یہودیوں اور اقلیتوں کا محافظ ترک سلطان


\"\"

پچیس نومبر 1491 کو آراگون کے بادشاہ فرڈینینڈ اور قشتالیہ کی ملکہ ازابیلا نے غرناطہ کے آخری بادشاہ ابو عبداللہ محمد سے معاہدہ غرناطہ کیا جس کی رو سے غرناطہ سے مسلم اقتدار کا خاتمہ ہونا طے پایا۔ اس معاہدے میں مسلمانوں کے جان، مال، عزت اور مذہب کے تحفظ کے لئے شرائط منوائی گئیں۔ فرڈینینڈ نے مان لیں۔ یوں جنوری 1492 میں اندلس سے آخری مسلم سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ یہ دونوں حکمران نہایت ہی راسخ العقیدہ کیتھولک عیسائی تھے اور یہودیوں اور مسلمانوں کو نہایت صدق دل سے بدعقیدہ لوگ جانتے تھے اور ان ’کفار‘ کو اپنے پاک ملک میں رکھنے کو تیار نہ تھے۔ فتح غرناطہ کے تین ماہ بعد شاہ فرڈینینڈ اور ملکہ ازابیلا نے فرمان جاری کیا کہ چار ماہ کے اندر تمام یہودی یا تو برضا و رغبت مسیحیت اختیار کریں یا پھر ملک سے نکل جائیں۔ جو ایسا نہ کریں وہ فوت کر دیے جائیں گے۔

کمال مہربانی سے کام لیتے ہوئے یہودیوں کو تمام مال و متاع لے جانے کی اجازت دی گئی تھی، صرف سونا، چاندی، سکے اور ایسی دوسری اشیا ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں تھی جن کو بادشاہ نے ممنوعہ اشیا کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔

\"\"طلیطلہ کے بشپ فرانسسکو سسنیروس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غرناطہ کے مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر زبردستی مسیحی کرنا شروع کر دیا۔ خاص طور پر وہ ان کی عورتوں کے ساتھ یہ سلوک کرتا تھا۔ اس پر غرناطہ میں بغاوت ہو گئی جس کی آڑ لے کر 1501 میں شاہ فرڈینینڈ معاہدہ غرناطہ سے منحرف ہو گیا۔ اس نے اب مسلمانوں کو بھی حکم دیا کہ برضا و رغبت مسیحی ہو جاؤ یار پھر فوت ہو جاؤ۔

کم و بیش ایک لاکھ تک یہودیوں نے اندلس کو خیرباد کہا۔ لاکھوں مسلمان بھی وہاں سے نکلے۔ اس وقت ترکی پر پہلے مسلم خلیفہ سلطان سلیم اول کے والد سلطان بایزید دوم کی حکومت تھی۔ سلطان بایزید دوم کو علم ہوا کہ شاہ فرڈینینڈ اس طرح یہودیوں اور مسلمانوں کو ملک بدر کر رہا ہے، تو اس نے امیر البحر کمال رئیس کی کمان میں بحری جہازوں کا بیڑا بھیجا تاکہ وہ اندلس سے یہودیوں اور مسلمانوں کو لا کر سلطنت عثمانیہ میں آباد کرے۔ سلطان بایزید نے شاہ فرڈینینڈ کی طرف سے ان اہل اور ہنرمند لوگوں کو سپین سے نکالنے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے درباریوں کو کہا ’کیا تم شاہ فرڈینینڈ کو ایک دانش مند بادشاہ سمجھتے ہو، جو اپنے ملک کو مفلس اور میرے ملک کو مالا مال کر رہا ہے؟‘

سلطان بایزید نے اپنے تمام یورپی گورنروں کو حکم دیا کہ ان افراد کو سلطنت عثمانیہ کی حدود سے ہرگز مت نکالا جائے اور ان کو دوستانہ انداز میں خوش آمدید کہا جائے۔ سلطان نے یہودیوں سے سختی سے پیش آنے والوں کو موت کی دھمکی دی اور یہودیوں کو سلطنت عثمانیہ کا شہری بننے اور وہاں رہائش رکھنے کی کھلی اجازت دی۔

\"\"

اندلس کے ان ہنرمند افراد نے سلطنت عثمانیہ کی ترقی میں بھرپور حصہ ڈالا۔ محض بیس برس بعد سلطنت عثمانیہ کا حکمران بننے والے سلطان بایزید کے پوتے سلطان سلیمان کے عہد حکومت کو سلطنت عثمانیہ کا عہد زریں کہا جاتا ہے اور اسے سلیمان ذیشان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

شاید ہم پاکستانیوں کے لئے اس میں کچھ سبق ہے۔ ہم بھی سپین کے شاہ فرڈینینڈ اور ملکہ ازابیلا کی طرح اپنے ہنرمند لوگوں، خاص طور پر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر کے اپنے ملک کو مفلس کر رہے ہیں، اور برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا کو مالا مال کر رہے ہیں۔

ہمارے ملک کی ترقی کے لئے ہر ہنرمند شہری اہم ہے خواہ وہ کسی بھی عقیدے یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ فرڈینینڈ اور ازابیلا نے یہ حقیقت نہ جانی۔ سپین اس کے بعد تہذیب و تمدن کے مرکز سے ایک پسماندہ ریاست میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments