حلب، چکوال اور ہم پاکستانی


\"\"

حلب پر سرکاری فوج کا قبضہ۔ قتل عام کی خبریں آئیں تو پاکستان میں ایک حلقے کے سینے میں درد سا اٹھنے لگا، کہ انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے۔ جی ہاں ایسا ہی ہوا، لیکن سرکاری فوج نے باغیوں کو کچلنے کے لیے جو انتہائی قدم اٹھایا، اس کا نتیجہ تو ایسا ہی نکلنا تھا۔ اس سے پہلے باغی جو کچھ کر رہے تھے، وہ بھی انسانیت کی تذلیل ہی تھی، لیکن اس وقت ان سینوں میں ٹھنڈ پڑی ہوئی تھی، جن میں اب شعلہ سا جل بجھا۔ حلب کے باغی شامی افواج کے لیے ویسے ہی ہیں، جیسے پاکستانی ریاست کے لیے طالبان، یعنی ریاست کے آئین کے باغی۔

حلب میں خون بہا، پاکستانیوں کو کیا کرنا چاہیے؟ متضاد بیانات سن کر یہی سوال اُبھرا کہ ہم پاکستانیوں کو ایسے موقع پر کیا کرنا چاہیے۔ انھی دنوں بارہ ربیع الاول کے روز یہاں پاکستان کے ایک شہر چکوال میں احمدیوں کی عبادت گاہ کو جلا دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر جس نے چکوال سانحے کی مذمت کی، اسے جواب دیا گیا، کہ حلب جل رہا ہے، سانحہ چکوال تو معمولی بات ہے۔ کہنے والوں نے یہ کہنا چاہا، کہ حلب کے انسان چکوال کے انسانوں سے زیادہ اہم ہیں۔ شعلے ہمارے گھر سے اُٹھ رہے ہیں، اور ہم پانچویں محلے کے بھانبڑ پر نظریں جمائے ہیں۔ سوال اپنی جگہ ہے، ہم پاکستانیوں کو ’حلب‘ کے انسانوں کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ اُن سے ہم دردی کا اظہار کرنا چاہیے، سرکاری فوج کے ظلم کی مذمت کرنی چاہیے، اور بس۔ اور بس کہ اس سے زیادہ پاکستان یا پاکستانی کیا کر سکتے ہیں؟ یہی کچھ تو ہم اُس وقت کر رہے تھے، جب چکوال میں اقلیتوں کی عبادت گاہ کو جلایا گیا، مذمت۔

حلب کے لیے ایک پاکستانی کیا کر سکتا ہے؟ مذمت! چکوال میں جو واقعہ ہوا، ایک پاکستانی کیا کر سکتا ہے؟ مذمت؟ جی ہاں مذمت، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ریاست پر یہ دباؤ ڈال سکتا ہے، کہ اس سانحے کے مجرموں کو تلاش کیا جائے، اور قرار واقعی سزا دی جائے۔ پاکستانی ریاست کی طرف سے مجرموں کو سزا دی جانی چاہیے۔ حلب کے لیے ہم مذمت سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ حلب میں اقلیت کو کچلا گیا، ہمیں تکلیف ہوتی ہے، اور چکوال میں اقلیت کی تذلیل کی گئی، ہمیں رونا نہیں‌ آتا؟ کئی لوگ یہ پڑھ کر کسمسانے لگیں گے، کہ احمدیوں کے لیے آپ کیوں بولتے ہیں؟ گویا ہمیں صرف سنیوں کے لیے بولنا چاہیے؟ کیوں نہ کہا جائے کہ ہم بے ایمان ہیں؟ کیوں نہ کہا جائے کہ ہم خود غرض ہیں؟ کیوں نہ کہا جائے کہ اقلیت کی عبادت گاہ جلانا اسلام کی تعلیمات کے برعکس ہے؟
شام میں کون برسر پیکار ہے؟ روس اور امریکا؟ جی نہیں مسلمان، مسلمان کا دشمن ہوا جاتا ہے۔ روس اور امریکا تو اپنا سامان حرب آزما رہے ہیں، فرقہ بندیوں میں جکڑے مسلمان اپنا لہو خود پی رہے ہیں۔ کیوں نہ کہا جائے کہ فرقہ واریت اسلامی تعلیمات سے میل نہیں کھاتی؟ ایک پاکستانی حلب کے لیے کیا کرسکتا ہے؟ بہت آسان جواب ہے، یہاں‌ پاکستان میں شیعہ اقلیت میں ہیں، انھیں طعنے دیے جا سکتے ہیں، انھیں بتایا جا سکتا ہے، کہ شامی حکومت تمھاری ہے، یہ ظلم تم نے ہم ہر کیا، اب اپنے انجام کے لیے تیار ہو ہو جاؤ۔ ایسے میں خدا نخواستہ اُدھر کوئٹہ سے ہزارہ قوم پر حملے کی خبر آئے تو سینوں میں ٹھنڈ پڑ جائے، ورنہ سینہ جلتا رہے گا، یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا! دوسرا منظر یہ ہو سکتا ہے، کہ پاکستان شیعہ کسی علاقے پر طالبانی انداز میں قبضہ کریں، اور اُن کے خلاف ضربِ عضب جیسی کارروائی کی جائے۔ لہو پانی سے ارزاں ہو جائے، اور ہمیں چین پڑ جائے۔

ایک تیسری صورت بھی ہے، وہ یہ کہ احمدی، عیسائی، ہندو شہری ریاست پاکستان کے باغی ہو جائیں۔ یہ کہتے کہ غیر مسلموں کو یہاں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ ’ہندو کبھی ہمارا دوست نہیں ہو سکتا‘۔ ’یہاں‌ احمدیوں سے لین دین نہیں کیا جاتا‘۔ قرآن کا حکم ایک خاص وقت اور علاقے کے بارے میں نہیں تھا بلکہ کبھی بھی ’عیسائی اور یہودی ہمارے دوست نہیں ہوسکتے‘۔ پاکستان میں یہ سبھی رہتے ہیں، سنتے ہیں، پڑھتے ہیں، کہ ان کے بارے میں کیا کہا جا رہا ہے۔ اسی طرح کے نفرت انگیز جملے ہی نہٰیں، اس سے کہیں بڑھ کر مغلطات بکی جاتی ہیں، ایسا کرنے والے انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں۔ حلب کے واقعے سے ہمیں کیا سیکھناچاہیے؟ یہ سبق کہ ہم سب ایک ریاست کے شہری ہیں، اور ہم اپنے ہاتھ، اور زبان سے کسی شہری کی دل آزاری نہ کریں۔ ہر کسی کو اس کے عقیدے کے مطابق جینے کی آزادی کے حق کو تسلیم کریں۔ ہم اپنے اعمال سے بتائیں کہ ہم اچھے شہری ہیں، زبان سے کہنا، کہ دین اسلام امن کا آشتی کا مذہب ہے، کوئی معنی نہیں رکھتا، جب تک کہ ایسے مسلمان نہ بنیں، جو ایک بے گناہ کے قتل کو انسانیت کا قتل سمجھے۔ وہ بے گناہ چکوال میں بستا ہو، یا حلب میں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments