چکوال کے احمدی اور ہمارے ملک کا آخری آدمی


\"\"دادا کی شادی تقسیم سے کچھ عرصہ پہلے ہوئی تھی۔ دادی وہاں کی تھیں جو علاقہ دشمن کہلایا۔ شادی کے ایک آدھ برس بعد دادی کو میکے جانا تھا، چلی گئیں۔ وہاں پہنچ کر حالات خراب ہو گئے، یہ عین وہی دن تھے جب دونوں طرف کے لوگ ہجرتیں کرتے تھے اور کٹ کٹا کر شہادت کا رتبہ پاتے تھے۔ خون اور گوشت سے لدی ہوئی ہوئی ٹرینیں، لاشوں سے بھرے ہوئے کنویں، ندیوں میں پانی کا سرخ رنگ، سب عام تھا اور اس کے گواہ وہ تھے جو بچ گئے۔ دادی بتایا کرتی تھیں کہ جب وہ لوگ واپس آنے لگے ان دنوں ہجرتیں شروع ہو چکی تھیں۔ بھارت سے نکل کر پاکستان کی سرحد تک مسلمان ہوتے ہوئے زندہ آ جانا کافی خطرے والا کام تھا۔ دادی نے ساڑھی باندھی، اس کا پلو سر پر ذرا آگے کیا اور جانے کے لیے تیار ہو گئیں۔ دادا نے خاکی پتلون اور کوٹ پہنا، سر پر سولا ہیٹ رکھا اور کچھ فوجیوں کا سا حلیہ بنا کر وہ بھی نکل پڑے۔ راستے میں بہت سی مشکلات ہوئیں لیکن دونوں کا حلیہ انہیں بچاتا گیا۔ دادا ہر اسٹیشن پر آ کر دادی کی خیر خبر معلوم کر جاتے تھے۔ پاکستان کی حدود میں داخل ہو کر ایک سٹیشن پر اترے تو کچھ لوگوں کو کہتے سنا کہ فلاں ڈبے میں ایک ہندو عورت بھی ہے، تفصیل معلوم کی تو اپنی ہی بیگم نکلیں۔ پھر دادی نے غرارہ اور کرتا پہن لیا۔ بہرحال کھوکھرا پار سے ہوتے ہوئے دونوں ملتان پہنچ گئے۔ اس کے بعد دادی کبھی بھارت نہیں گئیں، بس ہمیں کہانیاں سناتی رہیں اور جب فوت ہوئیں تو کل تین غرارے اور دو چار ہی کرتے ان کی کپڑوں والی دراز میں تھے۔

وہ لوگ کیسے سادہ تھے، صرف حلیے پر بھروسہ کر کے ایک مسلمان مرد اور عورت کو بخش دیا۔ شاید کسی کو شک ہوا ہو اور پھر اس نے سوچا ہو کہ یار شکل سے تو یہ عورت ہماری بہن ہی لگتی ہے، حلیہ بھی ہمارے گھر کی عورتوں جیسا ہے، چلو جانے دیتے ہیں۔ دادا کو دیکھ کر بھی کسی ہندو نے سوچا ہو گا کہ یہ جو ہلکی ہلکی سی ڈاڑھی رکھے ہوئے ہے، منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتا بھی رہتا ہے، کیا پتہ یہ مسلمان ہو۔ لیکن پھر خیال آیا ہو گا کہ ہر اسٹیشن پر یہ آدمی جو اس ساڑھی والی عورت کے پاس جاتا ہے وہ اس کی گھر والی ہو گی، اور وہ تو ہماری عورتوں کے جیسی لگتی ہے، تو دادا بھی بخشے گئے ہوں گے۔ پاکستان پہنچ کر بھی اسی وجہ سے عافیت رہی، وہ دونوں بچ گئے تو نسل بڑھی اور ان کا پوتا آج ان کی کہانیاں سناتا ہے۔ یعنی ساڑھی، غرارے اور خاکی کپڑوں نے نسلیں بچا لیں۔ یا پھر مارنے والوں کی سادہ لوحی تھی، جو بھی تھا وقت بہرحال گذر گیا۔

اگر کوئی ایسی روایت ہوتی کہ ہجرت سے متعلق تحریریں سرخ روشنائی سے لکھی جائیں تو اردو ادب کے ستر فیصد افسانے اسی رنگ سے لکھے گئے ہوتے۔ اخباروں میں ہر روز لال چوکھٹے الگ سے ہوتے۔ وہ چوکھٹے ہمیں یاد دلاتے کہ بنا بنایا، سجا سجایا، بسا بسایا گھر لوگ آج بھی چھوڑتے ہیں۔ آج نہ ستاون ہے، نہ سینتالیس ہے نہ اکہتر ہے لیکن مائیں آج بھی اپنے بچوں سمیت اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ باپ آج بھی پگڑیاں سنبھالتے مایوس قدم اٹھاتے نئی منزلوں کی طرف جاتے ہیں۔ جنہیں کوئی اور ملک قبول کر لیتا ہے وہ باہر چلے جاتے ہیں، جو اس قابل نہیں ہوتے وہ یہیں کوئی پناہ ڈھونڈتے ہیں اور سب دروازے بند پاتے ہیں۔ ان کے تو حلیے بھی ہم جیسے ہی ہیں۔ ان کے بزرگ ویسی ہی ٹوپیاں اور پگڑیاں استعمال کرتے ہیں، وہی شلوار قمیصیں اور واسکٹیں پہنتے ہیں، وہی چپل جو ہم چٹخاتے ہیں، اسی پر چل کر وہ بھاگتے پھرتے ہیں، ان کی عورتیں وہی لان کے سوٹ پہنتی ہیں جو ہمارے گھروں کی عورتیں پہنتی ہیں، ایک ہی فصل میں پکی گندم کا آٹا ان کی روٹی بناتا ہے، ہم لوگ بھی دکان سے خرید کر ویسی ہی روٹی بناتے ہیں، کھاتے ہیں، ان میں بھی کلین شیوڈ ہوتے ہیں، ان میں بھی ڈاڑھیاں ہوتی ہیں، ان میں بھی عقیدوں سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں، انہیں میں عقیدوں سے بھاگنے والے بھی ہوتے ہیں، لیکن زمین ان سب پر تنگ ہوتی ہے! ان کے لیے رحم کا ایک بھی لفظ ہماری لغت میں نہیں ملتا۔

ابھی دو چار روز پہلے یہی کہانی چکوال میں دہرائی گئی۔ خبر پڑھی تو ایسا لگا جیسے تقسیم کا وقت ہے پھر جان لیا کہ وقت واقعی تقسیم کا ہے اور ہم ابن الوقت ہیں۔ خبر کا ایک ٹکڑا دیکھیے؛
”گاؤں کے رہائشی ایک شخص نے ڈان کو بتایا کہ ان کے گھر کے قریب ہی احمدیوں کے 3 خاندان رہائش پذیر تھے مگر عبادت گاہ پر حملے کے بعد تمام لوگ اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہوچکے ہیں، گھروں کو خالی کرکے جانے والے احمدیوں کے گھروں میں بندھے مویشیوں کی انہوں نے دیکھ بھال کی۔ “

ایسا ہی کچھ اس وقت ہوا ہو گا۔ لوگ اپنے پہنے ہوئے کپڑوں میں بھاگ نکلے تھے لیکن منزل کا انہیں علم تھا، انہیں اندازہ تھا کہ ایک مرتبہ اگر سرحد کے پار چلے گئے تو زندگیاں بچ جائیں گی۔ جو پار ہوئے زندگیاں بچا لیں مگر یادیں عمر بھر کے لیے دماغوں پر نقش ہو گئیں۔ ان یادوں میں نفرت، غصہ، افسوس سبھی کچھ شامل تھا۔ ان یادوں میں یہ قصے بھی ملتے ہیں کہ کس طرح ہندو کاروباری طبقہ اپنی سونے سے بھری ہوئی دیگیں تہہ خانوں میں دبا کر بھاگا، کون مسلمان اپنی آبائی زمین جائیداد چھوڑ کر جان بچانے کو دوڑا، جانور اس فساد میں بھی دونوں طرف کے رل گئے تھے، جس کے ہاتھ جو لگا وہ اسی کا ہوا، جسے کوئی مالک نہ ملا وہ بندھے بندھے بھوکا مر گیا۔ پھر وہ یادیں ہمارے دماغوں میں انڈیلی گئیں، نصاب کا حصہ بنیں اور آج تک ہمارے ڈراموں اور فلموں میں ہندو کوئی موٹا اور چھوٹے قد کا اداکار ہوتا ہے جسے باقاعدہ چالاک بنیا دکھایا جاتا ہے۔ یہ نفرتیں پروان چڑھنے میں چار پانچ نسلیں جوان ہو گئیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہندو گورا چٹا خوب صورت اور نیک سیرت انسان بھی ہو سکتا ہے۔

جو احمدی آج اپنے گھروں سے بیٹھے بٹھائے دوڑ جانے پر مجبور ہوئے ہیں اور جن کو منزل کا بھی کچھ علم نہیں، کیا ان کی نسلیں ہمارے بارے میں ایسا ہی نہیں سوچیں گی؟ کیا انہیں ہر پاکستانی مسلمان اپنی عبادت گاہوں پر حملہ کرنے والا نہیں دکھے گا؟ کیا انہیں ہر خاموش حامی دوغلا نہیں دکھے گا؟ بے شک انہیں یہ دنگے فساد اور قتل و غارت عین ویسے ہی یاد رہیں گے جیسے ہم سینتالیس کے بارے میں سٹیریو ٹائپ کا شکار ہیں۔

لفظوں کے طوطا مینا اڑ گئے۔ سیدھی اور سامنے کی بات کرتے ہیں۔ کوئی عقیدہ خواہ ہماری نظر میں کتنا ہی غلط ہی کیوں نہ ہو، وہ محترم ہے۔ ہر مذہب قابل احترام ہے۔ وہ اکثریتی مذہب پر نہیں ہیں، ٹھیک ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانوں کے بنیادی حقوق تک ان سے کیوں چھینے جا رہے ہیں۔ احمدی یہاں بہت ہی کم تعداد میں ہیں، تقریباً چھ لاکھ، کل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔ یہ چھ لاکھ جس تیزی سے بیرون ملک روانہ ہو رہے ہیں، یقین کیجیے اگلے پانچ برس میں ایک چوتھائی بھی نہیں رہیں گے۔ لیکن ایک ایک شخص جو یہاں سے جائے گا وہ تمام عمر اپنا گھر یاد کرے گا، پرکھوں کی زمین دیکھنے کو ترسے گا، اسے بھی یہی گلیاں یاد آئیں گی جس میں ہم اور آپ خوب چوڑے ہو کر گھوم رہے ہوں گے۔ کیا خبر اس کا گھر کون خریدے گا، شاید کوئی قبضہ ہی کر لے۔ پر جو بھی ان بستیوں میں آباد ہوں گے یہ قہر ان پر بھی ٹوٹے گا۔ یہ بلا ان کے گھر بھی نازل ہو گی۔

یہ پیش گوئی ہرگز نہیں ہے۔ یہ وہ ہے جسے دیوار پر لکھا کہتے ہیں۔ جو اسے پڑھ سکتے ہیں وہ بھی اقلیت میں ہیں، وہ ہمیشہ رہیں گے، دماغ کا فتور کہیے یا کوئی دوسرا نام دیجیے۔ آج مصلحت کے نام پر ہم سب خاموش ہیں لیکن جب یہ اقلیت نہیں رہے گی تو کسی اور کی باری آئے گی، پھر کسی اور کی باری آئے گی، باری باری ہم سب کی باری آئے گی لیکن اس وقت پانی سروں پر سے گذر چکا ہو گا۔ دنیا جانتی ہے ان کا یہی کام ہے۔ دوسرے ملکوں کی سرحدیں ہم پر اور زیادہ سختی سے بند ہوں گی، بھاگنا چاہیں گے تو پناہ نہیں ملے گی، اور ملک پر صرف ایک طبقے کی حکومت ہو گی، وہ طبقہ جو فنا کی اس جنگ میں محفوظ رہے گا یا شاید وہ کوئی ایک آدمی ہی ہو، واحد آخری آدمی! انتظار حسین کا آخری آدمی!

جزیرے میں سمندر کا پانی امنڈا چلا آ رہا تھا اور الیاسف نے درد سے صدا کی۔ کہ اے بنت الاخضر، اے وہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ تجھے میں اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر اور بڑے درختوں کی گھنی شاخوں میں اور بلند برجیوں میں ڈھونڈوں گا۔ تجھے سرپٹ دوڑتی دودھیا گھوڑیوں کی قسم ہے۔ قسم ہے کبوتروں کی جب وہ بلندیوں پر پرواز کرے۔ قسم ہے تجھے رات کی جب وہ بھیگ جائے۔ قسم ہے تجھے رات کے اندھیرے کی جب وہ بدن میں اترنے لگے۔ قسم ہے تجھے اندھیرے اور نیند کی۔ اور پلکوں کی، جب وہ نیند سے بوجھل ہو جائیں۔ تو مجھے آن مل کہ تیرے لئے میراجی چاہتا ہے اور جب اس نے یہ صدا کی تو بہت سے لفظ آپس میں گڈ مڈ ہو گئے جیسے زنجیر الجھ گئی ہو۔ جیسے لفظ مٹ رہے ہوں۔ جیسے اس کی آواز بدلتی جا رہی ہو اور الیاسف نے اپنی بدلتی ہوئی آواز پر غور کیا اور زبلون اور الیاب کو یاد کیا کہ کیوں کر ان کی آوازیں بگڑتی چلی گئی تھیں۔ الیاسف اپنی بدلتی ہوئی آواز کا تصور کر کے ڈرا اور سوچا کہ اے معبود کیا میں بدل گیا ہوں اور اس وقت اسے یہ نرالا خیال سوجھا کہ اے کاش کوئی ایسی چیز ہوتی کہ اس کے ذریعے وہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا۔ مگر یہ خیال اسے بہت انہونا نظر آیا۔ اور اس نے درد سے کہا کہ اے معبود میں کیسے جانوں کہ میں نہیں بدلا ہوں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments