جب مہاتما گاندھی نے مولانا آزاد کی مخالفت کی


نامور ہندوستانی صحافی سعید نقوی کی کتابBeing the Other: The Muslim in India میں بہت سی چشم کشا باتیں ہیں۔ سر دست ہم صرف گاندھی جی کے جواہر لعل نہروکے نام ایک خط کا ذکر کریں گے۔ یہ خط مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں ہے، اوراس میں وہ بات ہے جو ہم نے کبھی سنی نہ پڑھی۔ 24 جولائی 1947 کو تحریر کردہ خط میں گاندھی جی، نہرو سے کہہ رہے ہیں کہ ابوالکلام آزاد کو آزاد ہندوستان کی پہلی کابینہ میں شامل نہ کیا جائے اور ساتھ میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس سے ہمارے اور مولانا کے تعلقات نہیں بگڑیں گے۔ یہ بھی لکھا کہ سردار پٹیل اور راج کماری امرت کور بھی مولانا کو وزیر بنانے کے حق میں نہیں۔ گاندھی جی کے بقول ”موجودہ موقع پر آپ کی کابینہ کو مضبوط اور موثرہونا چاہیے اور کابینہ کے لیے کسی اور مسلمان کو نامزد کرنے کے لیے کوئی دشواری پیش نہیں آنی چاہیے۔ “

سوال یہ ہے کہ کیا مولانا کی شمولیت سے کابینہ مضبوط اور موثر نہ ہوتی؟ دوسرے گاندھی جی نے کتنے آرام سے کسی اور مسلمان کو آزاد کی جگہ نامزد کرنے کی بات کر دی۔ کیا مولانا کے قد کاٹھ کا یا کانگریس کے واسطے، ان کے جتنی خدمات انجام دینے والا کوئی اور مسلمان موجود تھا؟ اگر تھا تو گاندھی جی اس کا نام پیش کردیتے۔ سعید نقوی نے اس خط کو حیران کن قرار دیا ہے۔ وہ خاص طور سے اس لہجے کو نوٹ کرنے کو کہتے ہیں جس میں گاندھی جی نے لکھا کہ ’انڈیا کی پہلی کابینہ کے لیے کسی اور مسلمان کا انتخاب مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ ‘

سعید نقوی نے یہ خط گاندھی جی کے سوانح نگار پیارے لال کی کتاب سے نقل کیا ہے۔ سعید کے خیال میں گاندھی جی کا موقف دوٹوک تھا۔ وہ نہرو کو سیکولر ہونے کا دکھاوا کرنے کے لیے علامتی طور پر مولانا کے سوا کسی بھی دوسرے مسلمان کو کابینہ میں شامل کرنے پر زور دے رہے تھے۔ سعید کی دانست میں، تقسیم کے منصوبے کو کانگریس کے منظور کر لینے کے بعد قومی معاملات میں مولانا کی منزلت میں تیزی سے کمی آئی وگرنہ اس سے پہلے گاندھی جی، مولانا کو بہت آدر دیتے تھے۔

سعید نقوی نے نہروکے بدلتے تیوروں کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے برصغیرکی تقسیم کے منصوبے کو مان کرجس طرح پٹیل اینڈ کمپنی کے پلڑے میں وزن ڈالا، اس سے مولانا کو لگا کہ ان سے دھوکا ہوا ہے۔ سعید نقوی کی کتاب سے فی الحال اتنا ہی۔ اب رجوع کرتے ہیں مولانا ابوالکلام آزاد کی تصنیفIndia Wins Freedom سے جس کا معروف نقاد شمیم حنفی کے قلم سے ہونے والا ترجمہ ہمارے سامنے ہے۔ مولانا کے نزدیک تقسیم تباہی کا رستہ تھا، اس لیے کابینہ مشن پلان کی کانگریس اور مسلم لیگ سے منظوری نے انھیں نہال کر دیا لیکن پھر صدرکانگریس نہرو نے پریس کانفرنس کرکے رنگ میں بھنگ ڈال دی اور بقول آزاد، تاریخ کا رخ بدل دیا۔

نہرو سے صحافی نے جاننا چاہا کہ کیا کانگریس نے کابینہ مشن پلان کو من وعن منظور کرلیا ہے تو اس پر انھوں نے ارشاد کیا کہ دستور ساز اسمبلی میں کانگریس کابینہ مشن پلان میں تبدیلی یا ترمیم کرسکتی ہے۔ بس اس بات نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیردیا اورمولانا کی وہ خوشی کافور ہوگئی جس کا اظہار ان نے ہندوستان کی دو بڑی جماعتوں کی طرف سے پلان کی منظوری کے بعد کیا تھا۔ کابینہ مشن پلان کی ناکامی سے آزاد کو لگا کہ 1946 ء میں انھوں نے کانگریس کی صدارت چھوڑ کرہمالیائی غلطی کی کیونکہ وہ اگر اس منصب پر ہوتے تو نہرو والی غلطی نہ کرتے جس سے ان کے بقول، قائد اعظم کو تقسیم کے بارے میں اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنچانے کا موقع مل گیا۔

کانگریس کی صدارت چھوڑکر آزاد کے کف افسوس ملنے پر ممتاز ادیب انتظار حسین نے اپنے مخصوص اسلوب میں ”جستجو کیا ہے؟ “ میں یوں تبصرہ کیا :۔ ویاس رشی نے کہا کہ ہونی ہو کر رہتی ہے۔ ہمارے زمانے کی بصیرت اسے تاریخی عمل بتاتی ہے۔ سمے کا چکر کہو یا تاریخی عمل۔ ہونی ہوکر رہی۔ اب بیٹھے پچھتاتے رہو۔ سب سے زیادہ مولانا ابوالکلام آزاد پچھتائے۔ اپنی کتاب India Wins Freedomمیں لکھا کہ مجھ سے چوک ہوگئی۔ اس تاریخی برس میں کانگریس کی صدارت سے خود دستبردار ہوگیا اور نہرو کا نام صدارت کے لیے تجویز کر دیا۔

ویسے یہ چوک نہ بھی ہوتی تو کیا فرق پڑتا۔ شاید پھر اس پر پچھتاتے کہ کانگریس کے صدر کی حیثیت سے فیصلہ کا اختیارمجھے تھا مگر فیصلہ کیا نہرو نے۔ ”مولانا آزاد تقسیم کے تہہ دل سے مخالف تھے، انھوں نے جب دیکھا کہ گاندھی، نہرواور پٹیل تقسیم کو مان چکے ہیں تو وہ بکھرکر رہ گئے، اس موقع پر وہ اگر تلملانے کے بجائے کانگریس چھوڑ دیتے تو تاریخ میں ان کے مقام کا تعین اور طرح سے ہوتا، یہ مشکل فیصلہ ضرور تھا لیکن تقسیم کے عمل سے ان کی برات کا اظہاراسی طریقہ سے ہوسکتا تھا۔

تقسیم سے متعلق ان کی سوچ سے مسلمانوں کی اکثریت نے اتفاق نہ کیا اور ادھر کانگریس میں جن رہنماؤں سے وہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ وہ کسی صورت تقسیم برصغیر کو قبول نہ کریں گے، وہ بھی ڈھے گئے تو مولانا کے لیے نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والی صورت حال ہو گئی۔ نہروسے مایوس ہونے کے بعد گاندھی جی ہی آزاد کا سہارا رہ گئے تھے، وہ ان سے ملنے گئے توانھوں نے چھوٹتے ہی کہا: تقسیم اب ایک خطرہ بن چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ولبھ بھائی اور یہاں تک کہ جواہر لعل نہرو نے بھی ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

Mahatma Gandhi leading the volunteers of the Indian National Congress during the historic march to Dandi in March, 1930. Dr. Abul Kalm Azad, frontier Gandhi Khan Abdul Gaffar Khan, Sardar Vallabhbhai Patel, Jawaharlal Nehru, Dr. Rajendra Prasad is also seen in the picture.
Express archive photo

اب آپ کیا کریں گے؟ آپ میرا ساتھ دیں گے یا آپ بھی بدل چکے ہیں؟ “ اس پر آزاد نے گاندھی جی کو یقین دلایا کہ وہ تقسیم کے پہلے کی طرح خلاف ہیں اور ان کے یہاں مخالفت کی شدت پہلے سے بڑھ کر ہے۔ انھوں نے گاندھی پر زور دیا کہ وہ اگر تقسیم کے خلاف کھڑے ہو جائیں تو اب بھی بگڑی بات بن سکتی ہے بصورت دیگر ہندوستان برباد ہوجائے گا۔ اس پرگاندھی جی بولے : یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے! اگر کانگریس تقسیم کو منظور کرنا چاہتی ہے تو ایسا میری لاش پر ہی ہوسکے گا۔ جب تک میں زندہ ہوں، میں ہندوستان کی تقسیم کبھی بھی تسلیم نہیں کروں گا۔ نہ ہی میں، اگر مجھ سے ہوسکا، کانگریس کو رضا مندی کی اجازت دوں گا۔ ”

اس بیان کے بعد آزاد کی جب گاندھی سے اگلی ملاقات ہوئی اور وہ بدلے بدلے نظر آئے تو آزاد کو بہت مایوسی ہوئی اورانھیں اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا لگا۔ ان کے بقول: وہ (گاندھی) ابھی تک کھل کر تقسیم کے حق میں نہیں تھے مگر اب وہ پہلی سی شدومد کے ساتھ اس کے خلاف نہیں بول رہے تھے۔ اس سے بھی حیران اور افسردہ مجھے جس بات نے کیا یہ تھی کہ وہ انہی دلیلوں کو دہرا رہے تھے جن کا استعمال سردار پٹیل پہلے کرچکے تھے۔ دو گھنٹے سے زیادہ میں نے ان سے بحث کی، لیکن میں ان پر کوئی اثرنہ ڈال سکا۔ مایوس ہوکر میں نے کہا، اگر اب آپ بھی ان خیالات کو اختیار کرچکے ہیں تو مجھے ہندوستان کو تباہی سے بچانے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments