بیٹوں کی واپسی کا سال


\"\"یہ دسمبر 2016ء ہے۔ سونار بنگال کو ہم سے جدا ہوئے پینتالیس برس گزر گئے۔ بے نظیر شہید کو رخصت ہوئے نو برس ہو گئے اور آرمی پبلک سکول کے پھولوں کو اوجھل ہوئے دو برس مکمل ہو گئے۔ دسمبر سے وابستہ ہماری یادیں خوشگوار نہیں لیکن یہ 2016ء ہے۔ قوم کی تاریخ کا ایک اور سال اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہماری سطح مرتفع پوٹھوہار تاریخ میں یہ برس بیٹوں کی واپسی کا سال کہلائے گا۔ اگست 2011ء میں لاہور کی ایک گنجان آباد سڑک سے شہباز تاثیر کو بندوق دکھا کر اغوا کیا گیا تھا۔ نو مئی 2013 کو علی حیدر گیلانی کو بھرے جلسے سے اغوا کر لیا گیا تھا۔ رواں برس مارچ کے پہلے ہفتے میں شہباز تاثیر واپس آ گئے۔ ٹھیک دو ماہ بعد علی حیدر گیلانی بھی گھر لوٹ آئے۔ اب اس تفصیل میں جانے سے کچھ حاصل نہیں کہ ان بیٹوں کو کس نے اغوا کیا تھا، اور یہ اس ترتیب سے یوں ڈرامائی انداز میں صحیح سلامت کیسے بازیاب ہوئے۔ عباس تابش کہتے ہیں۔ شام ہوتی ہے تو یاد اس کو بھی گھر آتا ہے۔ اک پرندہ میرے کاندھے پر اتر آتا ہے۔ فیض صاحب نے کامریڈ فیروز الدین منصور کی رحلت پر لکھا تھا، تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی، ترے جاںنثار چلے گئے۔ اور اس آزمائش کا انجام فراق گورکھپوری نے بہت پہلے لکھ رکھا تھا، پلٹ رہے ہیں غریب الوطن، پلٹنا تھا….

غریب الوطن کیا گھر سے دور ہونے کی کیفیت ہے؟ ہم سے پوچھئے۔ غریب الوطن وہ ہے جو اپنی زمین پر ہو اور اس سے وطن کا سائبان \"\"چھین لیا جائے۔ جب رات کے اندھیرے میں آمریت مسلط کی جاتی ہے تو پوری قوم غریب الوطن ہوجاتی ہے۔ ریاست کی زور آوری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے شہری انصاف کے لئے پکارے لیکن قانون کا دست تحفظ نظر نہ آئے تو شہری غریب الوطن ہوجاتا ہے۔ عبداللہ حسین کا افسانہ \”جلا وطن\” ایک بار پھر سے پڑھ لیجئے۔ سارے افسانے کا نچوڑ ایک جملے میں ہے۔ \”جلاوطن اپنے قبیلے کی کشش سے کبھی چھٹکارا نہیں پا سکتا، چاہے وہ اپنے قبیلے سے مایوس ہی کیوں نہ ہوچکا ہو۔\” 26 جولائی 2016ء کو واحد بلوچ کو کراچی میں بہت سے لوگوں کی موجودگی میں اغوا کر لیا گیا۔ اس جرم پر انگلیوں کے نشان موجود تھے۔ ہم نے وطن کے مفاد میں صرف یہ لکھا کہ گاڑی سے واحد بلوچ کو نیچے اتار لیا جائے تو قافلے راستہ بھول جاتے ہیں۔ عجز کے ساتھ التماس کیا گیا کہ پاکستان کے شہری کو بازیاب ہونا چاہئے۔ پاکستان کے شہریوں کے لئے آواز اٹھانے کا حق پاکستان کی دلیل ہے۔ زیادہ کاٹ دار سیاسی سوچ رکھنے والے احباب نے اس پر مذاق اڑایا۔ بھائی سبط حسن کے لفظوں میں ’عشق کے دردمندوں پر ٹھٹھا کیا گیا ‘ کہ جاؤ ریاست سے واحد بلوچ کی بھیک مانگو۔ ہم نے بھیک مانگی۔ اپنے ہم وطنوں سے جنگ نہیں کی جاتی۔ آزادی کی جنگ تو ہم نے ستر برس پہلے جیت لی تھی۔ اب جنگ نہیں کر سکتے۔ اختلاف، احتجاج اور جمہوری کشمکش سے البتہ انکار نہیں۔ نومبر کے آخری ہفتے میں واحد بلوچ اپنے گھر واپس آ گئے۔ یہ مہربانی جس نے بھی کی، \"\"اس کا بے حد شکریہ۔ بیٹوں کی واپسی کے اس مبارک برس میں واحد بلوچ واپس نہ آتے تو نیا سال کیسے طلوع ہوتا۔ عرش صدیقی نے لکھا تھا، اگر سورج نہ نکلے گا تو کیسے برف پگھلے گی؟ شہباز تاثیر، علی حیدر گیلانی اور واحد بلوچ کی سلامتی مبارک ہو۔ دوسری طرف رواں برس بہت سی بیٹیاں رخصت ہوئیں۔ انہیں ایبٹ آباد اور لاہور میں زندہ جلایا گیا۔ گوجرانوالہ میں قتل کیا گیا، ملتان میں گلا گھونٹ کر مارا گیا۔ کراچی میں چاقو سے قتل کیا گیا۔ گھر کے آنگن میں بیٹوں کی واپسی کے رنگ بیٹی اور بہن کی موجودگی سے مکمل ہوتے ہیں۔ کیا 2017ء کو بیٹیوں کے زندہ رہنے کا سال مانا جائے گا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ پاکستانی عورت کی آزادی، مساوات اور احترام کے بغیر پاکستان کا شہری معتبر اور محترم نہیں ہو پائے گا۔

اس برس کچھ اور بیٹے بھی واپس آئے ہیں۔ بلاول بھٹو لاہور آ گئے۔ لاہور میں چراغ بھٹو کے نام ہی پر جلتے ہیں۔ محترم پرویز رشید واپس آ گئے۔ آپ پوچھیں گے کہ پرویز رشید کہاں گئے تھے۔ بھائی ہم نے انھیں راج گھاٹ بھیجا تھا، جمہور کی حکمرانی کا پرچم اٹھا کر اسلام آباد \"\"کے جزیرے پر اترنے کی ہماری کہانی خون آشام ہے۔ ہمارے رہنماؤں کو گولی ماری گئی، پھانسی دی گئی، جلاوطن کیا گیا، بم سے اڑایا گیا۔ پرویز رشید ایک بے پتوار خبر کا تختہ تھامے منجدھار سے نکل آئے۔ واپسی کے یہ اشارے سیاسی ارتقا کے اگلے مرحلے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں 1973ء کے آئین کے بعد سب سے اہم دستاویز میثاق جمہوریت ہے۔ جمہوریت اور آمریت کے پرانے جھگڑے میں آمریت سیاسی قوتوں میں نقب لگاتی تھی۔ جمہوری قوتوں کو باہم دست و گریبان کر کے آمریت کا سکہ چلایا جاتا تھا۔ چودہ مئی 2006 کو محترمہ بے نظیر بھٹو اور محترم نواز شریف نے محض کاغذ کے ایک ٹکڑے پر دستخط نہیں کیے۔ انہوں نے جمہوری قوتوں کی طرف سے اعلان کیا کہ اب آمریت سے تعاون نہیں کیا جائے گا۔ یہ پس پردہ سیاست کے ایک تکلیف دہ باب کا اختتام تھا۔ بے نظیر بھٹو کا حتمی سیاسی پیغام جمہوری مفاہمت سے تعلق رکھتا تھا۔ ہم نے گزشتہ نو برس مفاہمت کے دفاع میں صرف کیے ہیں۔ محترمہ بے نظیر کو شہید کیا گیا۔ جمہوری مفاہمت کو ملی بھگت کا نام دیا گیا۔ ایمپائر کی انگلی کو دھمکی کا استعارہ بنایا گیا۔ آئینی اداروں میں تناؤ پیدا کیا گیا۔ سیاسی اور ریاستی اداروں میں اعتماد کا بحران پیدا کیا گیا۔ آئینی بندوبست کی جڑوں پر آزادی صحافت کی کدال چلائی گئی۔ 2016ء میں یہ مرحلہ ایک جوہری تبدیلی سے ہمکنار ہوا۔ یہ کنارہ چلا کہ ناؤ چلی، کہیے کیا بات دھیان میں آئی۔ یہاں سے اگلا امتحان یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں انتخابی مہم کے اس برس میں جمہوری سیاست کو میثاق جمہوریت کے تابع رکھ سکیں گی یا اقتدار کی گرم بازاری میں میثاق جمہوریت کو نظر انداز کر دیا جائے گا۔ ہر زندہ قوم کی طرح پاکستان میں تسلسل، ضبط اور استحکام کی قوتیں بھی موجود ہیں۔ سیاسی اصطلاح میں رائیٹ آف دی سنٹر کہہ لیجئے۔ تبدیلی، بہتری اور جدت کی سوچ بھی اس معاشرے میں موجود ہے۔ اسے لیفٹ آف دی سنٹر کہہ لیجئے۔ جمہوری سیاست قطبی نہیں ہوتی۔ قطبین کی سیاست کی جائے تو سنگت کا پنڈولم ٹوٹ جاتا ہے۔ جمہوری سیاست میں دستور کو نقطہ اتفاق تسلیم کرتے ہوئے پالیسی، ترجیح اور سوچ کا اختلاف جائز ہی نہیں، ضروری بھی ہوتا ہے۔ بیٹوں کی واپسی کا سال مکمل ہوا چاہتا ہے۔ نئے برس کے سوال ہمارے سامنے ہیں۔ یہ شب کے اندھیروں کے مہکنے کی گھڑی ہے….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments