ہمارا ادب اور ہماری دُنیا


\"\"آرٹس کونسل کراچی کے زیر اہتمام نویں عالمی اُردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں خطبہ استقبالیہ ادا کرنے کے لیے مجھ سے کہا گیا، اس موقع پر جو گفتگو میں نے کی اُس کا پہلا حصہ حاضر ہے۔

مجلس صدارت کے معزّز و محترم اراکین،

خواتین و حضرات،

اردو دُنیا کے دوستو!

بعد سلام کے عرض یہ ہے کہ خود کو اس مقام اور آپ کے درمیان اس منصب پر فائز دیکھ کر میں بھی اتنا ہی حیران پریشان ہوں۔ اب میں اسی بات کو اپنے طالعِ ارجمند کا کرشمہ اور خوش بختی کا شاخسانہ سمجھوں یا جناب احمد شاہ کی اس عادت کا خوف کہ وہ پلک جھپکتے میں سراپا ناز سے دھول دھپے پر اُتر آتے ہیں۔ شمیم حنفی صاحب یہاں بنفس نفیس موجود نہیں ہیں مگر ان کی آواز ہمارے ساتھ ہے اور اس آواز کی ہم نشینی میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ اس کے باوجود میں یہاں دل گرفتہ ہو کر اور بچشمِ نم آیا ہوں۔ اپنی کم مائگی کے احساس کے ساتھ اور عربی کی پرانی کہاوت میرے ذہن میں گونج رہی ہے کہ بڑوں کے اچانک چلے جانے نے ہمارا قد اونچا کر دیا ہے۔ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ پچھلے سال اسی شہ نشین پر ادب کے کئی ایسے ستارے جگمگا رہے تھے جو چمکتے چمکتے بُجھ گئے۔ لیکن ان کی ضوفشانی ان کی تحریروں سے بدستور جاری ہے۔ اسی شہر میں ادب کے ایسے اکابرین بھی موجود ہیں جو صحت کی خرابی کی بنا پر آج یہاں تشریف فرما نہیں ہیں۔ خدا ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ ان کے لیے دعا کرنے میں اپنے واسطے اکتسابِ نور کی مسلسل خواہش بھی تو ہے۔

قحطِ رجال کے باوجود جو لوگ یہاں موجود ہیں ان کا دم غنیمت ہے۔ میں بصد ادب و احترام ان اکابرین علم و فن کو سلام کرتا ہوں۔ مجھے \"\"اپنے دوستوں میں ناصر عباس نیر نظر آرہے ہیں، ڈاکٹر نجیبہ عارف اور محترم محمد حمید شاہد، جو آج کے موضوع پر نہایت پُرمغز معروضات پیش کرنے کے اہل ہیں۔ لیکن کسی بھی کانفرنس کا مقصد حرفِ آخر پیش کرنا نہیں ہوتا بلکہ موضوع کو اجاگر کرنا، بحث و تمحیض کے دروازے کھولنا، نئے امکانات کی طرف اشارہ کرنا اور غور وفکر پر مائل کرنا ہوتا ہے۔ میری اس جسارت بنیادی محّرک بھی اسی قدر سمجھیے۔

یہاں پر آکر چند الفاظ ادا کرنے کا حوصلہ مجھے شمیم حنفی صاحب کی اس موجودگی کی وجہ سے ہوا کہ جسے ہر چند کہیں کہ نہیں ہے، دراصل ہے۔ شمیم حنفی نے نقاد کا فرض منصبی ہمارے آپ کے زمانے میں جس طرح ادا کیا ہے، وہ بار بار یہ واضح کرتے آتے ہیں کہ تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی پس منظر کے سامنے ادب دید و دریافت کا مظہر ہے اور اپنے اصولوں کا کار بند۔ میں نے اپنے وطن پر ان کے خیالات سے روشنی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور ایک سہولت یہ ہے کہ بہت دنوں سے ان کا یہ معمول رہا ہے وہ جب بھی ملتے ہیں یا فون کرتے ہیں صرف خیریت نہیں معلوم کرتے بلکہ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا لکھا پڑھا جا رہا ہے۔ ادب کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ مجھے یہاں آنا اس لیے آسان معلوم ہوا کہ اپنے تئیں میں نے فرض کر لیا کہ میں شمیم حنفی صاحب کو بتا رہا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے، میں کیا دیکھ رہا ہوں۔ کیا نہیں ہورہا جو ہونا چاہیے۔ اس امید کے ساتھ کہ حالات ادھر بھی بدلیں اور اِدھر بھی۔

ان چند معروضات کے بعد میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں مگر ادب کی طرف سے دنیا کی طرف نہیں آئوں گا۔ دنیا کی طرف سے ادب کی\"\" طرف آنا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے یہی طریقہ احسن معلوم ہوتا ہے۔ میں اس خیال سے بھی تقویت حاصل کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا جس طرح سے رنگ بدلتی ہے، اس گردشِ رنگِ چمن سے مہ و سال عندلیب کا تعیّن بھی ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ اور خاص طور پر جب ایسی بڑی کانفرنسوں میں ہم اپنے دوستوں کے درمیان بیٹھتے ہیں تو آپس کے ہنسی مذاق اور چھوٹی چھوٹی رنجشوں کے درمیان ایسی بڑی بڑی باتوں کو بھول جاتے ہیں، چند لمحوں کے لیے سہی۔ شاید اسی لیے ہمیں بعض مرتبہ یہ طعنہ سننے کو ملتا ہے کہ اردو والوں کے لیے چیونٹی کا انڈا آسمان کے برابر ہے۔ اور وہ کانفرنس یا سیمینار کرا کے خوش ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے واقعات بڑی تیزی سے رونما ہوتے ہیں اور ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں کے دو واقعات نمایاں ہیں۔ امریکہ کے الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی اور کیوبا کے انقلابی رہ نما فیڈرل کاسترو کی موت۔ کاسترو صرف کیوبا تک محدود کہاں تھے، وہ انقلاب کا نعرۂ مستانہ تھے جو ایک ناراض نسل کے لبوں سے ترانہ بن کر جاری ہوگیا تھا۔ نوے سالہ بیمار رہ نما شاید امریکی انتخابات کے فیصلے کا انتظار کررہے تھے کہ اس دنیا میں ہی نہیں رہیں گے جہاں ایسے افراد صدارت کے عہدے پر فائز ہو جائیں۔ کاسترو کی موت اس اشتراکِ عمل اور امکان خواب کی موت بھی ہے جس نے ایک عرصے تک اردو کے شاعروں اور ادیبوں کو بھی گرمائے رکھا۔ آج ان شاعروں، ادیبوں کے نام لیوا بھی کم پڑتے جارہے ہیں اور اس کی تعزیت میں فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید سے کرنا چاہتا ہوں، اس امید کے ساتھ کے ان کے خواب آنسو بن کر تحلیل نہ ہو جائیں، ایک نئے ستارے کی سمت ہمارے رہ نمائی کرسکیں۔

کاسترو کے بارے میں بات کرنا سہل تھی کہ میں نے آنسو کا سہارا لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں، مَیں فیصلہ نہیں کر پایا کہ میرا ردعمل آنسو\"\" کی صورت میں ظاہر ہوگا یا قہقہہ بن جائے گا۔ یا پھر آنسو اور قہقہے کے درمیان کوئی آواز ہوتی ہے، ویسی آواز جو اسد محمد خان کے فورک لفٹ نمبر 252 کے آخر میں سنائی دیتی ہے، وہ آواز جو بے بس غصّے اور لاکھ مختاری کی تہمت کے باوجود مجبوری کی آواز ہے۔ ادبی جلسے میں، ٹرمپ کا نام میں نے یوں بھی لیا ہے کہ اس حیران کن الیکشن کا نتیجہ سامنے آنے کے فوراً بعد نیویورکر جیسے مقبول عام اور سنجیدہ رسالے کا جو اگلا شمارہ شائع ہوا، اس میں رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے لوگوں کے درمیان اہم اور نمائندہ امریکی ادیبوں نے اس بارے میں اپنی رائے کا برملا اظہار کیا۔ مجھ ایسے شخص کے لیے یہی بات بہت اچنبھے کی ہے کہ ایسے قومی معاملات پر ادیب رائے زنی کررہے ہیں اور برملا اعتراض و انحراف کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ہمارے ہاں تو اب یہ صورت ہوگئی ہے کہ کسی بھی معاملے پر ادیب کی رائے پوچھی نہیں جاتی۔ گویا

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں

اوّل تو ٹی وی کے ٹاک شوز کی بہتات میں کوئی بھی کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اور رہ گئے شاعر ادیب تو وہ محض مذاق اڑانے کے لیے ہیں۔ یعنی غالب کے بقول اب اشعار بھی صرف دل لگی کے لیے ہیں۔ ایسے میں عرض ہنر میں فائدہ کیا خاک ہو؟

بہرحال، نیویورکر میں ہلیری مینٹل اور ٹونی موریسن جیسے ادیبوں کی رائے بھی شامل ہے۔ نئے اور ناراض ادیب Junot Diaz کے مختصر تجزیے نے جیسے میرا دل مٹھّی میں لے لیا__ وہ خط کی شکل میں جواب دے رہا ہے۔

تو اب کیا ہوگا؟ سب سے پہلے اور سب سے مقدّم، ہمیں احساس کی ضرورت ہے۔ ہمیں بڑی ہمّت کے ساتھ اس انکار سے رابطہ قائم کرنا ہو گا، اس خوف سے جو ٹرمپ کی فتح نے ہم پر مسلّط کر دیا ہے۔ اس سے روگردانی کے بغیر، یا اپنے آپ کو بے حس بنائے بغیر یا کلبیت میں مبتلا ہوئے بغیر۔ ہمیں گواہ رہنا ہے کہ ہم نے کیا گنوا دیا__ یعنی اپنی حفاظت، اپنائیت کا احساس اور اس ملک کے بارے میں بصیرت (وژن)۔

ہمیں ان زخموں کا ماتم کرنا ہے تاکہ ہم امیدی کے گہرے گڑھے میں نہ گر پڑیں۔ تاکہ بہتری کا امکان ہمارے سامنے رہے۔

اور جب ہم یہ مشکل کام سر انجام دے رہے ہیں جو لازمی بھی ہے، تو ہمیں پرانی تشکیلات کی طرف رجوع کرنا ہوگا جب اس سے پہلے تاریکی کے دنوں میں ہمارا سہارا بنی رہی ہیں۔ اور ہاں، ہم لڑیں گے۔ ہماری بات سُنی جائے گی۔ اس لیے ہم محفوظ رہ سکیں۔ اس لیے کہ ہم آزاد رہ سکیں۔

ان الفاظ سے جیسے میرا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی رشک بھی آتا ہے کہ کاش ہم جو آج یہاں جمع ہیں اسی استقامت کے ساتھ یہ کہہ سکیں، اس اعتماد کے ساتھ بات کرسکیں کہ ہمیں زندگی بھی عزیز ہے اور فن بھی۔ ہم خواب دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ خواب دوسروں کی آنکھوں میں منتقل بھی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خواب سلامت ہیں جب تک۔۔۔ ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں اور اس زندگی کو لکھنا چاہتے ہیں۔ یہی ہمارا سچ ہے۔

آج کے عنوان کے تحت اس رنگ بدلتی دنیا سے ادب کی طرف آتے آتے میں دو ایک باتیں ادبی دنیا کے حوالے سے بھی کرنا چاہتا ہوں۔ یعنی \"\"زبان و ادب کی وہ صورت حال جو ادبی کتابوں کے متن کا حصّہ تو نہیں ہے لیکن ادب کے چاروں طرف حاشیہ قائم کیے ہوئے ہے، تعلق کی وہ شکل جو کتابوں کو اپنے پڑھنے والوں سے جوڑتی ہے اور ان کو احترام یا بے خبری یا نظر انداز کیے جانے کے رشتے کو اجاگر کرتی ہے۔ غزلیں اچھی بُری ہوسکتی ہیں، نظمیں اور افسانے بھی۔ لیکن اس سے پہلے ذرا دیر یہ بھی تو دیکھیے کہ وہ کس ماحول میں سامنے آرہی ہیں۔ ان کو تخلیق کرنے والی دنیا کیسی ہے۔ پاکستان میں سیاسی انتشار کے نشانات بہت واضح ہیں اور بے اندازہ۔ ظاہر ہے کہ ادب ان سے کیسے بچ سکتا ہے۔ یہ شکایت اکثر کی جاتی ہے کہ خرابی تعلیمی اداروں کے نصاب سے شروع ہوتی ہے جہاں طالب علموں کو زبان و ادب سے زندہ تعلق قائم رکھنے کا ہُنر سکھایا نہیں جاتا۔ جُزوی طور پر یہ بات بھی درست ہے لیکن اس عمر کے بعد کی کس منزل میں ادب سے کوئی ناتہ جوڑنے کا امکان باقی رہ جاتا ہے؟ کتاب پڑھنا یا زبان و ادب کے زندہ مظاہر میں شرکت ہمارے ہاں بتدریج کم ہوتی جا رہی ہیں۔ کتابیں کم شائع ہوتی ہیں اور اس سے بھی کم فروخت ہوتی ہیں۔ پھر اس قسم کی تجارت یا کتابوں کے بارے میں اطلاع رسانی کے طریقے بھی فرسودہ ہیں۔ اشاعت کے بنیادی مسائل سے بلند نہیں ہونے پاتا کہ ہمارا ادب علم و فن، فکر و فلسفہ کے دیگر شعبوں کے ساتھ قدم ملا کر چل سکے۔ قومی شناخت کا بیانیہ پہلے ادب و فن کے ہاتھ میں تھا، اب میڈیا کے چنگل میں چلا گیا ہے۔ سرکاری ادارے کوئی تہذیبی خدمت سرانجام دینے کے بجائے ذاتی مفادات کی پاس داری اور نااہلوں کی پرورش کے گڑھ بن کر رہ گئے ہیں۔ اس بیان کو بہت وسیع بھی کیا جا سکتا ہے لیکن زبوں حالی کے الگ الگ شعبے کُھلتے چلے جائیں گے۔ ان موجودگی میں یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ دو چار لوگ جو ادب کے نام سے جُڑے ہوئے ہیں، بس ان ہی کا دم غنیمت ہے، اسی کے نام سجدۂ شکر بجا لائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments