سولہ دسمبر: جب وحشت زندہ ہوئی اور انسانیت قتل ہوئی


پرش پور، یعنی انسانوں کا شہر۔ سنسکرت میں پشاور کا نام یہی لکھا ہوا ہے۔ زرتشتیوں کی مقدس کتاب اوستا میں اسے وائکریتا، دنیا کی ساتویں سب سے خوبصورت جگہ کہا گیا تھا۔ وہ شہر جو اپنے دور عروج میں ایک ایسی سلطنت کا دارالحکومت ٹھہرا جو کہ ازبکستان، تاجکستان، کشمیر، پنجاب، اجین، دہلی، بہار، سندھ، اور بلوچستان کے علاقوں پر مشتمل تھی۔ ہزاروں سال پرانے اس شہر نے یوں تو بہت سے برے دن دیکھے کہ ہندوستان کا رخ کرنے والا ہر فاتح اسی راہ سے گزرتا تھا، لیکن اس کی تاریخ کا غمگین ترین دن سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کا تھا۔ یہ وہ دن تھا جب پرش پور، ”انسانوں کے شہر“، سے انسانیت رخصت ہوئی اور راکشسوں کا اس پر راج ہوا۔ یہ ماتم وقت کی گھڑی تھی۔

تاریخ انسانی میں منگول اور تاتاری، ظلم و بربریت کی بے شمار داستانیں رقم کر گئے ہیں۔ لیکن کبھی انہوں نے بھی ایسا نہیں کیا کہ کسی شہر کے بچوں کو چن چن کر مارا ہو۔ زمانہ وحشت میں بھی بچوں کی جان بخشی کر دی جاتی تھی۔

پھر ایسا کیا ہوا کہ ایک سکول میں داخل ہو کر ڈیڑھ سو بچوں کو یرغمال بنایا گیا، اور ان کے پاس جا جا کر ان کے سروں میں گولیاں اتاری گئیں۔ وہ سکول جہاں تین سال سے لے کر سولہ سترہ سال کے بچے پڑھتے تھے، ان کا نشانہ کیوں بنا؟ ایسا کیا ہوا کہ تین تین سالہ بچوں پر بھی رحم نہیں آیا؟ اس سکول کے بہت سے بچوں نے بہادری کی داستانیں رقم کیں۔ ان میں سے چند اپنے اپنے کلاس روم کے دروازے پر جمے رہے تاکہ ان کے ساتھیوں کو مہلت مل پائے اور وہ دوسرے دروازے سے نکل سکیں۔ وہاں کی استانیوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے اپنی جان قربان کی حالانکہ وہ خود اپنی جان بچا کر بھاگ سکتی تھیں۔ یہ ممتا کا جذبہ تھا کہ کاکروچ اور چھپکلی سے ڈرنے والی عورت بھی سفاک ترین قاتلوں کے آگے جم گئی۔ ان میں سے ایک کو اپنے بچوں سے محبت کے اس سنگین جرم کی پاداش میں زندہ جلا دیا گیا۔

کاش دوسروں کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والے ان تمام بہادر اساتذہ اور بچوں کو بہادری کا اعلی ترین سویلین اعزاز، نشان شجاعت، دسمبر 2014 میں ہی دیا جاتا۔ سکول کے مناظر پر، خون پر، قربانیوں پر، ظلم پر، بہادری کی لازوال داستانوں پر، شہید و غازی بچوں کے چہروں پر، والدین کے آنسوؤں پر، میں کچھ بھی لکھنے سے قاصر ہوں۔ کئی مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔ کئی مظالم ایسے ہوتے ہیں کہ الفاظ ان کا غم بیان کرنے سے انکاری ہوتے ہیں۔

ان بچوں کے اس طرح شہید ہونے پر پورا ملک شدید غم میں ڈوب گیا تھا۔ ہم جیسے بے شمار لوگوں کے شل دماغوں میں کچھ اور نہیں سمایا، تو جوق در جوق باہر نکلے اور نزدیکی چوراہوں پر ان بچوں کی یاد میں شمعیں روشن کرنے لگے۔ باقی ملک کا تو علم نہیں، لیکن اس دن لاہور میں موم بتیوں کا کال پڑ گیا تھا۔

اور دوسری طرف ایک مختصر تعداد جو تحریک طالبان کی حامی ہے، یا پھر پاک فوج سے خدا واسطے کا بیر رکھتی ہے، تاویلیں پیش کرنے پر اتر آئی تھی۔ ایک طرف سے صدا بلند ہوئی کہ یہ موم بتی مافیا اسلام کی دشمن ہے۔ دوسری طرف سے تاویل پیش ہوئی کہ یہ ڈرون حملوں کا ردعمل ہے۔

صاحبو، کیا قبروں پر چراغ جلانا ہماری روایت نہیں ہے؟ سولہ دسمبر کی موم بتی مافیا کے اس رکن کو راوی کنارے ابدی نیند سوئی ہوئی ملکہء ہند نورجہاں کی یاد آتی ہے جو کہہ گزری ہے کہ

برمزارِ ما غریباں، نے چراغے نے گُلے
نے پرِ پروانہ سوزد، نے صدائے بلبلے

(مجھ غریب کے مزار پر نہ چراغ جلتا ہے نہ گُل کھلتا ہے، نہ پروانہ اپنے پر جلاتا ہے اور نہ ہی بلبل کی کوئی صدا گونجتی ہے )

لیکن ان تاویل پیش کرنے والوں کی نظر میں یہ وہ زمانہ ہے جب چراغ جلانا، پھول کھلانا، پروانے کا پر جلانا اور نوحہ غم بلند کرنا بھی جرم عظیم ٹھہرا ہے۔ یہ عام لوگ تو موم بتیاں جلا کر اس غم میں گھروں سے باہر نکلے تھے اور پشاور کے ننھے شہیدوں کے غمزدہ والدین کے غم میں شریک ہوئے تھے، لیکن افسوس ان مذہبی جماعتوں پر ہے جنہوں نے اس المناک واقعے پر کوئی جلسہ نہیں کیا، کوئی جلوس نہیں نکالا۔ شاید یہ بچے عالم اسلام کا حصہ نہیں تھے۔ صرف پاکستان سے باہر رہنے والے لوگ ہی عالم اسلام کا حصہ ہوا کرتے ہیں۔

سولہ دسمبر کے فوراً بعد کراچی سے شائع ہونے والے ایک نیم جہادی اخبار کے بارے میں علم ہوا کہ اس کے مالکان کی طرف سے اپنے لکھنے والوں کو یہ ہدایت کی گئی کہ پشاور کے واقعے پر قوم کے ردعمل کی شدت کو کم کرنے کے لیے ڈرون حملوں کی تاویل پیش کی جائے کہ پشاور کے بچوں پر یہ حملہ اس کا ردعمل ہے۔ لیکن شکر ہے کہ لکھنے والوں نے مزاحمت کی اور یہ کام نہ ہوا۔

سوال یہ ہے کہ کیا آرمی پبلک سکول کے بچوں کو شہید کرنے سے ڈرون حملے رکے تھے؟ کیا پاکستانیوں کے مرنے سے ڈرون حملے رک سکتے ہیں؟ امریکیوں سے جنگ ضرور کرو، لیکن پھر شہری آبادیوں میں پناہ مت لو۔ اگر تم اپنی جنگ شہروں خودکش دھماکے کر کے لڑو گے، تو امریکی بھی اسی طرح سارے اخلاقی اصول پائمال کر کے اپنی جنگ تمہاری آبادیوں میں ہی لڑیں گے۔ یہ سادہ سا اصول ہے۔ اور امریکیوں کی جنگ تم ویت نام میں بھِی دیکھ چکے ہوتے ہو کہ دشمنوں سے عاجز آ کر وہ کس بربریت پر اتر آتے ہیں۔ ایجنٹ اورینج کو گوگل کر لو اور جان لو کہ پانچ دہائیوں کے بعد بھی وہاں کیسے عجیب الخلقت بچے پیدا ہو رہے ہیں۔

اگر پاکستانی فوج کی مزاحمت کی وجہ سے وہ ان آبادیوں میں جہاں تم رہائش پذیر ہو، اپنے فوجی دستے نہیں بھِج سکتے، تو ڈرون ہی بھیجیں گے۔ جنگوں کو شہروں سے دور میدان جنگ میں لے جاؤ تو کیا حرج ہے؟ امریکہ سے لڑنا ہے تو افغانستان میں جا کر لڑو۔ بچوں کے قتل کی اجازت کی قرآن و حدیث سے دلیل دے سکتے ہو تو ضرور دو۔ ورنہ ہمارے ناقص علم کے مطابق تو عورتوں اور بچوں کے قتل کو تو رسول پاکؐ نے انتہائی ناپسند کیا ہے، اور بزرگوں، خدمت گاروں، غیر حربیوں وغیرہ کے قتل کی بھی مناہی کی ہے۔

تاویل پیش کرنے والوں سے یہی سوال ہے کہ تم ابھی ایسے واقعات کے خلاف کھڑے ہو گے، یا پھر اس وقت اس کو برا جانو گے جب تمہارے بچے اس کا نشانہ بنیں گے؟

کیا ہی اچھا ہو اگر اس دن کو دہشتگردی کا شکار ہونے والے تمام لوگوں کے دن سے موسوم کیا جائے اور اسے قوم کو دہشت گردی کے خلاف متحد کرنے کے لیے ایک علامت بنا دیا جائے۔

غم ان ننھے شہیدوں کا ہے۔ ساتھ ہم ان کے غمزدہ والدین کے کھڑے ہیں۔ اور مخالف اس ذہنیت کے ہیں جو اس بہیمیت و بربریت کی تاویل پیش کرتی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments