گالی میں غیرت نہیں، اختیار دینے میں ہے


\"\"ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل ایک عجیب و غریب قضیہ ہے۔ پاکستان میں مرد کل آبادی کا نصف سے زائد ہیں۔ یہ بھی ایک بہت دلچسپ مگر اعداد و شمار کا مغالطہ ہے کہ ہمارے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی عورتوں پر مشتمل ہے حالانکہ بین الاقوامی اداروں کے اعدادوشمار اس بات کی مکمل نفی کرتے ہیں۔ خیر تو بات ہو رہی تھی کہ پاکستان کی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ مردوں پر مشتمل ہے اور مردوں کی آبادی کے اس حصے کا تین چوتھائی کا تکیہ کلام ’’بہن کی گالی‘‘ ہے۔ مرد خوش ہے تو پھر بھی بہن کی گالی اور ناراض ہے تو پھر بھی بہن کی گالی۔ دشمن ہے تو بھی بہن کی گالی اور دوست ہے تو وہ بھی بہن کی گالی۔ بلکہ دوست تو ایک دوسرے کو پکارتے ہی اسی نام سے ہیں اور ہمیں تو حیرت اس بات پر ہے کہ زیادہ تر دوستوں کا تو یہی نام ہوتا ہے تو یہ لوگ بڑے گروپ میں یہ کیسے پتہ لگا لیتے ہیں کہ کس کو پکارا جا رہا ہے۔ شاید یار لوگ ایک دوسرے کے لب و لہجے سے اندازہ لگا لیتے ہوں گے کہ کس کو پکارا جا رہا ہے۔ اب جہاں تکیہ کلام اور روزمرہ یہی گالی ہو تو وہاں کے معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل کچھ عجیب محسوس ہوتا کیونکہ رائج العام اس گالی کی تشریح کے لحاظ سے تو ہمارے ملک کے اکثر مرد رائج معنوں میں تو غیرت سے عاری ہیں تو پھر کس بات کی غیرت کے نام پر قتل۔ فیروز اللغات کے مطابق غیرت کا ایک مطلب حسد، رشک اور جلن بھی ہے۔ اس لئے میرے خیال میں معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل دراصل رقابت، حسد، جلن اور رشک کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل کے معاملے کو دیکھنے کے لئے ہمیں ایک اور گالی کو بھی دیکھنا پڑے گا جس کے بعد ہمیں غیرت کے نام پر قتل کرنے کی وجہ کو سمجھے میں آسانی رہے گی اور یہ لفظ ہے ’’سالا‘‘۔ یہ گالی بھی اپنے قریبی دوستوں کو اور دشمنوں کو لب و لہجے کے فرق سے یکساں طور پر دی جاتی ہے۔ اب بڑی دلچسپ بات ہے کہ پہلی گالی کا تعلق اور دوسری گالی دونوں کا تعلق بہن کے ساتھ ہے۔ بس فاعل و مفعول بہ کا ادل بدل ہوتا ہے بہن کی ذات نہیں بدلتی۔ یعنی دونوں صورتوں میں مردوں کی مرضی ہے کہ وہ جو چاہیں بہن کے ساتھ کریں کوئی مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب عورت اپنی مرضی استعمال کرنا چاہتی ہے۔ غیرت اس وقت جاگتی ہے جب عورت اپنی مرضی کا فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔ تو غیرت کے نام کا قتل غیرت کا مسئلہ نہیں ہے کنٹرول یا اختیار کا ہے۔ عورت کے جسم پر اختیار کا ہے جس کا استعمال مرد کی مرضی پر منحصر ہے۔ اور جب عورت اپنی مرضی کر کے مرد کے اختیار کو چیلنج کرتی ہے تو پدر شاہی معاشرے کے قانون میں اس کی سزا قتل ہے اور اس قانون پر عمل درآمد کرنے والا پدرشاہی معاشرے کے وحشیانہ قانون کا احترام کرنے والا ہے۔ لہٰذا معاشرہ، پولیس، عدالت اور میڈیا سب کی ہمدردی اس غیرت مند کے ساتھ ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کی پارلیمنٹ، جس کی ہمدردی بھی قاتل کے ساتھ ہے، جب اس قتل کے خلاف قانون سازی کرتی ہے تو وہ بھی ایسی کرتی ہے کہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ یعنی غیرت کے نام پر قتل کو فساد فی الارض قرار دینے کا اختیار جج کی صوابدید پر ہے۔ یعنی اگر جج صاحب غیرت کے نام پر قتل کو فساد فی الارض نہیں سمجھتے تو اس قتل کے کیس کے ساتھ عام قتل جیسا سلوک ہوگا۔
ہمیشہ یہی پڑھا اور سیکھا ہے کہ وقت بہترین منصف ہوتا ہے اور وہ بہت دیر سے سہی مگر صحیح فیصلہ کرتا ہے جس کا اثر معاشرے میں نظر آتا ہے۔ مگر عورتوں کے کیس وقت کی عدالتوں میں مدتوں سے لٹکے ہوئے ہیں اور ان کیسوں میں مجرم \”الفاظ\” کو نامزد کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ لفظ ہی ہیں جو صدیوں سے عورتوں کو قتل کرتے آئے ہیں کبھی محاوروں کے بھیس میں، کبھی کہانیوں کے بھیس میں اور کبھی ٹپوں اور لوک گانوں کے بھیس میں۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اگر وقت کی عدالت سے الفاظ کے خلاف فیصلہ آجائے تو پھر تو شاید نئے سرے سے تاریخ لکھنی پڑے، نئے سرے سے ایک زبان ایجاد کرنی پڑے گی جو جنسی امتیاز کے بغیر ہوگی۔ تو غیرت کے نام پر قتل کا مقدمہ بھی وقت کی عدالت میں لٹکا ہوا ہے۔ اس کے خلاف فیصلہ کبھی آئے گا بھی یہ کہنا مشکل ہے مگر جب تک اس قتل کے ساتھ اس کا محافظ لفظ \”غیرت\” موجود ہے تب تک اس قتل میں کمی نہیں آسکتی نہ ہی قاتل کو سزا ہو سکتی ہے۔ کم از کم ٹوکن قانون سازی تو کسی طور اس قتل کو کم کرنے میں معاون ثابت نہیں ہو سکتی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments