مشرق ِ وسطیٰ کی خونریز صورتحال (عمار احمد)۔


\"\"

(عمار احمد)

اسلامی دنیا با الخصوص مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ جگہ جگہ انسانی اعضاء بکھرے پڑے ہیں اور قدم قدم پر انسانیت ماتم کرتی نظر آتی ہے۔ حلب، صنعا، موصل اور طرابلس ہر جگہ خوف و وحشت کا راج ہے۔ ہم ہیں کہ فرقہ واریت سے فرصت نہیں۔

حلب میں جو موت کا رقص جاری ہے اس کی وجہ کیا ہے۔ موت کایہ رقص کئی سالوں سے جاری ہے مگر ہم کسی بھی معاملے کے انتہا تک پہنچنے کاانتظار کرتے ہیں۔ چند روز کا ماتم کر کے پھر وہی خوابِ غفلت۔ پھر ایک اور قیامت گذرتی ہے تو ماتم کدے آباد! دوسروں کی گردن پر اپنے مظلوموں کے خون کی ذمہ داری ڈال دینے سے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔ مظلوم کے خون کے دھبے اغیار کے ہاتھ پر تلاش کرنے کی بجائے ہم اپنا خون آلود دامن کیوں نہیں دیکھتے ؟

مانا کہ مشرق وسطیٰ میں سال ہا سال سے جاری لڑائی روس اور امریکہ کی لڑائی ہے مگر کیا اس سب میں ہمارے مسلمان حکمران مجرم نہیں ؟ عراق، شام، لیبیا اوریمن میں جاری لڑائیوں میں تمام عرب ممالک، تُرکی وایران کے گھناؤنے کردار سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ یمن میں معصوم لوگوں کے قتلِ عام میں عرب اتحادی افواج ملوث ہیں کیا ان لوگوں کے گناہ امریکہ کے سر تھوپ کر انہیں ظلم کی اجازت دینا قابلِ شرم نہیں۔ شام میں ایران، حزب االلہ اور ترک افواج کے حملوں میں مارے جانے والے مظلوم انسانوں کا خون کیوں کر روس کی گردن پر ڈال دیاجائے۔ ؟

ہم خود کو اور اپنے محبوب مجاہد صفت حکمرانوں، بادشاہوں کو خونِ مسلم سے بری قرار نہیں دے سکتے۔ امریکہ مجرم ہو سکتا ہے اور روس بھی مگر اصل مجرم ہم ہیں۔ ہر مسلم ملک میں جاری شورش کی پشت پر خود ہمارے مسلمان حکمران اور ادارے موجود ہوتے ہیں۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد جہادی تنظیموں، فرقہ پرست حکومت اور غیر ملکی افواج کے مظالم سے ہمیں یہ سبق سیکھنا چاہیے تھا کہ کسی بھی ملک کے حکمران خواہ وہ ڈکٹیٹر ہی کیوں نہ ہو اسے منظر سے ہٹانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اس لئے کہ اس طاقتور حکمران کے بعد ملک میں مظالم کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ مگر ہم نے لیبیا میں معمر قذافی، مصر میں مُرسی، شام میں بشار الاسد اور یمن میں علی عبد االلہ کے خلاف اٹھنے والی ہر مسلح و غیر مسلح جدوجہد اور مظالم کو مکمل حمایت فراہم کی۔

شام میں حلب کی موجودہ صورتحال انتہائی غمناک ہے۔ کہیں معصوم بچوں کے لاشے مسلم حکمرانوں سے سوال کررہے ہیں ’’ہمیں کس جرم میں قتل کیاگیا ‘‘ اور کہیں بوڑھی مائیں ہماری بے حسی پر ہمیں داد دے رہی ہیں۔ کہیں باپ اپنے معصوم بچوں کو ہاتھوں میں اٹھائے جائے پناہ کی تلاش میں بے سمت چل رہے ہیں اور کہیں بے سہارا عورت جائے آرام کی تلاش میں سرپٹ دوڑ رہی ہے۔

ہم لوگوں کا رویہ یہ ہے کہ ہم مظلوم اور ظالم کا عقیدہ دیکھتے ہیں پھر اس کی حمایت و مخالفت کرتے ہیں۔ مظلوم اگر شام کا ہے تو ہم خاموش اور اگر یمن کا ہے تو ہم اس کے حامی۔ داعش ظالم ہے تو قابلِ مذمت اورحزب االلہ ہو تو جواز فراہم کرنے کی کوششیں۔ حد تو یہ ہے کہ مسجدِ نبوی ﷺ پر حملہ کرنے والا داعشی تھا تو مسلکی تعصب کی وجہ سے آسمان سر پر اٹھا لیا جبکہ ایک طبقہ محتاط انداز اختیار کیے ہوئے تھا اور کعبہ پر میزائل داغنے والے حوثی تھے تو ایک طبقہ چلا رہا تھا تو دوسرا خاموش۔

حالات تب تک اسی طرح المناک رہیں گے اور لاشیں تب اٹھانی پڑیں گی جب تک مسلم دنیا اپنا قبلہ درست نہیں کرتی۔ کسی بھی مسلم ملک کے خلاف پراکسی جنگوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کسی بھی مسلم ملک کے خلاف محاذ آرائی میں اغیار کا ساتھ دینے کی روش ترک کرنا ہوگی۔

مسلم حکمران اپنے عوام کو بنیادی ضروریات و سہولیات فراہم کریں تا کہ ممالک اندرونی طور پر مستحکم ہوں اور بیرونی دشمن کے ہاتھوں استعمال نہ ہوں۔ حکمرانوں کے خلاف مسلح جدو جہد کرنے والے کسی بھی گروہ یا لشکر کو عوام اور مسلم ممالک اپنی ہمدردیاں پیش نہ کریں۔ ہمیں فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ظالم کوئی بھی ہو اس کے خلاف متحد ہوکر آواز اٹھانی ہے اور مظلوم کہیں کا بھی ہو اس کی دادرسی کسی تعصب کے بغیر کی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments