سوشل میڈیا کا سرکس اور سچی جھوٹی تصویریں (۱)۔


\"\"

میں اب (یعنی اس تحریر لکھنے کے وقت) سے چند گھنٹے قبل اپنے مجازی سوشل میڈیا چیمبر میں موجود ہوں جو میری چند حسیات جیسے بصارت اور ذہنی ارتکاز کے علاوہ ایک آرام کرسی اور کمپیوٹر پر مشتمل ہے۔ معمول کے مطابق تسلسل سے معلومات میرے سامنے آ رہی ہیں جو متن، تصویر اور آواز کے سادہ و پیچیدہ متنوع مرکبات پر مشتمل ہیں۔ اس وقت میرے سامنے دو ویڈیوز اور دو تصاویر بشمول متن موجود ہیں۔

پہلی تصویر جس میں ایک مظلوم عورت اپنے تین بچوں کو سینے سے لگائے رو رہی ہے میرے ایک عزیز دوست کی برقی دیوار پر چسپاں ہے۔ میں ان دوست کو بہت قریب سے جانتا ہوں اور مجھے ان کی خبر پر مکمل اعتماد ہے۔ تصویر کے ساتھ ان کا تحریر کردہ ایک پیغام بھی موجود ہے جس میں اس عورت کی جانب اشارہ کر کے کہا گیا ہے کہ اس عورت کا دکھ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا اور اس وقت حلب میں ہونے والا ظلم اندوہناک اور غیرمعمولی ہے۔ تصویر میرے اندر شدید دکھ کی کیفیت پیدا کرتی ہے اور میں خود کو ان کے اس پیغام سے متفق پاتے ہوں متن و تصویر کے اس مرکب کو اپنے ناظرین و سامعین تک پہنچا دیتا ہوں۔

دوسری تصویر دراصل پانچ سات جڑی ہوئی تصویروں پر مشتمل ہے جن میں شام کے جھنڈ ے اٹھائے کچھ لوگ شامی فوج کی فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ ملحقہ تحریر میں مغربی خاص طور پر امریکی سامراج کو برا بھلا کہا گیا ہے اور ہلکی پھلکی خوشی بھی ظاہر کی گئی ہے۔ یہ تصاویر اور متن مجھ میں کسی قسم کی جذباتی کیفیت حتی کے اپنی صحت کے بارے میں شکوک و شبہات بیدار کرنے سے بھی قاصر رہتا ہے سو میں بس دیکھ کر گذر جاتا ہوں۔ میرا گمان یہی ہے کہ یہ تصویریں بھی درست ہی ہوں گی لیکن میں خود کو کلی طور پر متن سے متفق نہیں پاتا۔

پہلی ویڈیو ایک ایسے بین الاقوامی سماجی اسکالر کی سوشل میڈیا ویب گاہ سے موصول ہوئی ہے جو خطۂ عرب کے معاملات پر ایک تخصیصی گرفت رکھتےہیں۔ میں ان کےتحقیقی کام سے واقف ہوں اور انہیں باقاعدگی سے پڑھتا ہوں۔ حلب کی اس ویڈیو میں پس منظر میں جنگی تباہی نظر آرہی ہے، سامنے دو روتے ہوئے پریشان حال ادھیڑ عمر مرد ہیں جن میں سے ایک کی گود میں ایک بچہ ہے، بات چیت واضح سنی جا سکتی ہے، ترجمے کی مدد سے معلوم ہو جاتا ہے کہ بچہ سڑک پر دور اشارہ کرتا ہوا اپنے والد کا پوچھ رہا ہے اور ادھیڑ عمر شخص روتے ہوئے یہی کہہ رہا ہے کہ تمہارے بابا اب جنت میں ہیں۔ چونکہ سند معتبر ہے اور تاثر شدید، اس لئے میں اس ویڈیو کو بھی بغیر کسی تحقیق کے آگے نشر کر دیتا ہوں۔

دوسری ویڈیو ایک مشہور سوشل میڈیا خبررساں ایجنسی کی جانب سے ہے۔ اس میں کینیڈا کی ایک صحافی خاتون کسی پریس کانفرنس میں حلب کی صورت حال پر سوالوں کا جواب دے رہی ہیں۔ وہ کسی قدر عمومیت پسندی سے مغربی’’ کارپوریٹ‘‘ میڈیا پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہی ہیں۔ مغربی میڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی ان سے سوال پوچھتے ہیں کہ ناقابلِ تردید ’’حقائق‘‘ کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے؟ خاتون کا جوابی سوال یہ ہے کہ مشرقی حلب میں اس وقت میڈیا موجود نہیں اور موصول ہونے والی زیادہ تر خبریں اور تصویریں انفرادی طور پر مختلف حوالوں سے موصول ہو رہی ہیں۔ خاتون کی عمومیت پسند تشکیک میرے لئے حیران کن ہے لیکن دوسری جانب موجود صحافی اس سادہ سے سوال کے سامنے بالکل لاجواب دکھائی دیتا ہے کہ آخر مشرقی حلب میں اس وقت کون سا میڈیا ہے؟ یہ صورت حال مجھے دلچسپ معلوم ہوتی ہے اور میں اسے بھی آگے نشر کر دیتا ہوں۔

اب چند گھنٹے گذر چکے ہیں۔ آئیے ردعمل کا تجزیہ کرتے ہیں۔

پہلی تصویر و متن سے میرے حلقے میں چھتیس افراد متفق ہیں۔ کچھ نے غم اور ایک دو نے غصے کی شکلی علامتوں سے اپنی جذباتی کیفیات مجھ تک پہنچائی ہیں۔ تبصرہ کوئی نہیں ہے۔ میں ان عزیز دوست کی دیوار کا رخ کرتا ہوں جہاں سے وہ مجھے موصول ہوئی تھی۔ وہاں اسے میرے سمیت پینتالیس لوگ آگے نشر کر چکے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ سو لوگوں نے اس سے اتفاق کیا ہے۔ ایک دو نے تبصروں میں کچھ اختلاف بھی کیا ہے اور یوں نیچے ایک بحث جاری ہے۔ بہت سوں نے محض اس دعا پر آمین کہا ہے کہ اللہ حلب کے مظلوموں کی مدد فرما۔ میں تحقیق کی خاطر گوگل کی تصویری تلاش میں اس تصویر کی جانچ پڑتال کرتا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تصویر حلب کی نہیں ہے۔ گوگل کے مطابق یہ تصویر ایک سو سے زیادہ مختلف جگہ پر پائی گئی ہے۔ 2013 میں پہلی دفعہ یہ تصویر عراق کے یزیدی فرقے پر ہونے والے مظالم کی ایک خبر میں سامنے آئی اور اس کے بعد انٹرنیٹ پر اسی خبر کے ساتھ گھومتی رہی۔ ستمبر 2016 میں پہلی دفعہ اسے ایک اطالوی ویب گاہ پر حلب میں ہونے والی تباہی کی خبر کے ساتھ لگایا گیا اور اس وقت سے یہ حلب کے ساتھ منسلک ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ میں ایک ’’غیرحقیقی‘‘ تصویر آگے نشر کر چکا ہوں۔ لیکن میں فوراً خود کو تسلی دے لیتا ہوں کہ کم از کم اپنے دوست کے ’’حقیقی‘‘ متن سے تو متفق تھا۔ میں اپنے دوست کو یہ بتانا بھی غیر ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ ایک ’’غیرحقیقی‘‘ تصویر کو آگے نشر کرنے کا باعث بنےہیں کیوں کہ اتنی ’’چھوٹی ‘‘ سی بات پر تعلقات میں ناصحانہ رسمی پن لانے کا آخر کیا فائدہ۔

تصویروں کے دوسرے مجموعے کی طویل سراغ رسانی کے بعد میں یہ معلوم کرنے سے قاصر رہتا ہوں کہ کیا وہ واقعی حالیہ شام کی ہیں۔ وہ غلط ثابت نہیں ہوتیں۔ بہرحال یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ان تصاویر کی شروعات دراصل ایک ایسے صاحب کی جانب سے ہوئی ہے جو واضح طور پر ایک مذہبی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، غیرملکی ایشیائی صحافی ہیں اور کھلم کھلا امریکی سامراج کے خلاف ایک مہم چلا رہے ہیں۔ میں ایک انجانی سی خوشی محسوس کرتا ہوں کہ ان کے پیغام کو آگے نشر کرنے کا باعث نہیں بنا کیوں کہ اس کی صحت میری نگاہ میں مشکوک ہے اور میں کسی فرقے سےاس قسم کی نیم جذباتی وابستگی بھی نہیں رکھتا جس کی سماجی تشہیرمیری رائے میں ضروری ہو۔

پہلی ویڈیو پر بھی مختلف دوستوں نے جذبات ظاہرکیے ہیں لیکن کسی نے تبصرہ نہیں کیا۔ یہ ویڈیو یورپ کے ایک صحافی کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔ اسے لاکھوں لوگ نشر کر چکے ہیں اور کسی نے بھی براہِ راست شک کا اظہار نہیں کیا۔ اس صحافی کی سوشل میڈیا ویب گاہ پر حلب کے مظلوموں کی حمایت میں یورپ میں ہونے والے جلسوں کی بھی ایک ویڈیو ہے۔ اس کے علاوہ حلب کی سو سے زائد تصاویر کا ایک البم بھی ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ یہ ویڈیو قابلِ اعتماد ہے۔

میری برقی دیوا رپر موجود دوسری ویڈیو پر دو دوستوں نے کافی پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ ان کی مشترکہ رائے میں میرا اس کو نشر کرنے کا اقدام حلب کے مظلوموں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ان کا ردعمل طویل اور متنوع جہات رکھتا ہے جس میں کچھ قابلِ اعتراض نہیں لیکن ویڈیو میں موجود صحافی کی طرح وہ بھی واقعاتی اعتبار سے کوئی براہِ راست شہادت دینے سے قاصر ہیں کہ آخر حلب سے موصول ہونے والے کسی خبر کو کسی حتمی معیار پر ردو قبول کیا جائے؟ ان کی اس قسم کی شہادتیں کہ یہ کینیڈین صحافی خاتون بشار الاسد کی حکومت سے رابطے میں رہی ہیں اور ایک مخصوص لابی کی راہنما ہیں یقیناً میرے لئے چشم کشا ہیں لیکن میرا حلب سے موصول ہونے والے غیرمعمولی جنگی جرائم اور دلخراش کے واقعات میں کسی بھی درجے کی مبالغہ آرائی کے امکانات کے متعلق میرا عمومی یقین اب تک متزلزل نہیں ہو سکا۔


سوشل میڈیا کا سرکس اور سچی جھوٹی تصویریں (۲)

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments