مریم اور پروین کی خون آلود شلوار


\"\"میں منظر سے بھاگتا ہوں، منظر بھاگنے نہیں بنتا۔ بہت سارے مسئلے ہیں۔ کبھی ایک شلوار سے رستا خون کینوس پر پھیل جاتا ہے، سرخ رنگ ٹپ ٹپ زمین پر گرتا ہے اور باقی سارے رنگ غائب ہو جاتے ہیں۔ کبھی ایک پچکی ہوئی پلاسٹک کی گڑیا کینوس کے اوپر چڑھ کر ناچنا شروع کر دیتی ہے۔ ایک جھمکا اڑتا ہوا دیوار سے جا ٹکراتا ہے۔ ایک چوڑی سارے فرش پر بکھر جاتی ہے۔ کبھی گھٹی گھٹی کراہیں سرگوشیاں کرتی ہیں تو کبھی پورا کمرہ خاموش چیخوں کے شور سے بھر جاتا ہے۔ میں پھر کوشش کرتا ہوں۔ سوچتا ہوں کانوں میں روئی بھر لی جائے یا آنکھیں زور سے بھینچ لوں تو شاید کام بن جائے پر مسئلہ یہ ہے کہ آواز باہر سے نہیں آ رہی اور تصویریں کرچی کرچی دل کے اندر اتری ہوئی ہیں۔ نہ شور کم ہوتا ہے نہ چبھن گھٹتی ہے۔

مریم دس سال کی تھی اور پروین گیارہ سال کی۔ دس گیارہ سال کی بچیاں کیسی ہوتی ہیں۔ جیسی آپ کی یا میری بیٹی یا چھوٹی بہن۔ یہ بھی مسئلہ ہے۔ پروین اور مریم کی شکل الگ ہونی چاہیے تھی، کسی اور سیارے کی مخلوق جیسی، غیر انسانی، بے شک کسی جانور جیسی تا کہ مجھے ان میں کوئی اپنا نظر نہ آتا۔ یہ ملتی جلتی شکلیں خواہ مخواہ رات کو سوتے سے اٹھا دیتی ہیں۔ ڈراؤنے خواب لگتا ہے، لحاف کے اندر لپٹے ہوئے ہیں۔ ادھر آنکھ بند کی, ادھر وہ نکل آتے ہیں، کھٹمل کی طرح نہیں، خبیث سانپ کی طرح کاٹتے ہیں۔ اٹھتا ہوں تو حلق میں کانٹے بچھے ہوتے ہیں، خون شاید جم گیا ہوتا ہے لیکن دل بہت زور سے دھڑکتا ہے۔ ساری میڈیکل سائنس کی ایسی تیسی ہو جاتی ہے۔

پروین نے کیا سوچا ہو گا جب جوان امجد نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا ہو گا۔ گیارہ سال کی بچی کیا سوچ سکتی ہے۔ ہمارے یہاں گیارہ سال کے لڑکے تھڑوں اور چوباروں پر فحش جنسی لطیفے سنتے وقت سے پہلے جوان ہوتے ہیں پھر ہر گزرتا دن گھٹن آلود موسم میں ایک حیوان کی پرورش کرتا ہے۔ شہر میں تفریح کے نام پر سٹیج کا مجرا اور عورت کے کپڑے اتارتی جگت ارزاں دستیاب ہوتی ہے اور باقی سب شرع کے نام پر بند ہوتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل سے لے کر سب سے زیادہ بکنے والے کالم نگار عورت کے بارے میں صرف جنسی زاویہ آواز لگا کر بیچتے ہیں۔ عورت ایک خواہش بنتی ہے، ایک ہوس بنتی ہے۔ شجرممنوعہ بنانے والے آدم کی خطا کو بھول جاتے ہیں۔ اور عورت نظر نہیں آتی۔ عورت ایک اور اپنے جیسا انسان نہیں رہ جاتی۔ اسے عام نظر سے دیکھنا ممکن نہیں رہ جاتا۔ جنس کے بارے میں تربیت تو دور، بات کرنا بھی قابل تعزیر ٹہرتا ہے۔ یہی لڑکا ہو، جوان ہو یا بوڑھا، عورت کو صرف وہ کھیتی سمجھتا ہے جس میں ایک دن اس نے ہل چلانا ہے۔ اسی آس میں منہ زور ندی چہار طرف بندھے بندوں میں رخنے ڈھونڈتی ہے گویا یہی مقصد زیست ہو۔ امجد نے بھی اپنا رخنہ ڈھونڈا ہو گا۔ پشتے میں شگاف پڑتا ہے تو سیلاب راہ کی ہر شے تباہ کر ڈالتا ہے۔ امجد کی راہ میں تو بس پروین تھی۔

کتنی دیر کا قصہ ہو گا۔ دس منٹ ، پندرہ منٹ یا شاید اس سے بھی کم، پر پروین کے نازک بدن پر کتنی صدیاں بیتی ہوں گی۔ اس کا جسم دکھتا ہو گا۔ گالوں پر آنسو کی لکیریں ہوں گی۔ خون بہتا ہو گا پر اسے اپنے زخم کی سمجھ نہیں آتی ہو گی۔ اس کا وجود خزاں کی سرد تیز ہوا میں زرد پتے کی مانند کپکپاتا ہو گا۔ سانس کہیں سینے میں بند کر دی گئی چیخوں کے ساتھ اٹکی ہو گی۔ دس منٹ میں قصہ تمام ہوتا ہے پر داستان تو ابھی شروع ہوئی ہے۔

پروین کا باپ صفدر فریادی ہے۔ اس کے بھائی اختر اور بلال اپنی بھتیجی کی پھٹی چادر پھیلائے اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ امجد نہیں ہے لیکن اس کا باپ اعظم کٹہرے میں کھڑا ہے۔

بہاولپور بڑا دھیما، پیارا شہر ہے۔ میرے دوست وہاں رہتے ہیں۔ شفیق چہروں والے، نورانی داڑھیوں والے، میٹھے لہجے میں کلام کرنے\"\" والے۔ میں پنچوں کو ذہن میں لاتا ہوں۔ استاد ہوں گے، شاید کوئی پیش امام، کوئی چھوٹا موٹا زمین دار، ایک دکان دار، ایک حقہ گڑگڑاتا جگت چچا، ایک کسان ۔ پنچ معزز ہوتے ہیں۔ میرے دوستوں جیسے، پر ان پنچوں کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔ ان کے چہرے لکسر کی وادی سے ملنے والی ممیوں جیسے ہیں۔ ان کی داڑھی سے لہو ٹپکتا ہے۔ یہ منہ کھولتے ہیں تو ان کی دو شاخہ لپلپلاتی سیاہ زبان نظر آتی ہے۔ ان کے دانت نوکیلے ہیں، برام سٹوکر کے ڈریکولا کی طرح۔ شاید ان میں کہیں میرا کوئی دوست بھی ہے پر اس کی جون بھی بدل گئ ہے۔ میں اسے پہچان نہیں سکتا۔

ابھی کچھ دیر میں ثابت بھی ہو جائے گا کہ یہ انسان نہیں ہیں۔ انسان ان جیسے فیصلے نہیں کرتے۔ انسانوں کی بیٹیاں ہوتی ہے اور انسانوں کی بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ اور بیٹی بھیڑیوں کا راتب نہیں ہوتی، یہ بات انسان جانتے ہیں۔

یہ جو فریادی کھڑے ہیں، یہ بھی فریاد کناں نہیں لگتے۔ ان کے دانت باہر نکل آئے ہیں۔ ان کی پشت پھاڑ کر مہرے پھیل گئے ہیں۔ ایک لمبی موٹی سی دم کھڑی ہو گئی ہے۔ تمام وجود سیاہ بالوں سے ڈھکا گیا ہے۔ ان کے منہ سے اب فریاد نہیں، غراہٹیں نکل رہی ہیں۔ بھیڑیے بھوکے ہیں۔ وحشت زدہ ہیں۔

ادھر پیچھے سب سے بے خبر دس سال کی مریم اپنی پلاسٹک کی سستی سی گڑیا سے کھیلنے میں مگن ہے۔ ابھی اس کا شعور اتنا بالغ نہیں ہوا کہ پنچایت کی ہوسناک نظروں اور فریادیوں کی بھوک کو پہچان سکے۔ اس کا باپ البتہ اس روایت کا پکا امین ہے جہاں بیٹیاں بیٹوں پر قربان کرنا مستحسن ہی نہیں، مستحب بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے بیٹی اور بکری میں کوئی خاص فرق نہیں ہے بلکہ بکری زیادہ اہم ہے کیونکہ اس سے آمدن ہوتی ہے اور بیٹی پر خرچہ لیکن آج وہ خرچہ وصولنے کا وقت آن پہنچا ہے اور وہ بھی سود سمیت۔ بیٹے کی جان کا مول کم تھوڑا ہے۔

پنچایت نے فیصلہ کر دیا ہے۔ امجد کو بخش دیا گیا ہے۔ پر سزا ملے گی، ضرور ملے گی۔ لیکن مریم کو۔ اب یہ کون پوچھے کہ مریم کو کیوں۔ اس کو یہ بھی پتہ نہیں کہ یہ سارا قصہ ہے کیا پر انصاف یہ کہتا ہے کہ زیادتی کا بدلہ زیادتی ہو گا۔ اور چونکہ امجد نے آغاز کیا تھا اس لیے سزا جرم سے سخت تر ہو گی۔ مریم کو ایک نہیں، تین جانور نوچیں گے۔ اعظم خوش ہے، بیٹے کا سر سلامت رہا، کوئی مالی زک بھی نہیں پہنچی۔ بیٹی کا کیا ہے، چند دن لوٹ پوٹ کر ٹھیک ہو جائے گی۔ اعظم کا چہرہ غور سے دیکھو۔ شاید کسی دن کسی کو شیطان کا پورٹریٹ بنانا ہو تو کام آئے گا۔ صفدر، بلال اور اختر کی زبان اور باہر نکل آئی ہے۔ بہتی رال زمین سے جا لگی ہے۔ انہیں بستر پر پڑی زخمی، خون آلود، شکستہ کرلاتی کراہتی اپنی بیٹی، اپنی بھتیجی، اپنی پروین بھول گئی ہے۔ اس وقت وہ صرف آنے والی لذت کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ بیٹیاں سانجھی ہوتیں تو انہیں مریم میں پروین نظر آتی پر پھر بھی کیا فرق پڑتا، بیٹی بھی تو عورت ہے، جو کسی اور کی بیٹی کو پامال کر سکتا ہے اس سے کیا بعید ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو بھی روند ڈالے۔

شرط ہے کہ اعظم خود مریم کو قربان گاہ پہنچا کر آئے گا۔ صفدر اور اس کے بھائی گھر کو لوٹ گئے ہیں۔ ایک کمرہ خالی کرا لیا گیا ہے۔ چارپائی پر ایک غلیظ گدا بچھ گیا ہے۔ ابھی اسی پر بن بیاہی دلہن کی سیج اس کے خون سے سجے گی۔ پنچایت ایک دوسرے کو انصاف کی مثال رقم کرنے پر مبارکباد دے کر گھروں کو لوٹ گئی ہے جہاں ان کی بیویوں نے گرما گرم کھانا تیار کر رکھا ہے اور بیٹیاں باپوں کی ٹانگیں دبانے کے لیے منتظر ہیں۔ اعظم بیٹی کا ہاتھ تھامے گھر سے نکل آیا ہے۔ مریم کے دوسرے ہاتھ میں اس کی گڑیا ہے۔ صفدر کا دروازہ کھلا ہے۔ یہ لیجیے بٹیا وداع ہو گئی ۔ اعظم نے بیٹی کا ہاتھ صفدر کو دیا ہے اور واپس لوٹ گیا ہے۔ جاتے ہوئے بابل نے مڑ کر دیکھا نہیں کہ کہیں پتھر کا نہ ہو جائے۔

اس سے آگے کی کہانی میں تین درندے ہیں۔ شاید ایک ساتھ، شاید الگ الگ۔ ایک اڑتا ہوا جھمکا ہے جو زور سے پڑنے والے تھپڑ کی وجہ سے دیوار سے جا لگا ہے۔ ایک چوڑی ہے جس کے بہت سے ٹکڑے چارپائی کے گدے پر پھیل گئے ہیں اور کچھ زمین پر جا گرے ہیں۔ ایک پلاسٹک کی گڑیا ہے جو پیروں میں کچلی گئی ہے۔ ایک چھوٹا سا کپڑوں کا جوڑا ہے جو بدن سے الگ فرش پر دھرا ہے۔ ابھی جب کچھ دیر میں مریم کو ہسپتال لے جانا پڑے گا تو اس کی شلوار میں خون بھر جائے گا جو ٹپ ٹپ فرش پر گرتا چلا جائے گا۔ مریم کے منہ پر کسی نے ہاتھ نہیں رکھا۔ دس سال کی مریم یوں بھی کتنا زور سے چیخ لے گی۔ پر کیا ہے کہ اس کی دہائیاں، اس کا رونا، اس کا بلکنا کچھ ہانپتے قہقہوں میں ملا ساتھ والے کمرے میں صاف سنائی دیتا ہے اور وہاں کب سے گم سم پڑی پروین پھر بلک بلک کر رو دی ہے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments