اردو زبان کی تنزلی میں پاکستانی میڈیا کا کردار


\"\"

کوئی وقت تھا، جب ٹیلی ویژن کو انفرادی سماجی و معاشرتی تربیت کے لئے انتہائی اہم سمجھا جاتا تھا، ہر کوئی میڈیا میں نہ تو آسکتا تھا نہ ہی لکھ سکتا تھا، یا یہ کہ لیجیے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنا اور براڈکاسٹنگ(نشریات) کے شعبے سے منسلک ہونا انتہائی اعزاز کی بات سمجھی جاتی تھی۔ جن موضوعات پرخاکے یا پروگرام لکھے اور نشرکیے جاتے تھے، ان میں اردو زبان کے استعمال کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ اگر اردو زبان اچھی نہیں ہوتی تھی تو آپکا ماس میڈیا جسے پہلے جرنلزم کہا جاتا تھا، کوئی واسطہ ہی نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جو براڈکاسٹرز ماضی میں ہمیں میسر ٓائے، وہ ٓاج بھی اپنے کام اور نام سے پوری دنیا میں مشہور ہیں، یاور مہدی، رضا علی عابدی، مصطفی علی ہمدانی، صفدر ہمدانی، ضیا محی الدین و دیگر اعلی شخصیات قابل ذکر ہیں۔ کیا وجہ ہے اخر، ہمیں آج وہ معیار اور وہ تحریریں نہیں مل پا رہیں؟ میں پروگرام کی نہیں بلکہ پروگراموں کے معیار کی بات کررہی ہوں۔ معیار مواد سے بنتا ہے، لکھنے والے آج بھی لکھ رہے ہیں مگر ہم پڑھے لکھے لوگ معیاری زبان کا جنازہ نکالنا تو پسند کرتے ہیں مگر غیر معیاری مواد کے استعمال سے چوکتے نہیں۔

مواد کیا بلا ہے بھلا؟ اور یہ معیاری زبان کیا ہوتی ہے؟ مواد دراصل وہ معلومات اور تصاویر ہوتی ہیں جو کسی کہانی کو حقیقی شکل دینے کے لئے لازم و ملزوم ہوتی ہیں، معلومات بنیادی طور پر تحقیق یا تجربے سے حاصل کردہ مواد ہوتاہے، معلومات مواد کا مرکب ہوتا ہے، جب الفاظ اور تصاویر کا ذخیرہ ایک ساتھ یکجا ہوجاتا تو وہ معلومات کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ تصاویر پرنٹ فارم یعنی چھپی ہوئی شکل بھی ہوسکتی ہے اور اصلی شکل و صورت بھی، جیسے استاد بچوں سے جب مخاطب ہوتا ہے تو بچے اپنے استاد کی شناخت اس کی ظاہری شکل و صورت سے ذہن میں بنا لیتے ہیں۔ جب استاد بات کرتا ہے تو طالب علم اس تصویر سے اس گفتگو کا رشتہ قائم کرتے ہیں جو ان کے سامنے ہوتی ہے۔ پہلے منظر کشی ہوتی ہے پھر الفاظ اور تصویر سے رشتہ قائم ہوتا ہے، جب وہ رشتہ قائم ہوجاتا ہے تو آپ دراصل معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ معلومات کی کئی شکلیں ہوتی ہیں، کوئی بھی بات جو آپ نے سنی وہ معلومات ہوتی ہے لیکن علم اور معلومات میں یہ فرق ہوتا ہے کہ معلومات جو تحقیق و تجربے کے بعد حاصل کی گئی ہو علم کی صورت اختیار کرجاتی ہے۔ جیسا کہ آپ اور ہم کتابوں سے علم حاصل کرتے ہیں اور کتاب لکھنے والا اپنی تحریر کی تحقیق کے بعد ہی معلومات کو کتاب کی صورت میں قلم بند کردیتا ہے۔

اب ذرا بات کرلیتے ہیں خوبصورت اردو زبان کی، جو آپکی اور ہماری پہچان ہے، مگر شاید ہم نے آج بھی اردو زبان کو دل سے قبول نہیں کیا۔ بولتے ہوئے بھی شرماتے ہیں اور لکھتے ہوئے بھی خوف کا شکار ہوجاتے ہیں کہ نہ جانے اگلا شخص کیا سو چے کہ ہمیں انگریزی نہیں آتی۔ ارے نہیں آتی تو نہیں آتی، ہم کون سا انگریز کی اولاد ہیں۔ ہم میں سے بہت کو تو کلمہ بھی نہیں آتا، نماز بھی نہیں آتی پھر بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ زندگی کو رعنائیوں میں گم سم ہیں۔ اس وقت بھی ہمیں شرم آنی چاہیے، مقصد صرف اتنا ہے کہ انگریزی بھی پڑھیے اور بولیے، مگر اسے زندگی کا روگ نہ بنائیں! اپنی زبان کو تو رسوا نہ کریں! آدھی انگریزی آدھی اردو اور رومن کا تو نام نہ لیں۔ اردو زنان کو لولا لنگڑا کردیا ہم نے۔ تھوڑی بہت جو اردو سے واقفیت تھی وہ بھی ماضی کا قصہ بنتی جارہی ہے۔ میڈیا نے شعور و آگاہی ضرور دی ہے۔ حالات حاضرہ کی برقت ہم تک رسائی اسی میڈیا کی وجہ سے ہے، مگر میری شکایت غیر معیاری مواد اور معلومات کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی تنزلی ہے، جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ یہ اردو زبان ہماری تہزیب کا لباس ہے۔ اگر آپ اس زبان میں غیر زبان کا استعمال کرتے ہیں، تو اس زبان کے وقار کو کبھی برقرار نہیں رکھ سکتے۔

رومن اور اردو زبان کے ملاپ سے ہم عجیب و غریب زبان متعارف کروا چکے ہیں جو آنے والے نسلوں کو بھی اردو زبان سے نالاں کردے گی۔ خدارا اگر اس شائستہ زبان کے حسن کو آپ اگر بر قرار نہیں رکھ سکتے تو اس کا چہرہ بگاڑنے کا بھی آپ کو کوئی حق نہیں۔

قومی اسمبلی کو نیشنل اسمبلی لکھ دیتے ہیں، نشر بھی کردیتے ہیں۔ اگر خبروں کے درمیان وقفہ چاہیے ہو تو کہتے ہیں (ملتے ہیں ایک بریک کے بعد)۔ اگر مختصر وقفہ لینا ہو تو (شارٹ بریک) استعمال کردیتے ہیں۔

ایوان بالا کو سینیٹ اور ایوان زیریں کو نیشنل اسمبلی، بہت سی مثالیں ہیں کوئی ایک نہیں۔

شہ سرخی کو ہیڈ لائن اور تازہ ترین خبروں کی جگہ نیوز اپڈیٹس کا لفظ استعمال کرتے نہیں چوکتے۔

ارے بھائی اگر انگریزی ہی بولنی ہے تو ایک بار پوری بول لو۔ اردو زبان کے مقروض تو نہ بنو!

خوش آمدید کو ویل کم بیک کہنا، میری سمجھ سے بالا تر ہے یہ رویہ، پھر ہم کرتے ہیں بڑی بڑی باتیں، کہ ہماری تہزیب و تمدن پر آنچ آرہی ہے، مغربی میڈیا نے برباد کردیا ہمارے بچوں کو، ہندوستانی تہزیب اور رویے ہم خود اپناتے ہیں۔ پیمرا کا تو موجود ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ بس دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے، یہ شعر یاد آجاتا ہے۔ اللہ اللہ کرکے ہندوستانی ڈراموں اور فلموں سے جان چھٹی ہے۔ اللہ پیمرا کو ثابت قدم رکھے۔ مگر صرف پیمراکی ذمے داری نہیں بنتی، ہم خود بھی ذمے دار ہیں اس تنزلی کے۔ تعلیمی اداروں میں اردو کا کوئی معیار نہیں رہا، بچے کتابوں سے زیادہ ماحول سے سیکھتے ہیں۔ ہم کیا ماحول دے رہے ہیں آپنی ٓانے والے نسل کو؟ آپ کیا لکھ رہے ہیں کیا نشر کر رہے ہیں؟ خدا کا واسطہ، نشریاتی اداروں کے ہاتھ جوڑتی ہوں، پہلے اپنی زبان تو سیکھ لیں بھر نشریات کا آغاز کریں۔ اور ایک گزارش مصنفین و کہانی نگار و فن کار صاحبان سے بھی! اپنے اوپر بھی رحم فرمائیں اور ہماری گلاب جیس نفیس اردو زبان کو کوئلہ نہ بنائیں۔ اسے انگریزی اور رومن زبان کے زہر سے آلودہ نہ کریں! اردو ہماری قومی زبان ہے، خود بھی بولیے اور دوسروں کو بھی ترغیب دیجیے۔ اردو کا شمار ان مقبول زبانوں میں ہےجو پوری دنیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ پتہ نہیں ہم کیوں شرماتے ہیں؟ تمام پڑھنے والوں سے مودبانہ گزارش ہے کہ انگزیزی کو قبلہ نہ بنائیں۔ خود بھی اپنی زبان کی عزت کریں دوسروں سے بھی کروائیں!

اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments