نمبر ون کون۔۔۔ گوگل سرچ کا فیصلہ


\"\" اس نے غیرت کی ہر حد پار کر دی. گاؤں میں شادی کی، بچہ پید اکیا، طلاق لی اور فرار…

دوسری جگہ پڑاؤ ڈالا، دوسری شادی کی، مال ودولت سمیٹی، اور فرار…

اسے ہوس تھی شہرت کی، اس کی ضرورت تھی پیسہ اور شاید زندگی کم….

سوشل میڈیا کو ذریعہ بنایا، اپنی اچھی بُری ہرطرح کی ویڈیوز اور پیغامات شئیر کرتی رہی…

تبصرہ کرنے والے،رائے دینے والے، چاہنے والے یا پابندی لگانے والے غرض کہ ہر اک ہی ویڈیو دیکھتا، محظوظ ہوتا اور اپنی مرضی کا قانون لاگو کردیتا، فتویٰ لگا دیتا۔

اس نے خود کو منوانے کے لیے ہر جتن کیے،کبھی شوبز اسٹارز کے بارے میں بات کی تو کبھی سیاست دانوں کو گھسیٹا۔ کرکٹ اسٹار بھی اس کی زد میں آئے لیکن اس کی دال گلنا تھی، نہ ہی گلی۔

گلوکاری کی، ویڈیو جوکی بننے کی کوشش کی، اداکاری کے لیے بھی قدم اٹھایا۔ لیکن ہر طرف سے ناکامی ہی ناکامی ملی۔ جیو ٹی وی کے شو پاکستان آئیڈل میں بھی اینٹری لینے کے لیے کئی چکر وینیو کے لگائے، چاپلوسی بھی کی، دھکے کھائے، کئی حربے استعمال کیے، ٹی وی میں خبروں میں تو آگئی لیکن اس شو کا حصہ نہیں بن سکی اور شدید تنقید کےنشانے پر رہی۔\"\"

پھر نجانے کیا ہوا، راتوں رات ہی میڈیا پر، سوشل میڈیا پر،عالمی اخباروں میں، میسجز پر، ٹیلی فونک کالز پر۔ ہر جگہ بس ایک اسی کی بات ہورہی تھی۔ بس! فرق اتنا تھا اس بار صرف مخالفت میں نہیں، حمایت میں بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔

اور وہ دو دن سے خاموش، یہی خاموشی اسے مزید متنازع بنا رہی تھی۔

خفیہ تصاویر، ویڈیو اور ٹیپ رکارڈنگ بھی سامنے لے کر آئی، لیکن اس پر کسی نے یقین نہیں کیا۔ اس نے اپنے موقف کا بھرپور دفاع کیا، سب کو چیخ چیخ کر منافقین کا چہرہ دکھانے کی کوشش کی۔  جان سے مارے جانے کی دھمکیاں ملنے لگیں، عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، ٹی وی پر علی الاعلان کہا کہ بااثر افراد کی جانب سے قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، سیکورٹی فراہم کی جائے۔ لیکن کسی نے اس کی بات پر کان نہیں دھرے۔ پھر وہ منظر عام سے غائب ہوگئی، ایسی غائب ہوئی کہ میڈیا والوں کو بھی ڈھونڈے سے نہ ملی، لیکن مخالفین کی جانب سے مسلسل نشتر برستے رہے، وہ خاموشی اور غائب ہونے کو جیت تصور کرنے لگے۔

کسی نے فون کرکے خبر دی، قندیل بلوچ ملتان میں اپنے گھر میں مردہ پائی گئی ہیں۔ ان کے چہرے اور جسم پر تشدد کے نشانات ہیں۔ پولیس حرکت میں آئی۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق اسے کھانے میں نشہ آور شے کھلانے کے بعد گلا گھونٹ کے مارا گیا۔ کیس چلتا رہا، معاملہ جیسے ہی قندیل بلوچ کے مخالف یعنی مفتی عبدالقوی کے گریبان تک آیا تو وہ پہلے تو پریس کانفرنس کرنے لگے اور پھر اچانک غائب ہوگئے،

اس طویل کہانی میں جسے زندگی کہتے ہیں، کچھ کردار کہیں بھی نظر نہ آاور وہ تھے اس کے بھائی۔ جنھوں نے غیرت کےنام پراسے قتل \"\"کردیا، نیم برہنہ لباس، لوگوں کو لبھاتی بولڈ باتیں، گانوں کی ویڈیو اور نجانے کیا کیا، بھائیوں کو ذرا غیرت نہ آئی۔ ہاں! البتہ مولوی صاحب کے ساتھ قدرے صاف ستھری ویڈیو پر صدیوں کی سوئی بھائیوں کی غیرت جاگ گئی اور اسے بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اگر مولوی صاحب قندیل سے نکاح کرنے کے خواہاں تھے تو ہوٹل میں اکیلے کمرے میں کیوں بُلایا؟ دوسرے بیان کے مطابق مولوی صاحب قندیل کو بہنوں کی طرح سمجھتے تھے اور اسے نیکی کی ترغیب دے رہے تھے تو ویڈیو میں ایسا کہتے کیوں پائے گئے کہ اسے سوشل میڈیا پر مت اپ لوڈ کرنا۔ وہ تو چلی گئی مولوی صاحب کو کئی کمیٹیوں کی رکنیت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ پابند سلاسل کیے جانے کا امکان پیدا ہونے لگا پھر معاملہ ٹھپ ہوگیا۔ رات گئی بات گئی۔ کون قندیل بلوچ؟ کون نمبر ون؟ کون مفتی عبدالقوی؟

آج پھر اس چنگاری کو ہوا ملی۔ قندیل پھر روشن ہوگئی۔

گوگل نے سال کے آخر میں سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والوں کا ذکر کیا تو پاکستان میں قندیل نمبرون تھی۔

گوگل سرچ رپورٹ میں دوسرے نمبر پر عالمی شہرت یافتہ پاکستانی قوال و نعت خواں امجد صابری کا نام تھا، جنھیں رمضان کے مبارک مہینے میں گیارہ گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔ پولیس نے ابتدائی تفتیش میں سیاسی جماعت کے ملوث ہونے کا ذکر کیا اور پھر پڑوسیوں کو شامل تفتیش کیا۔ امجد صابری نے اپنی شہادت سے تقریبا 12 گھنٹے قبل سحری میں یہ کلام پڑھا تھا

”میں قبر اندھیری میں گھبراوں کا جب تنہا

امداد میری کرنے آجانا رسول اللہ ﷺ ”

گویا کہ اپنے لیے آخری دعا بھی خود ہی کر ڈالی۔ بے شک اللہ کے پیارے درویشوں کی یہی نشانیاں ہیں کہ انہیں اپنے بارے میں علم ہو جاتا \"\"ہے۔

رمضان کا عشرہ مغفرت رواں دواں ہوتا ہے، لیکن ظالموں نے اک انسان، اک صوفی، اک مسلمان کو قتل کردیا، اور اپنے لیے دوزخ خرید لی۔ امجد صابری امر ہو گئے، انہیں حیات جاویداں نصیب ہوئی۔ ان کو اس طرح دن دیہاڑے قتل کیے جانے پر ہر آنکھ نم تھی۔

گوگل سرچ میں تیسرے درجے پر براجمان پاکستانی شخصیت کےنام و کام کے چرچے دنیا بھر میں ہیں اور رہتی دنیا تک رہیں گے۔ انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ برابر سے گزرتے افراد اس کمزور، سفید داڑھی والے، قراقلی ٹوپی پہنے شخص کے پاس رکتے، عقیدت کا اظہار کرتے اورامداد دیتے تھے۔ یہ وہ شخص ہے جو پورے ملک اور بیرون ممالک میں بھی عبدالستار ایدھی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

معروف سماجی کارکن اور ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی 9 جولائی کو طویل علالت کے بعد 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ایدھی نے پاکستان کا سب سے بڑی نجی ویلفیئر ادارہ قائم کیا جبکہ ان کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس گردانی جاتی ہے، جو پاکستان کے ہر شہر میں لوگوں کی خدمت میں مصروف ہے۔

چوتھے نمبر پر نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں، جواپنے متنازع اور متعصب بیانات کی وجہ سے عالمی میڈیا کی زد میں رہے۔ انہوں \"\"نے اپنی انتخابی مہم میں مسلمانوں اورپاکستانیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکا کی 240 سالہ تاریخ میں معمر ترین صدر 20 جنوری کو اپنے عہدے کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

پاکستانیوں میں مشہور موسیقی کے شو کوک اسٹوڈیو میں راحت فتح علی خان کے ساتھ آفریں آفریں گانے والی مومنہ مستحسن اس فہرست میں پانچویں پوزیشن پر موجود ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ سیزن کے اس گانے کو سننے سے زیادہ دیکھا گیا تو کچھ غلط نہ ہوگا کیونکہ اس گانے کے نشر ہونے کے بعد کئی ہفتوں تک سوشل میڈیا مومنہ مستحسن کی تعریفوں کے شور سے گونجتا رہا۔

سابق گورنر پنجاب اور پیپلز پارٹی کے رہنما سلمان تاثیر کے قتل میں موت کی سزا پانے والے ممتاز قادری بھی پاکستانی عوام کی جانب سے سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی شخصیات کا حصہ ہیں۔

گوگل سرچ میں بھارت کی اداکارہ پرتیوشا بینرجی، امریکی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن، نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیہ اور خوبرو ماڈل ملینیا ٹرمپ اور ویسٹ انڈین ٹیم کے لیے چمپئین گانا گانے والے انٹرنیٹ سینسیشن ڈی جے براوو مقبول رہے۔

ربیعہ کنول مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ربیعہ کنول مرزا

ربیعہ کنول مرزا نے پنجاب اور پھر کراچی یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ صحافت میں کئی برس گزارے۔ افسانہ نگاری ان کا خاص شعبہ ہے

rabia-kanwal-mirza has 34 posts and counting.See all posts by rabia-kanwal-mirza

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments