سقوط ڈھاکہ کا سبق‎


\"\"کچھ زخم قوموں کی تاریخ میں ایک بدنما داغ کی مانند ہوتے ہیں جو ہمیشہ یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ تاریخ کبھی بھی ناانصافی اور جبر کو معاف نہیں کرتی. سقوط ڈھاکہ بھی ایک ایسا ہی زخم ہے جب ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے اس وطن کو دو لخت کر دیا.بنگلہ دیش کیوں بنا؟ اکہتر کی جنگ میں کیا ہوا؟ سقوط ڈھاکہ کی وجوہات کیا ہیں؟ ان تمام بنیادی سوالات کو ہم نے جھوٹ کی سیاہی سے چھپانے کی کوشش کی.حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو دہائیوں تک عوام سے چھپا کر رکھا گیا اور سقوط ڈھاکہ کی عجیب و غریب توجیہات نصاب میں ناولوں اور کتابوں میں اور میڈیا کے ذریعے پیش کر کے سیاستدانوں اور بھارتی سازشوں پر ملبہ گراتے ہوئے ہم نے آنکھیں بند کر لیں۔ مشرقی پاکستان کو ہم نے اسی دن جدا کر دیا تھا جب ہم نے انہیں کالے کلوٹے جاہل گنوار قرار دیتے ہوئے تمام شعبوں میں ان کی حق تلفی شروع کر دی. بنگالی ہم سے زیادہ ذہین تھے اور احساس محرومی کے ساتھ غلاموں کی طرح جینے کو ترجیح نہیں دیتے تھے. شیخ مجیب جسے ہمارے ہاں غدار قرار دیا جاتا ہے ان لوگوں میں سے تھا جو تحریک پاکستان میں پیش پیش تھے وہ خود قائد اعظم کا خطاب سننے کئی کئی سو کوس سائیکل پر سفر کر کے آتا تھا.ایسا اچانک کیا ہوا کہ قیام پاکستان کی تحریک میں پیش پیش شخص اچانک پاکستان سے اتنا متنفر ہو گیا۔ جناح کے جہان فانی سے کوچ کرنے کے بعد ان کے سوچے گئے پاکستان کو بھی ہائی جیک کر لیا گیا۔

محلاتی سازشوں کے وہ جال بنے گئے کہ پاکستان نے اپنے ابتدائی برسوں میں ہی متعدد وزیر اعظم آتے جاتے دیکھے.پھر پہلے سکندر مرزا نے اور پھر ایوب خان اور جنرل یحی نے مارشل لا کی آڑ میں ملک کی جڑوں کو اتنا کھوکھلا کر دیا کہ بالآخر اسے اپنا ایک حصہ گنوانا پڑا. 1970 کے عام انتخابات کے نتائج بہت واضح تھے۔ مشرقی پاکستان نے شیخ مجیب کی عوامی لیگ کو تقریبا تمام نشستیں پلیٹ میں رکھ کر دیں اور یہ وہاں کے ووٹرز کا فیصلہ تھا مغربی پاکستان کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف۔ بھٹو مغربی پاکستان سے انتخابات میں کامیاب ضرور ہوئے تھے لیکن ان کی جماعت کے پاس حکومت بنانے کی اکثریت نہیں تھی.شیخ مجیب ہماری ایسٹیبلیشمنٹ کو کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا چنانچہ \"\"اس کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ایسٹیبلیشمنٹ نے بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کی ناکام کوشش کی اور اس کے نتیجے میں شیخ مجیب نے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ اس بغاوت کو کچلنے کیلئے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کی گئی  لیکن مشرقی پاکستان میں بسنے والوں نے شیخ مجیب کا ساتھ دیا۔ ہندوستان نے مکتی باہنی کی تحریک کے ذریعے اور پھر جنگ کے میدان میں مشرقی پاکستان کا ساتھ دیا۔ یوں ہم مشرقی پاکستان میں جنگ ہارنے کے بعد ہندوستان کی افواج کے آگے سرینڈر کرنے پر مجبور ہو گئے. 90 ہزار پاکستانی فوجی ہندوستان کی قید میں چلے گئے اور پاکستانی فوج کی اس جنگ میں سرینڈر کرنے کی تکلیف دہ تقریب کو ہندوستان نے پوری دنیا میں نشر کیا۔

ذوالفقار بھٹو نے بعد میں تمام پاکستانی فوجیوں کو ہندوستان کی قید سے چھڑایا لیکن اس کے لیئے انہیں شملہ معاہدہ ہندوستان کے ساتھ کرنا پڑا.آپ کو نصاب میں یا کتابوں میں اس معاہدے کا ذکر شازر و نادر ہی ملے گا اور تفضیلات تو کبھی بھی نہیں ملیں گی.کیونکہ اس معاہدے میں پاکستان نے بہت سی ایسی شقوں کو تسلیم کیا تھا جنکا تعلق بھارت میں کشمیر کی موجودگی کے حوالے سے تھا. تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے جنرل یحی اور بھٹو کو اس سانحے کا مرتکب ٹھہراتے ہیں لیکن یہ سانحہ چند کرداروں کے باعاث پیش نہیں آیا بلکہ ایک غاصب سوچ اور جھوٹے نظریات کی وجہ سے پیش آیا۔ وہ سوچ جس نے جناح کی فلاحی ریاست کو ایک سیکیورٹی ریاست میں تبدیل کر دیا۔ وہ سوچ جس نے جناح کے پاکستان کو مذہبی شدت پسندی کی آگ میں جھونک دیا۔ ری پبلک آف پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان مین بدل ڈالا۔ قوی امید تھی کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد یہ سوچ کبھی  قومی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی  لیکن صورتحال اس کے بالکل برعکس نکلی۔ سقوط ڈھاکہ کے کسی مجرم کو سزا نہ سنائی گئی بھٹو کو تختہ دار پر پہنچا کر پھر سے فوج نے مارشل لا لگایا اور ضیاالحق کی صورت میں ایسا بدترین آمر بچے کھچے پاکستان پر قابض ہوا جس نے اس ملک کے کونے کونے میں شدت پسندی تعصب اور نفرت کی آگ پہنچا دی. پھر جب اس کے آقاوں نے اسے موت کے گھاٹ اتارا اور لولی لنگڑی جمہوریت وجود میں آئی تو اسے بھی نہ پنپنے دیا گیا اور کارگل جیسی جنگی حماقت کے بعد مشرف جیسا آمر اس وطن پر قابض ہو گیا۔

سیاستدان ان تمام واقعات میں یقینا قصوروار ہیں لیکن ان تمام واقعات کے مرکزی مجرم آمر ہیں جنہیں توپوں کی سلامیوں میں رخصت کیا جاتا \"\"ہے اور ملک کے جھنڈے میں تمام اعزازات کے ساتھ دفن بھی کیا جاتا ہے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا کارنامہ کیا ہے. کون سی جنگی فتوحات ہمیں حاصل ہوئیں ہیں ہمیں سوال کرنے کا موقع دیا جائے. بدقسمتی سے آج بھی سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق نہ سیکھتے ہوئے ہم بلوچستان کو بھی ڈھاکہ بنائے بیٹھے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے سب سے بڑے سبق دو تھے. ایک طاقت کے زور پر کبھی بھی وطن میں بسنے والے لوگوں کو دبایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی بزور طاقت انہیں زبردستی متحد رکھا جا سکتا ہے.دوسرا اہم سبق یہ تھا کہ حکومت کرنا سیاستدانوں کا کام ہے، کسی ریاستی ادارے کا نہیں۔ افسوس ہم نے ان میں سے کسی بھی سبق کو سیکھنے سے انکار کر دیا اور قومی مفاد کی ایک ایسی اصطلاح روشناس کروائی جس کی آڑ میں سچ بولنے والوں، تحقیق کرنے والوں اور سوال اٹھانے والوں کو غدار قرار دے کر قصہ ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح اقتدار پر براہ راست یا بلاواسطہ قبضے کے لئے خوب استعمال کی جاتی ہے. اس فصیل کے گرد ہم نے ایک قومی سوچ اور نظریہ تیار کر رکھا ہے جو اپنے عیبوں سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے محض ایک دفاعی بیانیہ تیار کرتا ہی چلا جاتا ہے. جس کے تحت سوال اٹھانے والے اور تحقیق کی راہوں پر گامزن دماغ تیار ہو ہی نہیں پاتے. اور اس کے نام پر اس ملک کے بسنے والے کروڑوں افراد کے ساتھ مذاق کیا جاتا ہے۔ تعلیم کے فروغ اور غربت کے خاتمے کی بجائے ملکی بجٹ عوام کو جنگی جنون میں مبتلا کرنے پر خرچ کیا جاتا ہے۔

یہ قومی وقار سوال پوچھنے پر اور اپنا حق مانگنے پر تو مجروح ہوتا ہے لیکن ڈرون حملوں میں ملکی سرحدوں کی خلاف ورزی پر اس پر کوئی آنچ نہیں آتی. سانحہ ایبٹ آباد میں امریکہ فوج کے آپریشن سے بھی یہ وقار مجروح نہیں ہوتا اور نہ ہی کارگل جیسے واقعے سے اس قومی وقار پر کوئی اثر پڑتا ہے. اپنے ہی ملک کی جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے پر بھی یہ قومی وقار محفوظ رہتا ہے اور سقوط ڈھاکہ سے بھی اس کے کان پر جوں نہیں رینگتی. یہ غداری اور محب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ بنا کر تقسیم کرتا ہے اور تاریخ کو مسخ کر کے جھوٹی جنگی فتوحات بچوں کو ازبر کرواتا ہے. جب تک ہم دفاعی ریاست کے تصور کو تبدیل کر کے جناح کی فلاحی ریاست والے تصور کی طرف واپس نہیں آئیں گے ہم یونہی بھٹکتے رہیں گے. جب تک اپنی ہی سرزمین کو فتح کرنے کی عادت ختم نہیں ہو گی سقوط ڈھاکہ جیسے سانحات رونما ہوتے رہیں گے۔ جناح کا پاکستان آج بھی اپنے مجرموں کی نشاندہی کا مطالبہ کر رہا ہے اور چلا چلا کر کہ رہا ہے کہ  یہ وطن کسی اور سقوط ڈھاکہ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments