خون کے دھبے برساتوں سے نہیں دھلتے


بتانے والے بتاتے ہیں کہ فیض صاحب، بنگلہ دیش بننے کے بعد پہلی بار وہاں سے ہو کر آئے تو ائرپورٹ پہ صحافیوں نے روک لیا۔ ایک صاحب نے بہت ضد کی کہ کچھ کلام سنا دیں۔ فیض صاحب نے پہلے تو ٹالنے کی کوشش کی مگر اصرار کرنے پہ وہ شعر سنآئے جنہیں بعد میں نیرہ نور نے کتاب سے نکال کر یاد کے حوالے کیا۔

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
بتانے والے مگر یہ نہیں بتاتے کہ فیض صاحب کا یہ کلام کسی طور ڈھاکہ بھی پہنچا۔
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
سننے والوں نے یہ شعر بار بار سنا اور پھر پاکستان پیغام بھجوایا،
”خون کے دھبے برساتوں سے نہیں دھلتے۔ “ ۔

دو ہزار نو کا امریکہ تھا اور ہمیں اوکلا ہاما میں رہتے ہوئے تقریباً تین ماہ ہوچکے تھے۔ پہلی بارمجھ پہ، دیس، پردیس کا بھید کھلا تھا، زبان کی اہمیت اور اجنبیت کے معنی پتہ چلے تھے۔

ڈیلاس کے ایک ریستوران میں تھے اور بہت بھوک لگی تھی۔ مینو میں حلال کھانا بھی نہیں تھا اور باقی چیزوں کے نام بہت عجیب تھے۔ میرے تذبذب کو دیکھتے ہوئے ریستوران کے ہندوستانی منیجر، نے اپنا ٹفن آگے کر دپا۔ اس دن پتہ چلا کہ جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والا کوئی نظر آ جائے تو اپنائیت کا احساس کیوں ہوتا ہے۔

کچھ وقت گزرا تو ہم نے طے کر لیا کہ جب بھی، ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش سے کوئی فوجی امریکہ کے اس بلوچستان میں پہنچے گا، وہ پہلا کھانا ہمارے یہاں کھآئے گا۔

سب سے پہلے ہندوستان سے میجر انو راگ آئے، میں نے پوچھا کہ آپ سبزی کھانا پسند کریں گے انہوں نے تکلف سے جواب دیا ”جی۔ کچھ بھی چلے گا۔ “ ہم نے بھنڈی کی ترکاری پیش کر دی۔ میجر صاحب نے پوچھا ”اور کیا بنا ہے؟ “

۔ بیگم نے جواب دیا۔ ”کل کی بریانی پڑی ہے۔ “
اس کے بعد دو باتیں ہوئیں۔ پہلی تو یہ کہ بریانی صرف انوراگ نے کھائی اور بھنڈی صرف ہم نے۔

دوسری یہ کہ ایک برسوں پرانی غلط فہمی دور ہو گئی کہ سب ہندو / ہندوستانی صرف دال کھاتے ہیں۔ بہت بعد میں انوراگ نے بتایا کہ وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ سب مسلمان / پاکستانی صرف گوشت کھاتے ہیں۔

کچھ دن بعد پتہ چلا کہ بنگلہ دیش سے کوئی نیا افسر آ رہا ہے۔
اس بار میں نے کھانا ساتھ لیا اور کیپٹن راشد کے کمرے میں ہی چلا گیا۔

راشد الاسلام، اتنی گرم جوشی سے ملا جیسے ہمارے درمیان نہ کوئی رمنا ریس کورس تھا اور نہ انیس سو اکہتر۔

میں نے کھانا پیش کیا اور رواءتی پاکستانیوں کی طرح انہیں، آٹے، دال اور چاول کی مد میں پیسے اور ایمان بچانے کے نسخے بتانا شروع کر دیے۔ یہاں تک کہانی بالکل سیدھی تھی۔ کمرے میں کرسی ایک ہی تھی، سو راشد نے بستر پہ میرے ببیٹھنے کی جگہ بنائی تو تکیے کے نیچے سے ایک کتاب جھانکنا شروع ہو گئی۔ میں نے کتاب دیکھنے کی اجازت مانگی تو راشد نے جھجکتے جھجکتے کتاب میری طرف بڑھا دی مگر ساتھ ہی کہنے لگا۔

’‘یہ میری کتاب نہیں ہے، ہیوسٹن میں ماموں رہتے ہیں۔ میں ڈھاکہ سے سیدھا انہی کی طرف گیا تھا اور پھر یہاں آیا ہوں”۔ میں اس تمہید کا مطلب نہیں سمجھ پایا اور کتاب کے ورق پلٹنا شروع ہو گیا۔

کہانی میں موڑ آ چکا تھا۔

کتاب ان لوگوں کے خطوط پہ مشتمل تھی جو مکتی جودھا میں پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے والوں نے اپنے پیاروں کو لکھے تھے۔ ہر خط میں دو باتیں ضرور تھیں۔ انتقام کا الاؤ اور پنجاب سے نفرت۔

جب تک میں نے کتاب کا جائزہ لیا، راشد کھانا مکمل کر چکا تھا۔ چلتے چلتے راشد نے پوچھا آپ کہاں سے ہیں۔ میں نے ایک اچھے پاکستانی کی طرح جواب دیا۔ پنجاب سے۔ راشد کے مصافحے کی گرم جوشی سے پتہ چلا کہ سولہ دسمبر کا نقصان کتنا بڑا تھا۔

آپ کا دل مانے تو ڈھاکہ ڈوبنے کی ذمہ داری صرف جنرل یحی، شیخ مجیب اور ذوالفقار بھٹو پہ ڈال کر ٹھنڈے ہو جائیں اور شرمیلا بوس کی کتاب لہرا لہرا کر آپریشن سرچ لائٹ کو جھٹلاتے رہیں، وگرنہ چندرا چٹوپادھیآئے کی وہ تقریر سن لیں جو انہوں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے بارہ مارچ 1949 والے اجلاس میں کی تھی۔

اور یہ تاریخ کا اتفاق نہیں ہے کہ تقریر ایک ہے مگر دونوں سولہ دسمبرون کا پتہ دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments