غیر ذمہ دار وزیرداخلہ (ارشد علی راؤ)۔


(ارشد علی راؤ)۔\"\"

آٹھ اگست بلوچستان کی تاریخ کا بدترین اور انتہائی دردناک دن تھا کہ جب معاشرے کے پڑھے لکھے طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے آئین و قانون کے محافظ وکلاء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خودکش بم دھماکے میں بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔ اس کرب ناک سانحے سے حکومتی کارکردگی پر اٹھنے والے سوالات اور حقائق کو مسخ کرنے کے لیے صوبہ کے وزیراعلیٰ اور ترجمان حکومت نے روایتی بیانات دے کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کی جسارت کی لیکن بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے سوالات کو دبنے اور حقائق کو مسخ ہونے نہ دیا اور اس ہولناک سانحہ کی تحقیقات میں اطمینان بخش پیش رفت نہ ہونے پر ازخود نوٹس لے کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ان کوائری کمیشن قائم کردیا۔ سانحہ سول ہسپتال کوئٹہ پر ان کوائری کمیشن کی رپورٹ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے توسط سے منظر عام پر آئی۔ بلاشبہ یہ رپورٹ انتہائی سنگین انکشافات اور نتائج پر مبنی ہے۔

کمیشن کے مطابق سانحہ کوئٹہ پر وفاقی صوبائی وزرائے داخلہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے غلط بیانی سے کام لیا۔ رپورٹ میں وزارت داخلہ اور چودھری نثار کی کارکردگی پر سخت سوالات اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں وزارت داخلہ کو اپنے کردار کا علم ہی نہیں، وزارت داخلہ کنفیوژن اور قیادت کے فقدان کا شکار ہے۔ وزارت داخلہ کے حکام چودھری نثار کی خوشامد میں لگے ہوئے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر نہ تو عمل ہورہا ہے نہ اس کے مقاصد کو پیش نظر رکھا جارہا ہے۔ رپورٹ میں ساڑھے تین سال میں نیکٹا کے ایک اجلاس منعقد کرکے اس کے فیصلوں کو روندنے پر چودھری نثار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ کمیشن نے اس امر کی نشاندہی بھی کی ہے کہ سانحہ کوئٹہ کی ذمہ داری جنداللہ نامی تنظیم کی جانب سے قبول کیے جانے کے باوجود اسے کالعدم قرار نہیں دیا گیا جبکہ وزیرداخلہ چودھری نثار نے احمد لدھیانوی کی کالعدم جماعت کے اسلام آباد جلسے میں کوئی قباحت تصور نہ کرکے ملکی قوانین کی توہین کی۔ رپورٹ میں حکومت کو دہشتگردوں کے خلاف متبادل بیانیہ تیار کرنے اور پھیلانے میں مکمل طور پر ناکام قرار دیا۔ کمیشن نے بلوچستان میں پولیس اختیار کے ساتھ موجود ایف سی کے کردار پربھی سوالات اٹھائے۔ اپنی سفارشات میں کمیشن نے لواحقین کو معاوضہ دینے اور کالعدم جماعتوں کی فہرست ایجنسیوں کی ویب سائیٹ پر شائع کرنے کے ساتھ ساتھ سخت ایکشن لینے کی ہدایت کی۔ رپورٹ میں مزید نکات اور اہم سفارشات ہیں لیکن حکومت اور وزارت داخلہ کو آئینہ دکھانے کے لیے ذکر کیے گئے یہ چند نکات کافی ہیں۔

وزیرداخلہ چودھری نثار کے دہشتگردوں کی سہولت کار کالعدم تنظیموں سے میل ملاقات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کالعدم جماعت کے رہنماوٴں سے ملاقات ہو یا دفعہ 144 کے باوجود آبپارہ میں جلسہ کرنا چودھری نثار ہر موقع پر اہلسنت و الجماعت کو مدد فراہم کرتے نظر آئے۔ یہی جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سیکرٹری داخلہ سے سوال کیا تو وہ آئیں بائیں شائیں کرتے رہے اور اختتام انہوں نے اپنے اس جملے پرکیا کہ مجھے نہیں معلوم۔ دراصل حقیقت یہی ہے جو سانحہ کوئٹہ کے ان کوائری کمیشن میں بیان کی گئی وزارت داخلہ ایک اہم ادارہ ہے عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنا اس محمکہ کا بنیادی فرض ہے لیکن مجرم اور دہشتگردوں کی سرکوبی کے بجائے کالعدم جماعتوں اور ان کے سہولت کاروں کو وزارت داخلہ کی جانب سے انہیں سرگرمیاں کرنے کی مکمل اجازت دی گئی۔ جھنگ کے ضمنی الیکشن میں کالعدم جماعت سے تعلق رکھنے والے امیدوار کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔ کیا یہ ایک ذمہ دار وزیرداخلہ کی نشانی ہے؟ چودھری نثار کے اس جانبدارانہ رویے اور دہشتگردوں کے سہولت کاروں کے لئے نرم گوشہ رکھنے سے ان ہزاروں پاکستانیوں کی ارواح کو شدید ایذا پہنچا ہوگا کہ جو اس دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربان ہوئے۔

کہتے ہیں ایک زمیندار کی بھینس چوری ہوگئی۔ وہ اپنے طور پر کھوجیوں کو لے کر تلاش میں نکلا۔ چور بھینس ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں لیجاتے رہے کافی تلاش پیسہ اور وقت صرف کرنے کے بعد زمیندار نے چوروں کے گھر سے بھینس برآمد کر لی۔ کسی نے کہا کہ چودھری صاحب آپ نے جتنے پیسے اس بھینس کی تلاش میں خرچ کیے اتنے میں تو چار بھینسیں آ جاتیں۔ زمیندار نے کہا بات بھینس اور پیسوں کی نہیں ہے۔ اب سارے علاقے کے چوروں کو پتہ چل گیا ہے کہ چوہدری کا مال ہضم کرنا آسان نہیں یہ چور کے گھر تک پہنچ جاتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ ہمارے چودھری وزیرداخلہ معلوم ہونے کے باوجود چور کے گھر تک نہیں پہنچ سکے۔ اسی لئے چور کو بار بار واردات کرنے کی جرات ہوئی اور آج وہ اپنی ٹوٹی ہوئی کمر کے ساتھ اپنے اہداف میں بہ آسانی کامیاب ہوجاتا ہے۔

چودھری نثار اپنی فرائض کی ادائیگی میں وہ کردار ادا نہیں کرسکے جو ان کے منصب کا تقاضا تھا۔ اپنی ادائیگی فرض میں وہ غفلت کے مرتکب ہوئے۔ انکوائری کمیشن نے بھی چودھری نثار کو غیر ذمہ دار قرار دیا۔ جس کی بنا پر اب وہ اخلاقی طور پر وزیرداخلہ کے منصب کے اہل نہیں رہے۔ حکومت کو چاہیے کہ چودھری نثار سے وزارت داخلہ کا قلمدان واپس لے کر کسی ذمہ دار اور اہل شخص کو اس اہم اور حساس عہدے کی ذمہ داری تفویض کی جائے جو دہشتگرد اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف فوری سخت ترین ایکشن لے کر قوم کا لہو مزید سانحات میں بہنے سے بچائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments