آپ لڑکی ہوتے تو بیٹی اور بیوی کو سمجھ پاتے


\"\"مجھے ایک بات کبھی نہ پتہ چل سکی؟ بتائیں ذرا کیا ہوسکتی ہے جو میری سمجھ سے بالا تر ہوگی؟ شاید کوئی خدا کا بندہ جواب دے سکے، میں نے ہمیشہ اپنی امی سے یہی سنا کہ بیٹی یہ معاشرہ مردوں کا ہے۔ عورت بغیر مرد کے سہارے کے کبھی مستحکم نہیں ہوسکتی۔ مرد ہی عورت کے وجود کو مکمل کرتا ہے۔ میری اپنی امی سے اکثر بحث ہوا کرتی تھی جب وہ مجھے یہی ایک بات باور کراتی رہتی تھیں کہ خود کو ماحول کے ساتھ ڈھالنا بے حد ضروری ہوتا ہے یعنی سسرال اور سمجھوتہ ہی کامیاب زندگی کا نام ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ سمجھوتہ کیا عورت کے نصیب میں ہی لکھا گیا ہے یا اس عمل میں مرد کی اپنی وجود کی تسکین و تعظیم کا زیادہ عمل دخل ہے جس کی وجہ سے وہ عورت کو ہی جھکتا دیکھنا چاہتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ مرد حالات سے سمجھوتہ نہیں کرتا، ضرور کرتا ہوگا مگر ایسے مردوں کی تعداد بہت ہی کم ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ مرد کو پیدا ہوتے ہی بادشاہ بنا دیتا ہے۔

لڑکا پیدا کیا ہو جاتا ہے عورت خود کو ایک عظیم عورت مان لیتی ہے، فخر کرتی ہے، ناز کرتی ہے کہ اب وہ مضبوط ہوگئی۔ سسرال میں بیٹے کی پیدائش سے اہم ہوگئی، اب ہر کوئی عزت کرے گا تکریم کرے گا۔

عورتوں کے اس پاگل پن پر بھی رونے کو جی کرتا ہے۔ خود کو خوش کرتی رہتی ہیں۔ بھلا مجھے یہ کوئی بتا دے کہ بیٹے یا بیٹی کی پیدائش ہونے یا نہ ہونے کا سہرا مرد اور عورت میں سے کس کے سر جانا چاہئیے؟ یہ کوئی آپ کا کارنامہ تو نہیں خدا کی دین ہے خدارا اپنی مردانگی کا لوہا نہ منوایا کریں؟نہ ہی خواتین بیٹے کی پیدائش پر کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دے دیتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں مرد کی تربیت کا جو پیمانہ ہے اس کا موازنہ عورت کی تربیت سے کبھی نہیں کیا جاسکتا، ایسا میرا ماننا ہے۔ میرا اپنا خاندان اس اعتبار سے بہت اچھا ہے کہ وہاں خواتین کی عزت و تکریم میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے۔ میرے ابو نے بھی ہمیشہ میری امی کو بھر پور اہمیت دی وہ امی سے ہمیشہ مشورہ کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں۔ مگر کچھ جگہوں پر میں نے اپنے ابو کو بھی بیٹوں کے حق میں زیادہ حساس پایا۔  میں اپنے امی ابو سے اس بات پر ہمیشہ ناراض ہوجاتی تھی کہ آپ دونوں کو جہاں بولنا چاہئیے آپ وہاں نہیں بولتے، آپ کیوں چاہتے ہیں کہ میں ہی خاموشی اختیار کروں۔ میں یہ نہیں کہتی کہ آپ مجھے چپ نہ کرائیں مگر خدارا اگر مجھے چپ کرا رہے ہیں تو بھائی کو بھی تو سمجھائیں کہ تم خوامخواہ بات نہ بڑھاؤ، تم بھی چپ ہوجاؤ۔

ہمارے معاشرے میں کچھ ناہمواریاں شاید ہمیشہ ہی موجود رہیں جن میں بیٹوں پر خاص نظر کرم کا رجحان شاید کبھی کم نہ ہو کیوںکہ وہ اولاد نرینہ ہوتی ہے۔ میں اپنی امی سے بھی یہی کہتی تھی کہ امی آپ کہیں نہ کہیں ایسی بات کر دیتی ہیں جہاں مجھے لگتا ہے کہ میں صحیح ہوکر بھی غلط ہوں صرف اس وجہ سے کہ آپ بیٹے کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں۔ یقیناََ نہ کریں، مگر بیٹی کو بھی نہ کریں، بس یہی ایک بات ہے امی جو تکلیف دے دیتی ہے۔

میرے بھائی بھی بہت اچھے تھے، انہیں علم ہوتا تھا کہ یہ چپ نہیں ہوگی سنا کر ہی دم لے گی؟ کیونکہ میں رو رو کر طوفان برپا کر دیتی تھی۔ میرے احتجاج سے امی ابو کو بھی اندازہ ہوجاتا تھا کہ کہیں کچھ ایسا ہوا ہےجو بیٹی کو برا لگ گیا۔ مگر میں تو ہر ان کے چیز علم میں لادیتی۔

بیٹا ہو یا بیٹی دونوں کو تحفظ دینا ماں باپ کی ذمے داری ہوتی ہے۔ تحفظ سے مراد یہاں صرف گھر پیسہ اور سر پرستی نہیں ہے۔ ماں باپ کی کبھی کبھار بچوں کے معاملات میں عدم دلچسپی بھی انہیں غیر محفوظ کر دیتی۔ یہی عدم تحفظ جب آپ کے بچے کے وجود میں سرائیت کرنا شروع کردیتا ہے اور وہ چڑچڑا، ناراض اور بے پرواہ ہونے لگتا ہے تو ماں باپ اس سوچ میں گرفتار ہوجاتے ہیں کہ آخر ہم نے کمی کہاں کردی، اتنا پیار تو کرتے ہیں، سب کچھ تو کرتے ہیں، وغیرہ۔ مگر میں یہ کہنا چاہوں گی کہ لوگ کہتے ہیں پیسہ ہر مرض کی دوا ہے مگر در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ پیسہ آپ کو محبت نہیں دے سکتا، محبت صرف اور صرف محبت سے ہی ملتی ہے۔ محبت کی جگہ پیسہ دے دینے سے اس خلش کو پر نہیں کیا جاسکتا، وہ قرار میسر نہیں ہوتا جو ماں باپ کی توجہ یا محبت دے سکتی ہے۔ اضطرابی کیفیت طاری رہنا شروع ہوجاتی ہے اور یہی سوال گردش کرنا شروع کردیتا ہے کہ امی ابو کیوں اس درد کو محسوس نہیں کر پارہے جو میرے وجود کو کھوکھلا کرتا جارہا ہے؟

آپ ہنس رہے ہوں گے کہ میں کیسی باتیں کر رہی ہوں لیکن جب آپ اپنے درد پر احتجاج شروع کردیتے ہیں اور احساس دلاتے ہیں کہ غلط غلط ہے اور وہ غلط ہی رہے گا تو دوسرے شخص کو بھی علم ہوجاتا ہے کہ وہ کہاں غلطی پر تھا۔

یہاں ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ ماں باپ کو مورود الزام ٹھرانا شروع کردیں کہ وہ غلط ہیں۔ میرا کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ آپ اپنےحق کے لئے بولیں۔ محبت سے بولیں، پیار سے بولیں اسی پیار سے جس سے ماں باپ آپ کو اپنے سینے سے لگاتے ہیں۔ آپ کا ماتھا چومتے ہیں، انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں۔ آپ کی مسکراہٹ کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور آپ کی پریشانی پر افسردہ۔

ہمیں ہر بات اپنے ماں باپ کے علم میں لانی چاہیئے مگر بات کی نوعیت دیکھتے ہوئے اور ایسا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب ماں باپ بچے کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھیں۔ اولاد کو چاہیئے کہ وہ اپنے ماں باپ کو اعتماد میں لیں، ان سے باتیں کیا کریں بتایا کریں کہ کیا بات تکلیف دے رہی ہے اور جس پر آپ پریشان ہیں۔ یاد رکھئیے شکایت وہ کرتا ہے جس کو محبت اور امید ہوتی ہے یا پھر آپ سے کوئی مطلب یا واسطہ ہوتا ہے۔ ہر کوئی نہ تو امید رکھتا ہے نہ ہی شکایت۔ اگر ماں باپ نہیں سمجھ پا رہے تو آپ خود ان کی شفقت حاصل کرلیا کریں اس طرح دل کو سکون اور قرار مل جائے گا۔

میری امی نے مجھے ہمیشہ یہ سمجھایا کہ کوئی رشتہ کامیاب نہیں ہوتا رشتوں کو کامیاب بنایا جاتا ہے، رشتہ توڑ دینا بہت آسان ہے لیکن نبھانا انتہائی مشکل اور ہمارے بر صغیر پاک وہند میں تو انتہائی سنگین نوعیت کا ہے۔ جب لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو اسے اس طریقہ کار سے سمجھایا جاتا ہے کہ جیسے بیچاری کسی محاذ پر جارہی ہو۔ میں بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی، میں ہمیشہ یہی سوچتی تھی کہ کیا اتنی ہی تاکید وتلقین لڑکے کی بھی ہوتی ہوگی جتنی لڑکی کی کی جاتی ہے۔ میں تو ساس، بہو اور سسرال کی باتوں اور امی کے مفید مشوروں سے نظر بچا کر رفو چکر ہوجاتی تھی۔ بہت ہی شدید غصہ آتا تھا، بس یہی دماغ میں گھومتا رہتا تھا کہ یہ سب بیچاری میری بہن کے ہی حصے میں آرہا ہے۔ لڑکے کو کون سمجھائے گا؟ کیونکہ مجھے یقین تھا کہ یہ رہنمائی میری بہن ہی کی ہو رہی ہے۔ کیا آپ نے کبھی لڑکے کے ماں باپ کو کہتے سنا ہے:

بیٹے سمجھداری سے چلنا ہم کسی کی بیٹی لا رہے ہیں وہ اپنے پورے خاندان کو چھوڑ کر ہمارے گھر آئے گی۔

بیٹے ہمیں پتہ نہ چلے کہ اسے تم سے کسی بھی طرح کی تکلیف یا شکایت ہوئی ہے۔

بیٹا وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر تمھارا گھر بنانے آ رہی ہے، اس کا خیال رکھنا تمھارا فرض بھی ہے اور ذمے داری بھی۔

اسے سمجھنا اور اسے تحفظ دینا تمھاری ترجیح ہونی چاہیئے۔ تم اس کا خیال رکھنا وہ خود بخود تمھاری ہوجائے گی۔ جگہ تمھیں اسے دینی ہے کیونکہ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر تمھارے ساتھ زندگی گزارنے آ رہی ہے۔ اس کی عزت کرنا اور محبت دینا تمھاری اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔

اب آپ ہی بتائیں کیا یہ الفاظ یا جملے آپ نے کبھی سنے؟ ہوسکتا ہے سنے ہوں اور اگر سنے ہیں تو یقیناََ آپ بہت خوش نصیب ہوں گے جن کو اتنے اچھے ماں باپ کی تربیت ملی ہےجو دوسرے کی بیٹی کو بھی اپنی ہی بیٹی سمجھتے ہیں۔

شکایت مردوں سے نہیں ان کے ماں باپ سے ہے۔ تربیت ماں باپ کرتے ہیں۔ ماں باپ بننا بہت بڑی خوش نصیبی بھی ہے اور بہت بڑی آزمائش بھی۔ میں جب گھر سے باہر نکلتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ مردوں کو کیسے \’سیدھا\’ کیا جائے۔

عورت کو ہراساں کرنے والے مرد آپ کو ہر جگہ ملیں گے۔ ہراساں کرنے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ خدانخواستہ کوئی تشدد کا نشانہ بنائے بلکہ ہراساں کرنے کی بھی اقسام ہیں۔ مثلاََ چہرے کے تاثرات، جملے بازی، مختلف حرکات و سکنات وغیرہ۔ سارا معاملہ ہی تربیت کا ہوتا ہے مگر اب تربیت غلط ہوگئی تو ہوگئی، حل کیا ہے؟

ہر کسی کے پاس ڈرائیور نہیں ہوتا، گاڑی نہیں ہوتی۔ ہر عورت گھریلو عورت نہیں ہوتی، ملازم پیشہ خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ بعض خواتین خوشی سے نوکری کرتی ہیں لیکن زیادہ تر ایسی خواتین مالی طور پر مستحکم خاندانوں میں ہی نظر آئیں گی۔ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتیں کے لئے نوکری مجبوری ہوتی ہے چاہے وہ تسلیم کرے یا نہیں۔ ظاہر ہے اگر آپ کسی عورت کی ظاہری شخصیت سے متاثر ہوجائیں اور اس سے یہ سوال کر بیٹھیں:

آپ تو ماشا اللہ شوقیہ نوکری کررہی ں ونگی؟ آپ کے شوہر اور خاندان کو تو ماشا اللہ آپ سے نوکری کی خواہش نہیں ہوگی؟ آپ کی شخصیت ماشا اللہ بہت متاثر کن ہے، آپ کو تو میڈیا میں جانا چاہیئے۔

اب بھلا کوئی میری جیسی ہو تو یہی کہے گی:

جی جی بالکل بجا فرمایا آپ نے، مجھے نوکری کی کوئی ضرورت نہیں الحمدللہ میں بس فراغت سے بچنے کے لئے نوکری کرتی ہوں۔ فراغت کا کیا فائدہ انسان کو ہمیشہ ترقی پسند ہونا چاہیئے۔ مگر یقین مانئے غصہ تو اتنا آتا ہے کہ بھائی تمہارا کیا لینا دینا اس بات سے؟ اور اگر مجھے ضرورت ہوگی بھی تو کیا تمھیں یہ کہوں گی کہ \”جی نہیں آپ نے بالکل غلط اندازہ لگایا محترم، مجھے جاب کی بے حد ضرورت ہے۔ خدا کرے آپ کی نوکری بھی مجھے مل جائے۔

ذرا سوچئے کیسی عجیب و غریب گفتگو فرماتے ہیں چند حضرات کہ خون کھولنا شروع ہوجاتا ہے۔ ارے بھائی نوکری کروں یا نہیں، میڈیا میں جاؤں یا نہیں تمہارا کیا واسطہ۔ مرد حضرات سے التماس ہے کہ ایسے مشورے نہ دیا کریں کہ دل دماغ دونوں خراب ہوجائیں۔ پھر محبت کا پیمانہ جو لبریز ہونا شروع کر دیتا ہے جس میں ہمدردی اور ملال شامل ہوتا ہے اس پر بھی قابو رکھا کریں کیونکہ ہر عورت کو ہر بات اچھی نہیں لگتی اور بات ہمیشہ سوچ سمجھ کر کی جاتی ہے۔ رحم دلی ضرور دکھائیں لیکن ترس نہ کھائیں کیونکہ خواتین بے چاری نہیں ہوتیں نہ ہی پاگل۔ ہر عورت کو کمزور بھی نہ سمجھا کریں کہ مجبور ہے، لاچار ہے، بے چاری ہمارے خرچے پر زندہ ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم عورت کو انسان کم کھلونا زیادہ سمجھتے ہیں۔ عورت اور مرد کو ایک دوسرے کی تکریم کرنی چاہئے۔ معاملات وہاں بگڑتے ہیں جب آپ محبوب کم اور حاکم زیادہ بن جاتے ہیں۔

عورت آپ کی جائیداد نہیں ہوتی، اس کی اپنی ایک شخصیت ہوتی ہے۔ اپنی پسند، ناپسند ہوتی ہے، خواہش ہوتی ہے، جزبات ہوتے ہیں اور خیالات ہوتے ہیں۔ اگر آپ کی بیوی یا بہن آپ کے آگے جھک رہی ہے تو یقین مانئیے یہ اس کی مجبوری نہیں آپ سے محبت ہوتی ہے۔ اس محبت کی حفاظت اور تحفظ دونوں پر لازم وملزوم ہوتی ہے۔ آپ اگر یہ چاہیں کہ مرد ہونے کے ناطے آپ ہر چیز ہر بات کی توقع بیوی سے ہی رکھیں تو یقیناََ یہ آپ کی زیادتی ہوگی اور مستقبل میں ہونے والا ملال بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments