تھر میں ایک مسیحی عورت، مسیحا کے روپ میں


\"\"مجھہ سے اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ میرے بلاگس میں مرکزی کردار عورت ہی کیوں ہوتی ہے۔ میرا جواب ہوتا ہے، ہمارے معاشرے میں جو جبر اور ناانصافی ہے، عورت برسہا برس سے اس کا شکار ہوتی آ رہی ہے۔ اور عورتوں کے ساتھ بچے اور اقلیتیں بھی اس بربریت کا شکار ہیں۔ اس لیے میں بچوں، اقلیتوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف لکھتا رہا ہوں۔ یوں سمجھیں کہ میں ان سارے مظالم اور زیادتیوں کا شکار ہونے والوں کا وکیل ہوں۔ لیکن میں ان خواتین کے بارے میں بھی لکھتا رہتا ہوں جو اس ناانصافی پر مبنی معاشرے میں دور دراز اور پسماندہ علائقوں میں اپنی سماجی خدمات دے رہی ہیں ۔

لیکن آج میں ایک ایسی خاتون کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو مسیحائی کے پیشے سے وابستہ ہے۔ محترمہ ڈاکٹر فلیمینو ڈاروگو جانسن صحرائے تھر کی تحصیل چھاچھرو ضلع تھرپارکر کی ایک ہسپتال میں حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں، غریب اور ضرورتمند مریضوں کا مفت طبی علاج کر کے ان کی خدمت کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر فلیمینو جانسن نے بتايا که ان کے والد ڈاکٹر ھرمین گڈومارکس اینٹونو ڈریگو 1938 میں میرپورخاص سندھ آئے تھے اور پاکستان بننے کے بعد ہمیشہ کے لیے سندھ کے ہو کر رہ گئے۔

ان کی پیدائش 1907 میں ہندستان کے شہر گووا میں ہوئی۔ انہوں نے 1933 میں سینٹ زیویئر کالج ممبئی سے ایم بی بی ایس کیا، میرپورخاص سندھ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا جب میرے والد یہاں آئے تھے تو ان کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا۔ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کی کمی تھی، بیمار اور غریب لوگوں کے لیے علاج کرانا بہت مشکل تھا۔ ان کے والد نے یہاں آنے کے بعد طب کے شعبے میں اپنی خدمات سرانجام دینا شروع کیں۔ والد صاحب کا پختہ یقین تھا اور کہتے تھے کہ ڈاکٹر ایک پیغمبری پیشہ ہے اور ڈاکٹر کا مطلب مسیحا ہے جو انسان ذات کی خدمت کے لیے اس دنیا میں آیا ہے اور وہ پوری زندگی اپنے اس پیشے سے انصاف کرتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد جب ہندستان سے ریل گاڑیاں بیمار اور زخمیوں سے بھر بھر کے اسٹیشن پر پہنچنے لگیں تو ڈاکٹر صاحب نے اپنا میڈیکل کیمپ میرپورخاص اسٹیشن پر ہی قائم کر لیا اور ان بیمار اور زخمیون کے علاج کے لیے دن رات ایک کر دیئے۔

آگے چل کر انہوں نے ضلع سطح پر روٹری کلب بھی قائم کیا جہاں وہ صاحب حیثیت لوگوں سے مالی معاونت کر کے ان پیسوں سے علاقے \"\"کے دور دراز سے آنے والے غریب مریضوں کی دوا اور علاج پر خرچ کرتے تھے۔ انہوں نے نوجوانوں کے لیے ینگ روٹری کالیج بھی قائم کیا جس کے ذریعے وہ نوجوانوں کو سماجی ترغیب بھی دیتے تھے تاکہ وہ سماجی خدمات کے ذریعے سوسائٹی کے ضرورتمند لوگوں کی خدمت کر سکیں اور معاشرے کے اچھے انسان ثابت ہوں۔ اس وقت جب ٹیوبر کلوسس(تپ دق) ایک بہت مشکل علاج سمجھا جاتا تھا، اس وقت والد صاحب نے ٹی بی ایسوسی ایشن بنائی اور پورے سندھ سے آنے والے مریضون کو اپنی خدمات سے مستفید کرتے رہے۔ اس وقت پورے سندھ میں سوائے کراچی کے فزیو تھراپی کا کوئی ادارہ نہیں تھا۔ ان کے والد صاحب نے میرپورخاص میں فزیوتھراپی کا ادارہ قائم کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی ان خدمات کے عوض میرپور خاص شہر کی ایک شاہراہ بھی ان کے نام سے منسوب ہے۔ کراچی ڈاوس کے آرچ بشپ نے ڈاکٹر ڈاروگو کے لیے کہا تھا کہ وہ ایک سچے پاکستانی تھے اور کیتھولکس میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

ڈاکٹر فلیمینو جانسن سے جب پوچھا گیا کہ وہ کن شخصیات سے متاثر ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ان کے والد ڈاکٹر ھرمین گڈومارکس اینٹونو ڈریگو اور عاصمہ جہانگیر ان کی پسندیدہ شخصیات ہیں۔

ڈاکٹر فلیمنو جانسن نے اپنے بارے میں بتایا کہ انہوں نے کراچی کے سینٹ لارنس کالج سے اسکولنگ اور کالجنگ کرنے کے بعد 1981 میں سندھ میڈیکل کالیج کراچی سے ایم بی بی ایس ایف آر سی پی کی۔ انہوں نے جنرل سرجری میں اپنی فیلوشپ ایڈنبرگ گلاسکو سے کی۔ آغا خان ہسپتال کراچی میں اپنی خدمات سرانجام دینے کے بعد 1995 سے وہ عمرکوٹ ضلع کے شہر کنری میں کرسچن ہاسپیٹل میں اپنی خدمات دیتی رہیں۔ اور اس کے بعد 2003 میں وہ سینٹ ٹریزا ہاسپیٹل میرپورخاص میں آ گئیں۔ جہاں وہ گزشتہ چودہ سال سے مامور ہیں۔

انہوں نے تھر کے دور دراز علائقے چھاچھرو میں اپنے خدمات کے حوالے سے بتایا کہ وہاں کے لوگ بہت غریب ہیں، ان کے بہت سے \"\"مسائل ہیں ان کو پینے کا صاف پانی تک نہین ملتا، عورتیں اور بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور طبی حوالے سے ان کے بہت سے مسائل ہیں، جب میں نے محسوس کیا یہاں مجھے ان لوگوں کی خدمت کرنے کی ضرورت ہے، تو میں نے کورین ڈاکٹر مسٹر لورین سے رابطہ کیا جو چھاچھرو میں لو اینڈ ٹرسٹ کے نام سے ہسپتال چلا رہے ہیں اور انہوں نے مجھے یہ موقع فراہم کیا کہ میں اسی ہسپتال میں ہفتہ کے دو دن جمعہ اور ہفتہ غریب مریضوں کو مفت طبی خدمات دے سکوں۔ انہوں نے بڑی مایوس کن انداز میں بتایا کہ اگر حکومت چاہے تو پورے تھر کے دور دراز علائقوں میں لوگوں کے لیے جدید ہسپتالیں تعمیر کراسکتی ہے، جن میں طب کے حوالے سے جدید علاج کی ساری سہولیات موجود ہوں۔ جس سے تھر کے لوگوں کی خدمت کی جا سکتی ہے مگر وہاں کہ لوگ آج بھی جدید طبی سہولیات سے محروم ہیں۔

تعلیم، صحت، روزگار، رہائش اور پینے کا صاف پانی انسان کے بنیادی ضروریات میں سے ہیں، جس کی ذمہ دار ریاست ہوتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں سرکاری سطح پر تھر کے لوگ ان بنیادی ضروریات سے آج بھی محروم ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ طب کے شعبے کے علاوہ بھی بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے ذریعے وہاں کے لوگوں کی بہتر خدمت کی جا سکتی ہے۔

مختلف این جی اوز اس سلسلے میں بہت عرصے سے تھر میں مختلف پراجیکٹس پر کام تو کر رہی ہیں مگر بہت برسوں سے کام کرنے کے باوجود تھر کے عوام کو کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں ملا ہے جو ان کی زندگی کو یکسر بدل سکے۔ تھر میں چھوٹی چھوٹی گھریلو صنعتیں لگانے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں۔ پینے کے صاف پانی کا پورے تھر میں معقول انتظام کیا جائے، یونین کاؤنسل سطح پر ڈسپینسریاں اور تعلقہ سطح پر جدید ہسپتالیں کھولی جائیں۔ تھر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر مٹھی میں ایک جدید ہسپتال کا قیام ہونی چاہیے۔ ایک عورت ایک فرد کی حیثیت سے اتنا کچھ کر سکتی ہے تو کیا ہمارے حکمران بے تحاشا وسائل کے ہوئے تھر کے عوام کے لیے کچھ ایسا نہیں کر سکتے جو ان کا طرز زندگی بہتر کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments