سونار بنگال۔۔۔ وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے؟


\"\"تقسیم کے بعد پاکستان میں قائم کیا جانے والا سیاسی بندوبست مشرقی پاکستان کی ان محرومیوں کے ازالے میں ناکام رہا جن کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ آئین سازی سے کاروبارِ حکومت تک مشرقی پاکستان سے اٹھنے والی آوازوں کو پنجاب اور یوپی سے آنے والی مقتدر اشرافیہ نے نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ انہیں اختیار اور وسائل سے بھی محروم رکھا۔ ان گروہوں کی سیاسی سرد مہری نے مشرقی پاکستان میں سیاسی تنہائی کا احساس پیدا کیا اور مقامی آبادی مسلم لیگ اور دارالحکومت کراچی سے متنفر ہونے لگی۔ یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ مشرقی پاکستان کے احساسِ محرومی کی کوئی ایک شکل نہیں تھی۔ سیاسی، ثقافتی، انتظامی اور معاشی، غرض ہر میدان میں مشرقی پاکستان کے عوام کی رائے کو مختلف حیلے بہانوں سے مسترد کیا گیا۔

ڈھاکہ میں قائم ہونے والی آل انڈیا مسلم لیگ، 50ء کی دہائی میں سیاسی طور پر بری طرح ناکام ہوئی اور اس کی جگہ بنگالی قوم پرست جماعتوں نے لینی شروع کر دی۔ مسلم لیگ کی مقبولیت میں کمی کی وجہ وہ احساسِ محرومی تھا جو مغربی پاکستان میں مقیم اشرافیہ کے رویے کی پیداوار تھا۔ ستمبر 1950ء میں بنیادی اصولوں کی عبوری رپورٹ شائع ہوئی تو اردو کو واحد قومی زبان کے طور پر رکھا گیا۔ اس تجویز پر مشرقی پاکستان میں فوری رد عمل ہوا۔ خواجہ ناظم الدین نے جنوری 1952ء میں مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران بیان دیا کہ پاکستان کی زبان اردو اور صرف اردو ہو گی۔ اس کے بعد بنگالی زبان کے حق میں شروع ہونے والے مظاہرے 21 فروری 1952ء کے جلوس پر منتج ہوئے جہاں تین بنگالی طلبہ پولیس کے لاٹھی چارج کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہر سال اس اس تاریخ کو عالمی دن برائے مادری زبان منایا جاتا ہے۔ علی احمد خان کے مطابق: ’مظاہرے کے دن میں دیناجپور میں تھا اور اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ یہاں بھی طلباء کے احتجاجی جلوس نکلے اور گرفتاریاں عمل میں آئیں لیکن آپ مانئے کہ یہاں بہاریوں یا اردودان حضرات کی اکثریت نے کھلم کھلا حکومت کے اس اقدام کی حمایت کی اور بنگالیوں کو ’میر جعفر کی اولاد‘، ’ہندوستان کے ایجنٹ‘ وغیرہ جیسے القاب سے پکارا گیا۔ مرکزی حکومت کے اس رویے سے یہ نتیجہ نکلا کہ وہ بنگالی جو اردو میں دلچسپی رکھتے تھے، وہ بھی اس سے کنارہ کش ہو گئے‘۔

مارچ 1954ء میں مشرقی بنگال کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے جن میں حزب اختلاف نے متحدہ محاذ کی شکل میں حکمران جماعت \"\" (مسلم لیگ) کا مقابلہ کیا۔ اس اتحاد بنام جگتو فرنٹ میں عوامی لیگ، گنو تنتری دل، کرشک سرامک پارٹی اور نظام اسلام پارٹی شامل تھیں۔ انتخابات میں اسمبلی کی 273 میں سے 251 نشستیں جگتو فرنٹ نے جیت لیں جب کہ مسلم لیگ کو صرف9 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی (طاہر مہدی کے مطابق صوبائی انتخابات کے نتائج کے وقت ہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا)۔ 3 اپریل کو شیر بنگال فضل الحق نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ مئی کے مہینے میں ڈھاکہ سے متصل شہر نرائن گنج کی ایک فیکٹری میں بنگالی اور غیر بنگالی مزدوروں کے مابین تصادم کو بہانہ بنا کر مرکزی حکومت نے مشرقی پاکستان میں گورنر راج نافذ کر دیا۔ سنہ 1956ء کا آئین اتفاق رائے سے منظور نہیں کیا گیا اور 80 اراکین کے ایوان میں 21 اراکین نے واک آؤٹ کیا جن میں عوامی لیگ کے بارہ اراکین شامل تھے۔ اختلاف کی وجوہات میں آئین کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش اور جداگانہ یا مخلوط انتخاب کا مسئلہ شامل تھے۔ مخلوط انتخابات کے مسئلے کو التوا میں ڈال دیا گیا کہ اس پر دونوں صوبائی اسمبلیوں کی رائے معلوم کی جائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی پاکستان کی اسمبلی نے جداگانہ انتخاب کے حق میں جب کہ مشرقی پاکستان کی اسمبلی نے مخلوط انتخاب کے حق میں ووٹ دیا۔ اس موقعے پر قومی اسمبلی میں ایک مصالحتی بل منظور کیا گیا جس میں مشرقی پاکستان میں مخلوط انتخابات اور مغربی پاکستان میں جداگانہ انتخاب ہونا قرار پایا۔

 حسن ظہیر کی کتاب The Separation of East Pakistan کے مطابق مشرقی پاکستان میں عوام کی فی کس آمدن مغربی حصے کے \"\"عوام سے بہت کم تھی۔ فوج، انتظامیہ اور حکومت میں بنگالی افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ مغربی پاکستان کے بڑے صنعت کاروں نے اپنے کارخانے مشرقی پاکستان میں لگا رکھے تھے اور مملکت خداداد کو جتنی کمائی مشرقی حصے سے حاصل ہوتی تھی، اس کا عشر عشیر بھی وہاں کے عوام پر خرچ نہیں ہوتا تھا۔ شیخ مجیب الرحمان (جو کسی دور میں کٹر مسلم لیگی ہوتے تھے) سے ایک یادگار فقرہ منسوب ہے: ’مجھے اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے‘ (پٹ سن مشرقی پاکستان کی بنیادی برآمدی جنس تھی)۔ مغربی پاکستان کے حکمران بنگالیوں کو اچھوت سمجھتے تھے اور اس حقارت کا اظہار ایوب خان نے اپنی ڈائری میں بھی کیا ہے۔ ایوب خان 65ء کی جنگ کے بعد ڈھاکہ آئے تو کچھ سیاسی کارکنان سے ملاقات کی۔ ایک خاتون نے سوال کیا کہ آپ نے حال ہی میں بھارت سے تاشقند معاہدہ کیا ہے جس سے جھگڑا ختم ہوا، آپ ہم سے بھی کوئی معاہدہ کیوں نہیں کر لیتے؟ ایوب خان نے جواب دیا: وہاں ہم آدمی کے ساتھ بولتے تھے، یہاں سب جانور ہے۔ معاہدہ تاشقند کے بعد ایوب حکومت پر زوال کا موسم آیا۔ ملک کے دونوں حصوں میں ایوب مخالف تحاریک شروع ہوئیں اور مارچ 1969ء میں یحییٰ خان نے ایوب خان سے استعفیٰ لے کر ملک کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا۔ ایوب مخالف تحریک ملک کے مشرقی حصے میں عوامی لیگ اور مغربی حصے میں بھٹو صاحب کی نو تشکیل شدہ پیپلز پارٹی نے چلائی تھی۔ پیپلز پارٹی کو بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی حمایت حاصل تھی۔

کرنل نادر علی سنہ 1962ء سے 1966 تک مشرقی پاکستان میں تعینات رہے اور ان کے مطابق وہ ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ وہ ایوب خان\"\" بمقابلہ فاطمہ جناح صدارتی انتخاب کو مشرقی پاکستان کے لئے ایک اہم موڑ گردانتے ہیں۔ اس انتخاب میں مشرقی پاکستان سے فاطمہ جناح کو ایوب کی نسبت زیادہ ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ سنہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بنگال کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا اور ملک کے اس حصے کے دفاع کی خاطر محض ایک یا ڈیڑھ برگیڈ فوج (ساڑھے چودہ ہزار افراد) موجود تھی۔ کرنل صاحب کے مطابق مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی لہر آنے کی اصل وجہ مشرقی پاکستان کے سیاسی فیصلوں کو نظر انداز کرنا تھا۔ سنہ 1968ء کے اگرتلہ سازش کیس کے دوران لگائے الزامات بقول کرنل نادر علی، فوجی میسوں میں روز مرہ کے مذاق تھے۔ سنہ 65ء کی جنگ کے بعد حکومت نے ایک قانون بنام (Enemy Property Act) نافذ کیا جس کے تحت ہندوؤں کی جائیدار پر بحق سرکار قبضہ کیا جا سکتا تھا۔ ان حالات میں مشرقی پاکستان کی ہندو آبادی نے بھارت کا رخ کیا۔

مشرقی پاکستان کے عوام میں بتدریج یہ احساس جڑ پکڑنے لگا کہ مغربی پاکستان کو ان کے مفاد، فلاح اور مستقبل سے کچھ غرض نہیں۔ اس احساس کو تقویت نہ صرف پینسٹھ کی جنگ میں مشرقی محاذ پر کمزور دفاعی قوت سے ملی بلکہ قدرتی آفات کے نتیجے میں امداد کی عدم فراہمی نے بھی مقامی لوگوں کو پاکستان سے بیگانہ کیا۔ نومبر 1970ء میں ایک طوفانی سیلاب (cyclone) مشرقی پاکستان پر وارد ہوا۔ 150 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ابھرنے والے اس بدترین ’بھولا‘ طوفان کے نتیجے میں امریکی امدادی اداروں کے اندازے کے مطابق ڈھائی لاکھ افراد مارے گئے۔ امریکی، روسی اور برطانوی امدادی ادارے فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں پہنچے اور کارروائی کا آغاز کیا۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے پھس پھسا رد عمل سامنے آیا اور حکومتی مشینری کی جانب سے امدادی مہم کمزور رہی۔

اسی پس منظر میں پاکستان کے پہلے عام انتخابات 7 دسمبر کو منعقد ہوئے۔ ایوب خان کے بعد اقتدار سنبھالنے والے یحییٰ خان نے ایک عبوری \"\"آئین پیش کیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخاب کروانے کا اعلان کیا۔ انتخاب میں حصہ لینے والی جماعتوں کو پابند کیا گیا کہ انتخابی تحریک ’نظریہ پاکستان‘ کے موافق چلائی جائے۔ عوامی لیگ نے چھ نکات کی بنیاد پر انتخاب میں حصہ لیا جب کہ پیپلز پارٹی نے ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کی فراہمی کا وعدہ کیا۔ عوامی لیگ نے الیکشن میں واضح کامیابی حاصل کی لیکن یحییٰ خان اور بھٹو صاحب اقتدار کی منتقلی کے حق میں نہیں تھے۔ عوامی لیگ نے یحییٰ خان کو انتخابی مہم کے دوران تسلی دی تھی کہ چھ نکات کو صرف ووٹ حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن انتخاب کے بعد انہوں نے ملک کا نیا آئین انہی چھے نکات کی روشنی میں بنانے پر اصرار کیا۔ بھٹو صاحب نے ایک موقع پر اپنی جماعت کے کامیاب ارکان سے استعفے طلب کر لئے اور ان کو اسمبلی کے اجلاس میں شمولیت سے منع کر دیا۔ لاہور میں تقریر کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کا اعلان کیا۔ یحییٰ خان نے جواب میں بیان دیا کہ جب ٹانگیں ٹوٹ جائیں تو مجھے مطلع کرنا، میں کوئی بندوبست کر دوں گا۔

انتخابی نتائج کے بعد عوامی لیگ کو اقتدار نہ ملنے کے باعث ملک شدید آئینی، سیاسی اور انتظامی بحران کا شکار ہو گیا۔ اس قانونی قضیے کے حل کے لئے ڈھاکہ میں سہ فریقی مذاکرات منعقد ہوئے (جو بلا نتیجہ ختم ہو گئے)۔ سات مارچ 1971ء کو ڈھاکہ کے رمنا ریس کورس میدان میں ٹھاٹھیں مارتے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمان نے کہا: ہماری گلیاں طلبہ کے خون سے لبریز ہیں، یحییٰ خان نے اپنی بندوقیں میرے مظلوم لوگوں پر تان رکھی ہیں اور یہ بندوقیں انہی لوگوں کی محنت کی کمائی سے خریدی گئی تھیں۔ اس تقریر میں انہوں نے یحییٰ خان کو ڈھاکہ آنے کی دعوت دی، مارشل لاء کے خاتمے اور فوج کو بیرکوں میں واپس بھیجنے کی درخواست کی۔ مگر کاتبانِ تقدیر ابھی مزید لاشوں کے متمنی تھے۔

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments