زرداری کے گھٹنے پکڑنا اور چیف جسٹس بننا


\"\"اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں فرمایا کہ باتیں ہو رہی ہیں ’اپنا چیف جسٹس آرہا ہے۔ ‘اس بیان میں کس قدر سچائی ہے ، اس کا فیصلہ وقت کرے گا لیکن اس سے ہم کو یاد آیا کہ اس ملک میں سوفیصدی’ اپنا‘چیف جسٹس لانے کی صحیح معنوں میں کوشش اگرکسی جماعت نے کی ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہے۔ بینظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں نامور جیالے جہانگیر بدر کو چیف جسٹس بنانے کی خواہش ظاہر کرکے سب کوحیران کر دیا تھا۔ اس لغو تجویز پر لوگوں کو یقین نہ آیا لیکن جہانگیر بدر نے ایک سینیئر صحافی کے پوچھنے پر اقرار کیا کہ پارٹی میں انہیں چیف جسٹس بنانے کی بات ہوئی تھی۔ اس زمانے میں اپوزیشن نے اس خبر پر پارلیمنٹ میں بحث کرنے کی درخواست بھی جمع کرائی تھی۔ خیر،جہانگیر بدر کو چیف جسٹس بنانے کا معاملہ رفت گذشت ہو گیا لیکن سجاد علی شاہ کی صورت میں پیپلزپارٹی ’اپنا‘ چیف جسٹس لے ہی آئی۔ 1994 ء میں جسٹس نسیم حسن شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس سعد سعود جان سپریم کورٹ کے سنئیر ترین جج تھے، حکومت نے انہیں مستقل کے بجائے قائم مقام چیف جسٹس بنادیا۔ حامد خان کا کہنا ہے کہ اس دورمیں ججوں کا ایڈہاک اور عارضی بنیادوں پر تقرر پیپلز پارٹی حکومت کا عام طریقہ تھا جس کا مقصد ججوں کو دباؤ میں رکھنا تھا۔ سعد سعود جان با اصول جج تھے۔ حکومت نے جب اپنے منظور نظر ہائی کورٹ کے سابق ججوں اور وکلاء کو سپریم کورٹ کا جج بنانا چاہا تو اس عمل کی سعد سعود جان نے تحریری طور پرمخالفت کی جسے پیپلزپارٹی ہضم نہ کرسکی اور اس نے ’ اپنا ‘ چیف جسٹس ڈھونڈنا شروع کردیا اورآخرکار نظرسجاد علی شاہ پر جا کر ٹھہری جو سینیارٹی میں چوتھے نمبر پر تھے۔ ان کو یہ منصب عطا کرنے کی پیچھے کیا لِم تھی ، اس پرتھوڑی بات ہو جائے۔

\"\"   1990ء میں غلام اسحاق خان نے بینظیربھٹو کی حکومت ختم کی تو سپریم کورٹ کا فیصلہ صدارتی فرمان کے حق میں آیا، جن دو ججوں نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا، ان میں سے ایک سجاد علی شاہ تھے۔ 1993ء میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت بحال کی تو گیارہ رکنی بینچ میں سجاد علی شاہ واحد جج تھے جنہوں نے اختلافی نوٹ لکھا اور موقف اختیار کیا کہ جب دو سندھی وزرائے اعظم کی حکومتوں کو صدر نے ختم کیا تو سپریم کورٹ نے انہیں تو بحال نہیں کیا ،اس لیے وہ پنجابی وزیراعظم کی حکومت بحال کرنے کے فیصلے کو درست نہیں جانتے۔ ان کی یہ رائے ،نامور قانون دان حامد خان کے خیال میں انہیں سب سے بڑا عدالتی عہدہ دینے کا فیصلہ کرتے وقت بینظیر کے ذہن میں ہوگی اوران کا خیال ہوگا کہ سندھی اور پیپلزپارٹی کا حامی ہونے کے باعث وہ حکومتی مفادات کا تحفظ کریں گے۔ سجاد علی شاہ کے چیف جسٹس بننے سے سپریم کورٹ کی اس چالیس سالہ روایت کا خاتمہ ہوگیا جس کے تحت سنیئر ترین جج، چیف جسٹس بنتے رہے۔

چیف جسٹس بننے کے لیے سجاد علی شاہ نے حکومت کے سامنے دریوزہ گری کی اور اس عملِ قبیح میں وہ کس حد تک گرے اس کی شہادت حامد خان کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب A History of the Judiciary in Pakistanسے ملتی ہے۔ حامد خان نے لکھا کہ انھیں اعتزازاحسن نے بتایا کہ’ جب سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنانے کا فیصلہ ہوگیا تو وہ آصف علی زرداری کے ساتھ لاہورمیں سپریم کورٹ کے ریسٹ ہاؤس میں سجاد علی شاہ سے ملنے گئے۔ وہاں پہنچے تو سجاد علی شاہ سیڑھیوں میں کھڑے، ان کے استقبال کے لیے انتظار کر رہے تھے۔ انھوں نے زرداری کو خوش آمدید \"\"کہنے کے لیے فوراً کار کا بایاں دروازہ کھولا لیکن اس طرف اعتزاز احسن کو موجود پایا۔ اس پر انہوں نے کسی نوجوان کی طرح لپکتے ہوئے کار کا دایاں دروازہ کھولا کیونکہ زرداری اس طرف بیٹھے تھے۔ ریسٹ ہاؤس میں انھوں نے زرداری کے گھٹنے پکڑ کریقین دلایا کہ وہ ہرطریقے سے بینظیر اورپیپلزپارٹی کے وفادار رہیں گے۔ ‘

خورشید شاہ صاحب سے عرض کرنی ہے کہ شاہ صاحب یہ ہوتا ہے اپنا چیف جسٹس لانے کا طریقہ۔ راوی بھی اپنے چودھری اعتراز احسن ہیں۔ انھی کی زبانی زرداری اور سجاد علی شاہ کی اس تاریخی ملاقات کی تفصیلات ہم تک پہنچی ہیں، حیرت ہے کہ یہ سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا اور وہ چپ چاپ دیکھتے رہے اورانھوں نے قانون دان ہوکر سجاد علی شاہ جیسے ہلکے کردار کے آدمی کو چیف جسٹس بنانے کا فیصلہ تسلیم کیا۔ سجاد علی شاہ اسی طرح خوشامد سے چیف جسٹس بنے جیسے ضیاء الحق چاپلوسی سے آرمی چیف بنے تھے مگر پیپلزپارٹی کے لیے دونوں ہی ’اپنے‘ ثابت نہ ہوئے۔ سجادعلی شاہ جنھوں نے 1993میں اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ جب سپریم کورٹ سندھی وزیراعظم کی اسمبلی بحال نہیں کرتی تو پھر پنجابی وزیراعظم کی کیوں؟ 1996ء میں سندھی وزیراعظم کی حکومت فاروق لغاری نے ختم کی تو سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے، قدرت نے انھیں سندھی وزیراعظم سے ہونے والی زیادتی کا ازالہ کرنے کا موقع دیا لیکن انھوں نے \"\"انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بجائے ایسے حربے استعمال کئے، جن سے مقدمہ طول کھینچے۔ اس سے قبل اٹھاون ٹو بی کے تحت جب بھی حکومت ختم ہوئی اور اس فیصلے کے خلاف مقدمہ عدالت میں گیا تو اسے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں دستیاب سب ججوں نے سنا مگر اب کی بار سجاد علی شاہ نے سات رکنی بینچ بنایا، کئی سنیئرجج جس کا حصہ نہ تھے۔ سپریم کورٹ نے اسمبلی بحال نہ کرنے کا فیصلہ اس وقت سنایا جب عام انتخابات میں صرف چار روز رہ گئے تھے، فیصلے میں تاخیر سے پیپلزپارٹی کا سیاسی زیاں ہوا کیونکہ گومگو کی کیفیت کے باعث وہ انتخابات کی صحیح طور سے تیاری نہ کرسکی۔ پیپلزپارٹی سے یہ سلوک وہ حضرت کر رہے تھے جنھوں نے زرداری کے گھٹنے پکڑ کرمنصب جلیلہ حاصل کیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور سجاد علی شاہ کی لڑائی سے ایک خیر ججز کیس کی صورت میں برآمد ہوئی جس میں سپریم کورٹ نے طے کردیا کہ سنیئرترین جج ہی چیف جسٹس بنے گا اور اسی اصول کے تحت جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس بننے جا رہے ہیں، اس لیے انھیں کسی کا چیف جسٹس نہیں کہا جاسکتا بلکہ وہ کیا ان کے بعد جو پانچ جج صاحبان چیف جسٹس بنیں گے ان کا نام اوروہ کتنا عرصہ عہدے پر رہیں گے، ابھی سے طے ہے۔

ہماری بات یہیں ختم ہوجاتی لیکن لگے ہاتھوں سعد سعود جان سے ہونے والی ناانصافی کا ذکر بھی ہو جائے۔ جج کے طور پر قادیانی ہونے کا الزام لگا کر انھیں تنگ کیا جاتا رہا جبکہ وہ اپنے قادیانی ہونے سے انکار کرتے تھے۔ سعد سعود جان پر بطور جج قادیانی ہونے کا الزام تو لگا \"\"لیکن بہت سے \”مسلمان\” ججوں کے برعکس ان پرمال بنانے کا الزام نہ لگا۔ وہ چاہتے تو حکومت کے تجویز کردہ افراد کو سپریم کورٹ میں جج کے طور پر قبول کر اور زرداری کی چمچہ گیری کے ذریعے سجاد علی شاہ کی طرح چیف جسٹس بن جاتے لیکن انھوں نے اصولوں کوعہدے پر ترجیح دی۔ ضیاء دورمیں وہ اپنے مبینہ عقیدے کے باعث لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نہ بن سکے۔ اس بارے میں فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی آپ بیتی میں بڑے جاندار سوال اٹھائے ہیں۔ 1986 ء میں جسٹس جاوید اقبال باسٹھ سال کی عمر میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تو ان کے اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کے درمیان جو مکالمہ ہوا وہ ’’اپنا گریباں چاک ‘‘میں کچھ یوں بیان ہوا ہے :

’’آپ اپنی جگہ چیف جسٹس بننے کی سفارش کس کے لیے کریں گے ؟‘‘میں نے کہا ’’ میرے بعد سب سے سنیئر جج سعد سعود جان ہیں، جو لائق بھی ہیں اور قابل ستائش بھی۔ ‘‘’’مگر وہ تو قادیانی ہیں ‘‘جونیجو نے اعتراض کیا۔ ’’سر اول تو وہ علانیہ کہتے ہیں کہ میں قادیانی نہیں \"\"ہوں۔ دوم، وہ جمعہ کی نماز بھی ہمیشہ اسی جی او آر کی مسجد میں پڑھتے ہیں جہاں دیگر مسلمان پڑھتے ہیں۔ لیکن اگر وہ قادیانی ہوں بھی تو کیا مذہبی عقائد کے سبب ان کی سنیارٹی اور میرٹ کو نظر انداز کرکے ان کا حق مارنا جائز ہے؟ اس سوال کا جواب جونیجو کے پاس نہ تھا۔ ‘‘

’’میری ریٹائرمنٹ کے روز ہی سے مجھے سپریم کورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔ ۔ ۔ جسٹس سعد سعود جان کا تقرر بھی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر کر دیا گیا۔ مگر انھیں اپنی لیاقت اور سنیارٹی کے باوجود لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے اس لیے محروم رکھا گیاکہ وہ قادیانی سمجھے جاتے تھے۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ جو ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتا ، وہ مسلمان نہیں۔ لیکن اگر کسی منصب پر غیرمسلم کا استحقاق ہو تو اسے محروم رکھنا کہاں کا اسلام ہے ؟ میں جب کبھی بھی اس بات پر غور کرتا ہوں تو ندامت سے مجھے پسینہ آنے لگتا ہے۔ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments