العرب فی الباکستان، تلور ہوشیار باش


\"\"انسان اور پرندے کی کہانی بھی کیا عجب کہانی ہے۔ انسان دام بناتا ہے، دام میں لقمہ ڈالتا ہے، پرندہ لقمہ نگلتا ہے، پر پھڑپھڑاتا ہے اور انسان جیت جاتا ہے۔ اگر کہانی یہیں تک ہوتی تو ہم اسے نظریہ ضروت کے کھاتے میں ڈال دیتے، کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، اس کے لئے کرہ ارض کے دیگر پرندوں، چوپایوں اور رینگنے والوں نے قربانی دینی ہے۔ ہستی اور نیستی کا فلسفہ بھی تو یہی ہے کہ اگر سانپ چڑیا کو نگل لے تو یہی جواز پیش کر سکتا ہے کہ اب چڑیا میرے وجود کا وہ حصہ ہے جسے آپ اٹوٹ انگ کہہ سکتے ہیں۔ اب اسے فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، جب تک کوئی دوسرا سانپ مجھے نہیں نگلتا، میں اور چڑیا میرے ہی وجود میں گزارا کرتے رہیں گے۔ سانپ کی حد تک تو اس منطق کو ہم مان لیں لیکن جہاں آدمی سے انسان ہونے کا سفر شروع ہوتا ہے وہیں اخلاقیات کے خار میں منطق کا یہ چوغا بری طرح سے پھنس جاتا ہے۔

اگر ہماری معاصر یا کلاسیکی شاعری کا بنظر غایت مطالعہ کیا جائے تو یہ پتہ چلے گا کہ عورت، لڑکی، بلبل اور عندلیب ایسے استعارے ہیں جن سے دُکان سخن چلتے ہیں۔ جس پیرائے میں بلبل اور عندلیب کی صدائے پرسوز انسان کے کانوں کو بھلی لگتی ہے ویسے ہی (پرائی یا خیالی) عورت کے لب و رخسار، قد و گیسو کا بھی پرسوز آہنگ میں تذکرہ ہوتا ہے۔

اگر ہم صرف بلبل، عندلیب، بورا، اور اُڑنے کی صلاحیت رکھنے والے درجن بھر پرندوں کا ذکر اپنی شاعری سے نکال دیں تو استعاروں اور تشبیہات کی شدید قلت ہو جائے گی۔ جیسے گرفتار ہونے پر پرندہ پر پھڑپھڑاتا ہے ویسے ہی زبان و بیان بے معنویت کے عذاب سے دوچار ہوجائے۔ اگر اقبال کی شاعری سے شاہین نکال دیں تو صرف تلوار رہ جائے گی، طاؤس اور رباب تو ویسے بھی آخر میں آتے ہیں۔ البتہ غالب نے جا بجا عندلیب کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر سوال اٹھایا ہے۔

ایک اہل درد نے سنسان جو دیکھا قفس
یوں کہا آتی نہیں اب کیوں صدائے عندلیب؟
بال و پر دو چار دکھلاکر کہا صیاد نے
یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب

غالب کو بھی قفس عندلیب کے بنا سنسان لگتا ہے۔ چلیں یوں سمجھئے کہ وہ کم ازکم ان کے زندہ رہنے سے بھی جی بہلاتے تھے۔ شاعر اور کیا کر سکتا ہے؟ فارسٹ رینجر یا محافظ ماحولیات تو ہے نہیں کہ بندوق برادروں کو حوالات میں بند کردے۔ ہاں پرندے کی فریاد لکھنے میں اگر کوئی ان کی ہمسری کریں تو ہم جانے۔

جب سے عرب شیوخ کے لئے بلوچستان، خیبر پشتونخوا اور پنجاب کے پس ماندہ علاقوں کے تلور کے شکار نے سماجی حیثیت اختیار کی ہے، صیاد اور شکار کے معنی بدل گئے ہیں۔ پانچ دن پہلے جب وہ بلوچستان کے واشک، کچی اور سنی شوران کے علاقوں میں وارد ہوئے ہیں، تلور سمیت لہلہاتے کھیتوں کی بھی خیر باقی نہیں رہی۔ دو دن پہلے انہی اضلاع کے کسان بدمست عربوں کی شکایت صوبائی دارالحکومت لے کر آئے اور بتایا کہ وفاقی وزرا کی ایما پر بلائے گئے عرب شیوخ جہاں تلور کی نسل کشی میں مصروف ہیں وہاں انہیں نے تلور کی جائے پناہ، ان کی فصلوں کو روندنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ادھر کوئٹہ کمیشن رپورٹ کی وجہ سے صوبائی حکومت گھبرائی ہوئی ہے، عربوں سے باز پُرس کون کرے؟ این او سی میں انہیں ضلع لورالائی، موسی خیل وغیرہ کا بھی اجازت نامہ ملا ہے جو گذشتہ ایک سال سے شدید قحط سالی کے شکار ہیں۔ بلوچستان میں ان کی آمد کا فائدہ صرف یہاں کے چنیدہ سرداروں اور نوابوں کو ہوتا ہے، جب کہ باقی ماندہ آبادی عذاب ہی سہتی رہتی ہے۔

شکایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مقامی مذہبی زعما انہیں دیکھنے کے لئے بے قرار رہتے ہیں، ان سے شرف ملاقات حاصل کرنے کے لئے پاپڑ بیلنے میں محو ہیں۔ان کی آمد کو باعث رحمت قرار دیتے ہیں کیونکہ مدارس انہیں کی زکوۃ و صدقات کے دم سے چلتے ہیں۔ تلور کے شکار سے جو کارپوریٹ سیکٹر کی سماجی ذمہ داری کی مد میں رقم بنتی ہے وہ مدارس کے قیام میں کام آئے گی۔ ویسے بھی تلور ایک ایسا پرندہ ہے جو اگر عنقا ہی ہو جائے تو ہمارے شعر و ادب کے گلشن پر کوئی منفی اثرات ہیں پڑیں گے کیونکہ چکور، بلبل، عندلیب، وغیرہ ابھی عرب شیوخ کے عذاب سے بچے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments