ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ میں کسے بچایا جا رہا ہے؟


مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سربراہ جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے مطالبہ کیا \"\"ہے کہ کمیشن کی رپورٹ جاری کی جائے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس رپورٹ میں ذمہ داروں کا تعین کر لیا گیا تھا لیکن اب یہ رپورٹ کسی سرکاری دفتر کی الماری میں پڑی ہوگی۔ اسامہ بن لادن دنیا میں سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد تھا۔ مئی 2011 کو امریکہ کے دو ہیلی کاپٹروں نے ایبٹ آباد کی ایک عمارت میں مقیم اسامہ کو ہلاک کر دیا تھا ۔ امریکی فوج کا پاکستانی حدود میں یہ حملہ پاکستان کی خود مختاری کے خلاف تھا اور اس سانحہ پر دو لحاظ سے شدید تحفظات سامنے آتے رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ امریکہ میں 9/11 حملوں کا ذمہ دار سمجھا جانے والا شخص کیوں کر ایک ایسے شہر میں روپوش تھا جو پاک فوج کو گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت اور افواج پاکستان کی مرضی کے بغیر امریکہ کے خصوصی دستوں نے کس طرح افغانستان سے سرحد عبور کر کے ایبٹ آباد کی اس عمارت پر حملہ کیا اور اسامہ کو ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش اور دیگر مواد لے جانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ حکومت پاکستان نے کبھی یہ بات تسلیم نہیں کی کہ اسے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا علم تھا۔ لیکن کسی سول یا فوجی عہدیدار نے اس سانحہ کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی۔ ایبٹ آباد کمیشن نے 2013 میں اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی تھی لیکن اسے اب تک شائع نہیں کیا گیا۔

اس دوران امریکی صحافی کہتے رہے ہیں کہ اسامہ بن لادن آئی ایس آئی کے تعاون سے پاکستان میں چھپا ہوا تھا اور ملک کی اعلیٰ ترین قیادت کو اس کی موجودگی کا علم تھا۔ اس بارے میں قیاس آرائیوں اور الزامات کی گنجائش یوں بھی پیدا ہوتی ہے کہ اسامہ بن لادن اپنی تین بیویوں اور متعدد بچوں کے ساتھ 5 برس تک ایبٹ آباد میں قیام پذیر رہا۔ یہ بات ناقابل یقین لگتی ہے کہ دنیا کا بدنام ترین دہشت گرد 5 برس تک ملٹری اکیڈمی کی بغل میں مقیم رہے، اس کے اہل خاندان اس کے پاس آتے جاتے رہیں اور وہ بعض ہرکاروں کی مدد سے القاعدہ کے دہشت گرد نیٹ ورک سے بھی رابطہ میں بھی رہے لیکن آئی ایس آئی یا کسی دوسرے خفیہ ادارے کو اس بارے میں شبہ تک نہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات ملنے کے بعد امریکی سی آئی اے نے اپنے ایجنٹوں کو کئی ماہ تک ایبٹ آباد مینشن کی نگرانی کیلئے متعین رکھا۔ اس کے بعد مبینہ طور پر پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کو استعمال کیا گیا۔ ڈاکٹر آفریدی نے پولیو ویکسینیشن کی جعلی مہم کے ذریعے اس عمارت میں مقیم لوگوں کا ڈی این اے سیمپل حاصل کیا تھا جسے امریکہ کے پاس موجود اسامہ کے اہل خاندان کی ڈی این اے DNA معلومات سے ملا کر اس بات کی سو فیصد تصدیق کی گئی کہ جس شخص کی نگرانی کی جا رہی ہے وہ اسامہ بن لادن ہی ہے۔ اس کے بعد صدر باراک اوباما کی نگرانی میں یہ فوجی آپریشن کیا گیا۔ امریکہ نے پاکستان کی حکومت یا فوج کو اس بارے میں اطلاع دینا مناسب نہیں سمجھا۔

 امریکی میڈیا کے مطابق پاکستانی فوج کے ایک افسر نے اس بارے میں ابتدائی معلومات اسلام آباد کے امریکی سفارتخانے کے ذریعے فراہم کی تھیں۔ یہ افسر مبینہ طور پر اب واشنگٹن میں رہتا ہے۔ اسامہ کو ہلاک کرنے کی کارروائی سے پاکستانی فوج مکمل طور سے بے خبر رہی۔ یہ آپریشن مکمل ہونے کے بعد صدر باراک اوباما نے پاکستان کے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کو ٹیلی فوج پر اس کامیابی کی خبر دی۔ اچانک یہ خبر سن کر آصف زرداری نے بے ساختہ خوشی کا اظہار کیا تاہم حقیقت حال جاننے کے بعد اس مسرت میں کچھ کمی واقع ہوئی اور بعد میں اس کی مکمل تحقیقات کےلئے جسٹس جاوید اقبال کی سرکردگی میں ایبٹ آباد کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ یہ کمیشن جون 2011 میں قائم ہوا۔ 6 رکنی کمیشن میں سپریم کورٹ کے دو ریٹائرڈ جج اور چار اعلیٰ سطحی عہدیدار شامل تھے۔ 18 ماہ کی تحقیقات کے دوران اس کمیشن نے 300 افراد سے تفتیش کی اور کئی ہزار دستاویزات کا مطالعہ کیا۔ جنوری 2013 میں کمیشن نے 700 صفحات پر مبنی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی۔ لیکن حکومت نے اسے خفیہ قرار دے کر شائع کرنے سے انکار کر دیا۔ جولائی 2013 میں الجزیرہ نے اس رپورٹ کو شائع کیا تھا لیکن حکومت کی طرف سے ردعمل سامنے نہ آنے کی وجہ سے اس کے مندرجات کے بارے میں یقین سے کہنا مشکل ہے کہ وہ کس حد تک درست ہیں۔ اس دوران متعدد بار رپورٹ شائع کرنے اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ سامنے آتا رہا ہے۔ تاہم حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ تیز کرنے اور قومی ایکشن پلان بنانے کے باوجود یہ ضروری نہیں سمجھا کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو سامنا لایا جائے۔

 جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے سینیٹ کی امور داخلہ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے رپورٹ شائع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں نہ صرف یہ کہ ذمہ داروں کا تعین کر دیا گیا تھا بلکہ صورتحال کو تبدیل کرنے کےلئے 200 تجاویز بھی پیش کی گئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ان تجاویز پر عملدرآمد کیا جاتا تو دہشت گردی سے نمٹنے کےلئے متعدد نئے ادارے بنانے کی ضرورت نہ پڑتی اور آج حالات مختلف ہوتے۔ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے حوالے سے بعض اعلیٰ عہدیداروں کے ملوث ہونے کے بارے میں یوں بھی شبہات سامنے آتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی شناخت کروانے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستان میں غدار اور امریکہ میں دوست سمجھا جاتا ہے۔ امریکی حکومت اور کانگریس متعدد بار ڈاکٹر آفریدی کو رہا کرنے اور امریکہ بھیجنے کا مطالبہ کر چکی ہے لیکن حکومت نے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کیا حالانکہ پاکستان کو ملنے والی امداد کو بھی ڈاکٹر آفریدی کی رہائی سے مشروط کرنے کی بات کی جاتی رہی ہے۔ منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2012 میں ایک ٹوئٹ میں کیا تھا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو ڈاکٹر شکیل آفریدی منٹوں میں رہا ہو جاتا۔ اب پاکستانی حکومت ٹرمپ کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے تو دیکھنا ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کےلئے کس قدر دباؤ ڈالنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹر آفریدی کو دہشت گردوں کی مدد کرنے کے الزام میں قبائلی نظام عدل کے تحت 14 برس کی سزا دی گئی ہے۔ اس سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کو متعدد بار ملتوی کیا جا چکا ہے۔

ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کا مطالعہ دہشت گردی کے فروغ یا خاتمہ کےلئے پاکستان کے کردار کا تعین کرنے میں بھی اہم ہو سکتا ہے۔ 2014 میں پشاور آرمی اسکول پر حملہ کے بعد سے سرکاری طور پر یہ کہا جانے لگا ہے کہ پاکستان اچھے اور برے طالبان میں تخصیص نہیں کرتا۔ تاہم ایک طرف پاکستان ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمہ کے دعوے کرتا ہے تو دوسری طرف امریکہ کے علاوہ افغانستان کی طرف سے بھی پاکستان پر حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کی امداد کرنے کے الزامات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تنازعہ میں بھی دہشت گرد گروہوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو حوالہ بنایا جاتا ہے۔ بھارت مسلسل یہ موقف دیتا رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کا گڑھ ہے اور سرکاری طور پر ایسے گروہوں کی سرپرستی کرتا ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے سے ان الزامات کے حوالے سے صورتحال واضح ہو سکے گی اور ریاست اور اس کے اداروں پر اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کےلئے دباؤ ڈالا جا سکے گا۔

 پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت اور مسلح افواج کی کارکردگی کے حوالے سے بھی ایبٹ آباد کیشن رپورٹ کا سامنے آنا بے حد اہم ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا کا بدترین دہشت گرد برس ہا برس تک پاکستان میں مقیم رہا۔ امریکی ایجنسیوں کو اس کی موجودگی کا علم ہو گیا لیکن پاکستان کے کسی ادارے کو اس کی بھنک نہیں پڑی۔ پھر جب امریکی خصوصی فورس نے ایبٹ آباد میں حملہ کیا تو ہماری ائر فورس ، سرحدی نگرانی کا نظام اور فوج مکمل طور سے بے اثر ثابت ہوئیں۔ اپنے ملک میں آ کر فوجی آپریشن کرنے والے ایک غیر ملک کی فوج کو چیلنج نہیں کیا جا سکا۔ اس کی وجہ اگر نااہلی تھی تو بھی یہ ایک سنگین صورتحال ہے لیکن اگر اعلیٰ فوجی قیادت نے جان بوجھ کر اس حملہ کو نظر انداز کیا تھا تو یہ صریحاً ملک سے غداری کے مترادف ہے۔

موجودہ وزیراعطم نواز شریف ایبٹ آباد سانحہ کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت پر تنقید میں پیش پیش تھے۔ لیکن اب وہ خود ساڑھے تین برس سے برسر اقتدار ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ اس رپورٹ کو عوام کے مطالعہ کےلئے جاری کیا جائے۔ اس کے مطابق جو لوگ بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوئے ہیں یا انہوں نے غفلت سے کام لیا ہے، انہیں معمول کے مطابق قانونی طریقہ کار کا سامنا کرنا چاہئے۔ اس قسم کی رپورٹ فوج اور سویلین حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کےلئے خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ 1971 میں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کو بھی اسی لئے خفیہ رکھا گیا تھا۔ اگر ہم بطور قوم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے سے انکار کرتے رہیں گے اور سچائیوں کی پردہ پوشی کو قومی سلامتی کے تحفظ کا نام دیتے رہیں گے تو درپیش خطرات اور اندیشوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر سکتے۔

 یہ ممکن ہے کہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ میں بعض اعلیٰ فوجی افسران پر الزام عائد کیا گیا ہو۔ حکومت کو یہ جاننا ہوگا کہ بعض افراد کو بچانے کےلئے قوم کی سالمیت اور فوج جیسے ادارے کی شہرت کو داغدار نہیں کیا جا سکتا۔ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ سامنے نہ لانے سے افواہیں پھیلتی رہیں گی اور حکومت اور اداروں کی صلاحیت اور نیت کے بارے میں بے یقینی پیدا ہوتی رہے گی۔ یہ صورتحال ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کے برعکس ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments