عربوں کی دانش مندی اور سماجی رویوں کا بیان


\"\"

پشاور میں ہمارے آس پاس بہت عرب رہتے تھے۔ کویت ہاسپٹل بھی قریب تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایمن الظواہری وہاں ڈاکٹری فرمایا کرتے تھے۔ اسی ہسپتال میں عربوں کے ساتھ تراوایح پڑھنے جایا کرتے تھے۔ شیخ عبداللہ عزام بھی قریب ہی ایک مسجد میں جمعہ پڑھایا کرتے تھے۔ شیخ کو اسامہ کا استاد کہا جاتا تھا۔ عبداللہ عزام کو کار بم دھماکے میں مار دیا گیا تھا۔

ہمارے ہمسائے میں ایک عرب فیملی رہتی تھی۔ عربی بھائی کے اندر جب بدو جاگ اٹھتا تو اپنے بچوں بیگم کو کٹ لگایا کرتا تھا۔ بیگم کو گھر سے نکال دیتا تھا۔ وہ سیڑھیاں اتر کر جب سڑک پر پہنچ جاتی تو پھر اس کو بالوں سے چوٹی سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا واپس لے جاتا تھا۔ یونیورسٹی روڈ کے کسی چوک پر عربی اکثر لاتوں مکوں سے ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے دکھائی دے جاتے تھے۔

عام بول چال میں یہ لوگ اچھے تھے۔ ملنسار بھی تھے، آپ ہاتھ ملاتے یہ گلے ہی لگا لیا کرتے۔ الطاف بھائی والی مشہور ایک پپی ادھر اور ایک پپی ادھر والا پورا فنکشن بھی کر دکھاتے۔ جب زیورات کی امریکی کمپنی میں نوکری کی تو وہاں بھی کچھ کولیگ عربی تھے۔ اچھا بم کیسے بنے گا اس پر مستقل غور فکر کرتے رہتے تھے۔ اس سے فارغ ہوتے تو جنس سے متعلق مسائل فضائل بیان کرنے لگ جاتے۔ ان کا تجربہ بولتا تھا حسرتیں روتی تھیں۔

ارد گرد بہت عرب تھے۔ اسی نوے کی دو دہائیاں انہیں قریب سے دیکھا۔ ملی جلی سی یادیں ہیں۔ لیکن ان سے وابستہ کوئی ایک اچھی یاد نہیں ہے۔ دیکھا تو انہیں دور سے ہی کرتے تھے۔ لیکن ان کا تاثر کچھ ٹھیک نہ بن سکا۔ یہ تاثر تب خراب ہوا جب سینکڑوں افغان لڑکیوں کے خلیج بھجوائے جانے کا سنا۔ اس بات میں صداقت کتنی تھی کبھی جان نہیں پائے۔ بتانے والے ہمارے ہم جماعت افغانی تھے جن کا تعلق اہم جہادی تنظیموں سے تھا۔

عربوں کے بارے میں تاثر تب بالکل ہی برباد ہو گیا جب پشاور کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح کرنے شیخ صاحب آئے۔ ائر پورٹ سے مسجد تک پانچ چھ کلومیٹر کے مختصر راستے میں ہی شیخ کی جوانی پاٹ سی گئی۔ اس نے ہر قیمت پر گھنٹے ڈیڑھ کے اندر نکاح کا ہنگامی بنیادوں پر بندوبست کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ یہ کہانی پھر کبھی۔

میں اکثر سوچتا کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ اتنے لوگ ہوں ارد گرد اور کوئی اچھی یاد نہ ہو۔ بہت سوچ کر جو یاد کر پایا وہ اتنا تھا کہ وہ بہت گرم جوشی سے ملتے تھے۔

ایک نیوز ویب سائیٹ میں مزدوری لگی تو سائبر ورلڈ سے تعارف ہوا۔

نیٹ کی رنگین دوستیوں سے شہ پائی اور سوچا کہ کچھ سنجیدہ اور زیادہ تفصیلی لوفری ہونی چاہیے۔ ڈیٹنگ سائیٹ کا جائزہ لیتے ایک عرب سائیٹ پر نظر پڑی۔ پیسے دے کر ممبر بنا جا سکتا تھا۔ عربوں کو جاننے والے پرانے کیڑے نے ایسی اچھل کود کی کہ کارڈ سے لمبی رقم خرچی اور ممبر بن گئے۔

سائیٹ کا فورم ایسی جگہ تھی جس نے فوری متوجہ کیا اور سیاست کھیل وغیرہ سب کچھ نظر انداز کر کے سیدھا رومانس والے فورم میں داخل ہو گیا۔ نیت خیر سے باقاعدہ خراب تھی۔ شیطان نے آئیڈیا دینے میں کبھی کنجوسی نہیں کی تھی۔ بس نیت باندھ لی کہ کوئی نہ کوئی عربن جس کے اپنے جزیرے اور جہاز ہوں گے پاکستانی بلکہ پشوری ہیرو پر ڈھیر ہو ہی جائے گی۔ اپنا کیا کرنا تھا۔ اپنی قوم کا غم تھا کہ قرضے وغیرہ اتاریں گے چالیس پچاس ڈالر اور باقی پیسوں سے فقیرانہ زندگی گزاریں گے۔

رومانس والے حصے میں کیا کیا کچھ سوچ کر گئے تھے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ غدر مچا ہوا ہے۔ عرب اسرائیل مسلمان یہودی اور عیسائی کی سہ طرفہ جنگ جاری تھی۔ ہمارا کسی نے نوٹس ہی نہ لیا۔ کوئی پوسٹ کر بھی دیتے تو کوئی اس پر نظر ڈالنا گوارا نہ کرتا۔

ایک حیرت یہ جان کر ہوئی کہ عربی سارے مسلمان ہی نہیں ہیں۔ عربی یہودی بھی ہیں اور عیسائی بھی۔ یہ کافر عربی جب عربی میں اسلامی مسائل بیان کرتے، ان سے جو صورتحال پیدا ہوتی۔ وہ نہ بتائی جا سکتی نہ لکھی جا سکتی۔ تاریخی واقعات حوالے ان کی تشریح ایک نئے زاویئے سے دیکھ کر توبہ توبہ ہو جاتی۔ یہ اندازہ تو فوری ہو گیا کہ عقیدت کے زور پر عقیدہ بچانا مشکل ہو گا کچھ پڑھنا پڑے گا۔

پھر یاد آ گیا کہ ہم تو ادھر اک عربن گھیرنے کے مشن پر آئے تھے۔

اپنے اصل کام کا خیال کیا تو دل لگا کر شاعری نما دو چار میل کیں۔ یہ میل اپنی حسب ذائقہ عربن حسیناؤں کو ہی کی تھیں ظاہر ہے۔ کسی نے جواب تک دینے کی زحمت نہ کی۔ دو تین دن بعد ایک پوسٹ پر نظر پڑی جس میں ہماری میل لمکائی گئی تھی۔ ساتھ ایک نوٹ بھی لکھا ہوا تھا کہ دیکھو ایک مسکین پاکستانی بدو کڑیوں کو میل کرتا ہے۔

اس کی جرات دیکھو۔ نہ ان کا مذہب ٹھیک ہے نہ پیسے ہیں ان کے پاس اور نہ ان کو عشق معشوقی کا کچھ پتہ ہے۔ اس پر تباہ کن قسم کے تبصرے کر رکھے تھے یاروں نے۔ کچھ تبصرے ایسے بھی تھے جن کا تعلق پاکستانی حکیموں کی نالائقی سے تھا۔ پاکستانیوں کی مردانہ صلاحیتوں پر ہی شک شبے کا بے دریغ اظہار کر رکھا تھا یاروں نے۔

عجیب و غریب پوزیشن تھی ایک پرائیویٹ میل کھلی پڑی تھی اور قومی بزتی کا سامان ہو رہا تھا۔

تھوڑا غور کیا تو اندازہ ہوا کہ جسے میں نے میل کی تھی اس نے شیئر نہیں کی۔ اس کی دوست نے کی ہے۔ اور یہ آئی ڈی ایک سے زیادہ عربی حسینوں کے مشترکہ استعمال میں ہے۔ بس یہی موقف اپنا کر ہم نے چھلانگ مار دی کہ جسے میل کی تھی اس نے شیئر نہیں کی اور جس نے شئیر کی اس کا در فٹے منہ۔ ساتھ یہ بھی ارشاد کیا کہ اتنے بھوکے عربی پہلی واری دیکھے جو چندہ کر کے آئی ڈی چلا رہے۔ یہ حملہ اور شاید انداز ان کے لئے غیر متوقع تھا۔

جنگ عظیم البتہ تب چھڑی جب ایک عرب امریکی یہودی نے عربوں کو کوئی نادر قسم کا خطاب دے دیا۔ اس کافر عربی کا بیان لمبا چوڑا تھا جو اس نے وسی بابے کی حمایت میں دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ بدو حضرات کو بندر سے انسان بننے میں ابھی بہت ٹائم ہے۔ کسی کو پسند کرنا حسن کی تعریف کرنا کسی کو چاہنا انسان کا حق ہے۔ بدو حضرات کی عزت تو روٹین کے تعریفی کلمات سے بھی لٹ جاتی ہے۔ ان کی انہی حرکتوں کی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ اسرائیل ہمارا ہے۔ بس پھر وہی ہوا یعنی سائبر قتلام۔

جنگ کئی دن جاری رہی۔ البتہ دو عدد امریکی عرب خواتین نے وسی بابے کی میل کو غیر معیاری قرار دینے کے باوجود میل کرنے کو وسی بابے کا بنیادی انسانی حق قرار دے دیا۔ عرب اپنے تعلقات میں بہت واضح رہنا پسند کرتے ہیں۔ دوستوں سے مستقل فیصلہ کن حمایت انہیں ہر وقت چاہیے ہوتی۔ وہ بھی کسی اگر مگر کے بغیر۔

جب پرائیویٹ میل شیئر کرنے پر مخالفت ہوئی تو دونوں دوست لڑکیوں کی بھی آپس میں لڑائی ہو گئی۔ لڑائی کہ وجہ یہ تھی کہ پرائیویٹ میل پوسٹ کرنے والی کے خیال میں اس کی دوست اس لڑائی میں اس کی کھلی حمایت نہیں کر رہی تھی۔

عرب صرف عربی کے لئے ہی نہیں ہر زبان اس کی صحت کے حوالے سے حساس ہیں۔ یہ اندازہ تب ہوا جب ہماری گلابی انگریزی پر بدو حضرات کو کڑھتے دیکھا۔ رومن میں سپیلنگ گرائمر کے بغیر لکھی انگریزی نے ان کو اوازار کر کے رکھ دیا تھا۔ ان کو جب سمجھ آ جاتی کہ اس نے کیا لکھا تو طوفان مچ جاتا۔ وہیں یہ احساس ہوا کہ عرب دوسری زبان بھی جب سیکھتے ہیں تو مہارت حاصل کرتے ہیں۔ پھر اپنی لسانی مہارت پر فخر بھی کرتے ہیں۔

کچھ مرد خواتین سے بات تو ہونے لگی لیکن سلوک ان کا وسی بابے کے ساتھ ایک مسکین پاکستانی والا ہی رہا۔ صرف چند خواتین ہی دوست بنیں البتہ چار پانچ مردود عربی بھی انہی کے چکر میں گپ شپ لگانے لگے اور رفتہ رفتہ دوست بن ہی گئے۔

ایک دن پھر یہودی عربی معرکہ ہوا اور جب بدو حضرات اگے لگ کر دوڑ لگائے ہوئے تھے تو اسرائیلی تب بالکل چپ کر گیا جب اس کو پاکستان ایٹمی طاقت اور شامی جنگ یاد کرائی کہ ہم بھی موجود تھے اور جانتے ہیں تمھاری بہادری۔ وہ بندہ جانے کس وجہ سے بھاگا لیکن پہلی بار مسکین پاکستانی کا بھی نوٹس لے ہی لیا گیا۔

بدو حضرات کی محفل میں جانا کہ عربی حکمت کی بات بہت کرتے ہیں۔ امریکیوں نے جنسی ادویات بلاوجہ متعارف کرائیں اور پاکستانی حکیم بھی بس چھنکنا ہی بجاتے ہیں۔ بدو حضرات جس تفصیل کے ساتھ جنس کے موضوع پر خظاب کرتے اور جس طرح مرد و خواتین انہماک کے ساتھ یہ حکمت کے موتی رولتے وہ باتین سننے والا جوان ہی رہتا ہے۔ یہ حکمت اس پر عربوں کی مہارت پر اب میرا یقین اب آپ میرا ایمان ہی سمجھیں۔

یادگار وہ تھا جب وسی بابا نے عربوں کے بارے میں اپنے خیالات بیان کیے۔ خیالات جاننے کی فرمائش عرب دوستوں کی ہی تھی۔ اظہار خیال کچھ اس قسم کا تھا کہ تم عرب وہ احمق قوم ہو جن کو عام باتیں بتانے بھی پیغمبر آئے۔ خدا کو عربوں کو ہدایت دینے کے لئے پیغمبروں فرشتوں کے ذریعے تم سے مواصلاتی رابطے رکھنے پڑے۔

تمھیں یہ تک بتانے پیغمبر آیا کہ بیٹوں کو نہیں مارتے۔ پھر بیٹیوں کو مارنے سے منع بھی پیغمبر نے کیا حد یہ ہے کہ کیا کیا کر کے ہاتھ دھونا ہے اور نہانا ہے یہ بھی نبیوں نے بتایا۔ دور جہالت میں تو تم لوگ تشریف کو ریگ مال کرتے رہتے تھے یہ سوچے بغیر کے یہ گھس گئی تو دوجی نہیں ملے گی ان خیالات کے اظہار پر دبا کر گالیوں سے نوازا گیا۔ برا بھلا کہا گیا لیکن دوستیاں کچھ مزید مستحکم ہی ہوئیں۔ بات کچھ مزید کھل کر ہونے لگی۔

معمولی ضد پوری کرنے کے لئے لمبے خرچے کرنے کے مظاہرے کئی بار دیکھنے کو ملے۔ ایک بار ایک خاتون نے ایک نئی ویب سائٹ بنوا کر اپ لوڈ کی اور اس پر اس کے کافی پیسے لگے۔ وہ کچھ مردوں کو نیچا دکھانا چاہتی تھی اور ان کی کرتوت ظاہر کرنا چاہتی تھی۔ ویب سائیٹ بہت ہی اعلی تھی۔ جو بدو اس پر گیا اسک اکاؤنٹ ہیک ہوا اتنا ہی نہیں اس کی ای میل بھی ہیک ہوئی کہ اس بندی نے بتایا کہ یہ شہزادے ہر جگہ ایک ہی پاسورڈ رکھتے تھے۔ پھر اس خاتون نے سب کے ناک رگڑ کر ان کے اکاؤنٹ واپس کیے۔ البتہ اس سے پہلے سب کے اکاؤنٹ سے اتنا کچھ ضرور ویب سائیٹ پر لمکا دیا کہ ان کی کئی ہفتے بلے بلے ہوتی رہی بیچاروں کی۔

انکے ساتھ جتنا وقت گزارا ان سارے سال میں زید کے ساتھ مستقل جنگ جاری رہی۔ یہ ایک فلسطینی امریکن تھا اور نہائت فسادی۔ ایک دن اس کو بتایا کہ بیٹا انتظار ہے کہ کب اپنے گاؤں جاؤ گے۔ اس کا گاؤں اسرائیل میں تھا۔ اسے بتایا کہ تم گاؤں پہنچو ایک بار تمھیں وسی بابا پشاور سے کال کرے گا۔ پھر ساری عمر جیل میں ہی شہزادوں والی لائف گزارنا۔ یہ مذاق میں دی گئی دھمکی اس کے دل کو لگ گئی۔

اس کے والد کی جب وفات ہوئی تو وہ اسرائیل چلا گیا۔ ہم سب نے اپنے مشترکہ گروپ میں زید سے اظہار افسوس کیا۔ اس اظہار افسوس کے باوجود زید کو اتنا خدشہ رہا کہ اس کے دوست نے امریکہ سے وسی بابے کو کال کی۔ اس کال میں اس نے زید کی طرف سے درخواست کی کہ وسی بابے سے کہنا مجھے اظہار تعزیت کے لئے پشاور سے اسرائیل کال نہ کرے، تمھاری تعزیت بس قبول ہے۔

وسی بابا اب تک سوچتا ہے کہ جب زید کا اسرائیل تو چھوڑیں امریکہ کا نمبر بھی نہیں تھا اس کے پاس تو اس نے کال کیسے کرنی تھی۔ اس بات پر زید کی عقل بندی کی داد تو دینا بنتی ہے۔ کیا خیال ہے یارو۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments