سارے خواب کلیشے ہیں


پورچ کے چپسی فرش پر\"\"

ڈاکیا خط پھینک کر چلا جاتا ہے

آنکھوں کے شہر میں

کسی دور افتادہ گاؤں کا

پس ماندہ لینڈ اسکیپ ابھر آتا ہے

دیواریں بغیر پلستر کے

ننگی سچائیوں کے ساتھ

افسردہ بچپن کی یادیں لیے

دھوپ میں استادہ ہیں

سورج ایک گوشے سے اٹھ کر

دوسرے گوشے میں بیٹھ جاتا ہے

اور ہم روشنیاں تلاش کرتے ہوئے

سایوں میں ڈھل جاتے ہیں

شام کا جادو

خوابوں کی سمفنی میں تبدیل ہو جاتا ہے

آنکھیں ایک بار

وقت کے اندھے کنویں میں گر جائیں

تو انھیں نکالنے کے لیے

ڈول ڈول عمر کا سارا پانی باہر انڈیلنا پڑتا ہے\"\"

پاؤں کی مَیل دھوئی جا سکتی ہے

لیکن ٹَیٹو کی طرح

بدن کی جلد پر نقش ہوئے

آبائی مناظر

کھرچنے سے مٹائے نہیں جا سکتے

اپنے علاقے سے نکلے ہوئے ہم،

کوئی شہر فتح کر پائے نہ محبت جیت سکے

مفتوح انسان

پرچھائیوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں

اندھیرے میں دیکھنے کے لیے

کاکروچ بننا ضروری ہے

جس کی مرکب آنکھوں کی بینائی

انسان کی بصارت سے کئی گنا زیادہ تیز ہوتی ہے

رات کی جھاڑیوں میں

ستارے جگنوؤں کی طرح چمکتے ہیں

یہ ٹیکنالوجی بہت سے درختوں کو سکھائی جا رہی ہے

جلد ہی چھاؤں دھوپ میں بدل جائے گی

منہ سے روشنی نکالنے والی چڑیا

اب کہیں دکھائی نہیں دیتی

اگلی فصل کے لیے

پیڑوں پر کوئی پھل باقی نہیں

دن اور رات کے سنگم پر

اب کوئی شفق رنگ دریا نہیں بہتا

سارے خواب کلیشے ہیں

دھول اور دھوئیں کے کارنیوال میں

موت گیت کی طرح گونجتی ہے

اور محبت کی آواز

کہیں سنائی نہیں دیتی ۔۔۔۔!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments