“۔

اس جین مت کے پیروکار چانکیہ کی بس ایک غلطی شاید ہم معاف نہ کر سکیں۔ اور وہ یہ کہ وہ دنیا میں طلوع اسلام سے نو سو برس پہلے پیدا ہو گیا۔ ورنہ ہم اپنے ٹیکسلا کے اس عظیم عالم کو شاید اتنا برا نہ جانتے۔

چانکیہ کے بارے میں محض جہالت اور تعصب کی بنا پر رائے بنانی ہے تو دوسری بات ہے، ورنہ اس کی کتاب پڑھ کر اسے جاننے کی زحمت تو کر لیں۔


چانکیہ کی کتاب ارتھ شاستر میں کیا لکھا ہے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments