چڑیا گھر کا المیہ


\"\"ایک شہر میں ایک چڑیا گھر تھا جس میں ایک شیر لایا گیا۔ اسے پنجرے میں بند کر دیا گیا۔ وہاں کچھ بڑے بوڑھوں کو شیر سے خوف آتا تھا۔ لہٰذا انہوں احتجاج شروع کر دیا کہ یہ خوف کی علامت ہے۔ اس سے ان کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی اہمیت اتنی تھی کہ چڑیا گھر کی انتظامیہ نے واقعی اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے غور شروع کردیا۔ شیر جو آچکا تھا اسے واپس کرنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔

کسی نے ایک لطیفہ سنایا کہ پاکستان کی پولیس تو اتنی ‘پیشہ ور’ ہے کہ سنا ہے کہ ایک چوہے نے چوری کی تو انہوں نے ہاتھی کو پکڑ لیا۔ تھوڑی سی ‘تفتیش’ کے بعد ہی ہاتھی نے اقرار جرم کرتے ہوئے یہ بھی بیان ریکارڈ کرا دیا کہ وہ حقیقتاً ایک چوہا ہے۔ چڑیا گھر والے تو پہلے ہی چاہتے تھے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے۔ لہٰذا انہوں نے اس لطیفے سے ایک اچھوتا خیال لیا۔ انہوں نے اپنے چڑیا گھر کا قانون دیکھا جس میں لکھا تھا کہ چڑیا گھر کی انتظامیہ کو یہ اختیار ہے کہ جانوروں کا تعارف خود کروائے۔ لہٰذا انہوں نے یہ حل نکالا کہ شیر کے جنگلے کے باہر بلی کا لیبل لگا دیا۔ اور بڑے بوڑھوں کو بتایاگیا کہ آپ کا مطالبہ تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اب یہ شیر نہیں ہے بلکہ اسے بلی ‘قرار’ دے کر اس کے نام کی جگہ بھی بلی لکھ دیا گیا ہے۔

بس جناب پھر کیا تھا بلے بلے ہوگئی۔ چڑیا گھر کی انتظامیہ کو خراج تحسین پیش کیا گیا کہ انہوں نے ایک پرانے مسئلے کو حل کرکے معاملہ \"\"‘طے’ کر دیا ہے۔ لہٰذا اب چڑیا گھر میں شیر نہیں ہے بلکہ بلی ہے۔ ابھی اس فیصلے کا جشن ختم نہ ہوا تھا کہ ایک اور مسئلہ ہو گیا۔ شیر دھاڑتا بھی تھا اور اپنی خوراک بھی کھاتا تھا اور شیروں کی طرح زندگی بھی گزارتا تھا اور شیر کی طرح دکھائی بھی دیتا بھی تھا۔ اب بڑے بوڑھوں کے لئے ایک نیا مسئلہ ہوگیا کہ آنے جانے والوں کو کیسے منایا جائے کہ یہ شیر نہیں ہے بلکہ بلی ہے۔ لہٰذا اعلان کیا گیا یہ جناب چڑیا گھر کے قانونی فیصلے کے مطابق یہ شیر نہیں ہے بلکہ بلی ہے۔ اگر کوئی اسے شیر سمجھے گا یا کہے گا تو اسے چڑیا گھر کے قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ اب دوسری طرف پاکستان کی پولیس سے بھی رابطہ کیا گیا کہ جناب آپ کی بڑی تعریفیں سنیں ہیں۔ ایک مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ ایک بلی ہے وہ اپنے آپ کو شیر کہہ کر جرم کا ارتکاب کرتی ہے۔ جناب آپ نے بڑے بڑے بگڑے سدھارے ہیں ذرا اس بلی کے مزاج درست کر دیں کہ یہ شیر جیسی نہ لگے اور نہ ہی شیر جیسی حرکتیں کرے۔ بلکہ وہ کرے جو بلیاں کیا کرتی ہیں۔ پاکستانی پولیس نے کہا بس یار لوگوں نے ایویں مشہوری کر رکھی ہے۔ اب ہم اسے بلی تو دکھا نہیں سکتے ہاں اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ جو اسے شیر کہے اسے پکڑ لیں۔ بس پھر کیا تھا۔ اب وہاں ایک ایسی بلی تھی جو شیر جتنی بڑی تھی۔ شیر والی حرکتیں کرتی تھی۔ خوراک بھی شیر والی کھاتی تھی۔ لیکن وہ قانونی طور پر بلی ہی تھی اور سب اسے بلی کہنے پر مجبور تھے۔

چڑیا گھر والوں نے اپنی طرف سے ایک مسئلے کو تو طے کر کے اس کی داد وصول کرلی لیکن اس مسئلے نے کئی نئے مسئلوں کو جنم دے\"\" دیا۔ اب بڑے بوڑھے چاہتے تھے کہ شیر نظر بھی بلی کی طرح آئے اور حرکتیں بھی بلی کی طرح کرے۔ مگر نہ تو چڑیا گھر والوں کےلئے ایسا ممکن تھا، نہ پولیس کے لئے۔ اور کئی لمڈے تو شرارت سے اس پر شیر کا آوازہ بھی کس دیتے تھے۔ کبھی کوئی ناواقف سوال بھی کر دیتا تھا کہ بھئی شیر کے جنگلے پر بلی کیوں لکھ دیا ہے۔ اس پر چڑیا گھر کی انتظامیہ بڑی جلدی ایکشن کرتی اور اس کا منہ بند کروا دیتی کہ جناب یہ طے شدہ امور ہیں آپ سوال کرکے فساد کی ایک نئی راہ کھول رہے ہیں۔ لہٰذا اب چڑیا گھر میں شیر کے حوالے سے ہر قسم کے سوال کی بھی پابندی ہے۔ سب اسے بلی کہتے ہیں۔ رہے وہ بڑے بوڑھے تو وہ اب بھی چڑیا گھر کی انتظامیہ سے خوش نہیں ہیں۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ اس ‘بلی’ کو شیر کے پنجرے سے نکال کر بلی کے ڈربے میں ڈالا جائے تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ واقعی بلی ہے۔ اب یہ مسئلہ سب کےلئے ایک نئے فساد کا باعث بن رہا ہے۔ سمجھ نہیں آرہی کہ اب کونسی سائنس لڑائی جائے۔ پاکستانی پولیس بھی جواب دے گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments