واجدہ تبسم کا متنازع افسانہ ۔۔۔ اُترن


واجدہ تبسم 16 مارچ 1935ء کو مہاراشٹر کے قصبے امراوتی میں پیدا ہوئیں۔ 1975ء میں لکھی اُن کی متنازع کہانی \”اُترن\” کو اُن کے شاہ کار کا درجہ دیا جاتا ہے۔ یہ کہانی انگریزی سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئی۔ 1996ء میں میرا نائر نے کاما سوترا کے عنوان سے اِس کہانی کو فلم کے رُوپ میں ڈھالا۔ واجدہ نے 7 دسمبر 2011ء کو وفات پائی۔

\"\"’’نکو اللہ، میرے کو بہوت شرم لگتی۔‘‘

’’ایو اِس میں شرم کی کیا بات ہے؟ میں نئیں اُتاری کیا اپنے کپڑے؟‘‘

’’اوں …. چمکی شرمائی۔‘‘

اب اُتارتی کی بولوں انا بی کو؟‘‘ شہزادی پاشا جن کی رگ رگ میں حکم چلانے کی عادت رچی ہوئی تھی، چلا کر بولیں۔

چمکی نے کچھ ڈرتے ڈرتے، کچھ شرماتے شرماتے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے پہلے تو اپنا کرتا اُتارا، پھر پاجامہ…. پھر شہزادی پاشا کے حکم پر جھاگوں بھرے ٹب میں اُن کے ساتھ کود پڑی۔

دونوں نہا چکیں تو شہزادی پاشا ایسی محبت سے جس میں غرور اور مالکن پن کی گہری چھاپ تھی، مسکرا کر بولیں، ’’ہور یہ تو بتا کہ اب تو کپڑے کون سے پین رئی؟

’’کپڑے….‘‘ چمکی بے حد متانت سے بولی، ’’یہی اچ میرا نیلا کرتا پاجامہ۔‘‘

’’یہی اچ؟‘‘ شہزادی پاشا حیرت سے ناک سکوڑتے ہوئے بولیں۔

’’اِتے گندے، بدبو والے کپڑے؟ پھر پانی سے نہانے کا فائدہ؟‘‘\"\"

چمکی نے جواب دینے کی بجائے اُلٹا ایک سوال جڑ دیا۔

’’ہور آپ کیا پین رئے پاشا؟‘‘

’’میں؟‘‘ شہزادی پاشا بڑے اطمینان اور فخر سے بولیں۔

’’وہ میری بسم اللہ کے دخت چمک چمک کا جوڑا دادی ماں نے بنائے تھے، ونیا…. مگر تو نے کائے کو پوچھی؟‘‘

چمکی ایک لمحے کو تو سوچ میں پڑ گئی، پھر ہنس کر بولی، ’’میں سوچ رئی تھی۔‘‘ وہ کہتے کہتے رُک گئی۔

ہو پاشا…. یہ میرے کو حمام میں بھگا لے تو اس کو اجاڑ مار چوٹی کے ساتھ کیا مٹاخے مار لیتے بیٹھیں؟…. جلدی نکلو…. نئیں تو بی پاشا کو جاکو بولتیوں ….

اپنی سوچی ہوئی بات چمکی نے جلدی سے کہہ سنائی۔

پاشا میں سوچ رئی تھی کہ کبھی آپ ہور میں ’’اوڑھنی بدل‘‘ بہناں بن گئے تو آپ کے کپڑے میں بھی پہن لے سکتی نا؟

’’میرے کپڑے؟…. تیرا مطلب ہے کہ وہ سارے کپڑے جو میرے صندوخاں بھر بھر کو رکھے پڑے ہیں؟‘‘\"\"

جواب میں چمکی نے زرا ڈر کر سر ہلایا۔

شہزادی پاشا ہنستے ہنستے دُہری ہو گئی…. ’’ایو کتی بے خوف چھوکری ہے…. اگے تو تو نوکرانی ہے…. تو تو میری اُترن پہنتی ہے…. ہور عمر بھر اُترن ہی پہنیں گی….‘‘ پھر شہزادی نے بے حد محبت سے جس میں غرور اور فخر زیادہ اور خلوص کم تھا…. اپنا ابھی ابھی کا، نہانے کے لیے اُتارا ہوا جوڑا اُٹھا کر چمکی کی طرف اچھال دیا۔

’’یہ لے اُترن پہن لے۔ میرے پاس تو بہوت سے کپڑے ہئیں۔‘‘

چمکی کو غصہ آ گیا…. ’’میں کائے پہنوں، آپ پہنو نا میرا جوڑا یہ جوڑا….‘‘ اُس نے اپنے میلے جوڑے کی طرف اشارہ کیا۔

شہزادی پاشا غصے سے ہنکاری۔ ’’انا بی…. انابی۔‘‘

انا بی نے زور سے دروازے کو بھڑ بھڑایا اور دروازہ جو صرف ہلکا سا بھڑا ہوا تھا، پاٹوں پاٹ کھل گیا۔

’’اچھا تو آپ صاحبان ابھی تک ننگے اچ کھڑے دے ہیں ….‘‘ انا بی ناک پر انگلی رکھ کر بناوٹی غصے سے بولیں۔

شہزادی پاشا نے جھٹ اسٹینڈ پر ٹنگا ہوا نرم نرم گلابی تولیہ اٹھا کر اپنے جسم کے گرد لپیٹ لیا، چمکی یوں ہی کھڑی رہی۔

انا بی نے اپنی بیٹی کی طرف زرا غور سے دیکھا، ’’ہور تو پاشا لوگاں کے حمام میں کائے کو پانی نہانے کو آن مری؟‘‘\"\"

’’یہ انوں شہزادی پاشا نے بولے کی تو بھی میرے ساتھ پانی نہا۔‘‘

انا بی ڈرتے ڈرتے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی دیکھ نہ رہا ہو۔ پھر جلدی سے اُسے حمام سے باہر کھینچ کر بولیں۔ ’’چل، جلدی سے جاکر نوکر خانے میں کپڑے پین۔ نئیں تو سردی وردی لگ گئی تو مرے گی۔‘‘

اب یہ چکٹ گوند کپڑے نکوپین، وہ لال پیٹی میں شہزادی پاشی پرسوں اپنا کرتا پاجامہ دیئے تھے، وہ جاکو پین لے۔

وہیں ننگی کھڑی کھڑی وہ سات برس کی ننھی سی جان بڑی گہری سوچ کے ساتھ رک رک کر بولی” امنی جب میں ہور شہزادی پاشی ایک برابر کے ہیں تو انوں میری اُترن کیوں نئیں پہنتے؟

’’ٹھہر زرا، میں مما کو جا کے بولتیوں کی چمکی میرے کو ایسا بولی۔‘‘

لیکن انا بی نے ڈر کر اسے گود میں اٹھا لیا….”آگے پاشا انے تو چھنال پاگل ہولی ہو گئی ہے ایسے دیوانی کے باتاں کائے کو اپنے مما سے بولتے آپ؟ اس کے سنگات کھیلنا، نہ بات کرنا، چپ اس کے نام پوجو تو مار دیو آپ۔

شہزادی پاشا کو کپڑے پہنا کر، کنگھی چوٹی کر کے، کھانا وانا کھلا کر جب سارے کاموں سے نچنت ہو کر انا بی اپنے کمرے میں پہنچیں تو

دیکھا کہ چمکی ابھی تک ننگا جھاڑ بنی کھڑی ہے۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ دیکھا آتے ہی انھوں نے اپنی بیٹی کو دھنکنا شروع کر دیا۔

جس کا کھاتی اسی سے لڑائیاں مول لیتی…. چھنال گھوڑی۔ ابھی کبھی بڑے سرکار نکال باہر کر دیئے تو کدھر جائیں گے اتے نخرے؟

انا بی کے حسابوں تو یہ بڑی خوش نصیبی تھی کہ وہ شہزادی پاشا کو دودھ پلانے کے واسطے رکھی گئی تھیں۔ ان کے کھانے پینے کا معیار\"\" تو لازماً وہی تھا، جو بیگمات کا تھا کہ بھئی آخر وہ نواب صاحب کی اکلوتی بچی کو اپنا دودھ پلاتی تھیں۔ کپڑا لتا بھی بے حساب تھا کہ دودھ پلانے والی کے لئے صاف ستھرا رہنا لازمی تھی اور سب سے زیادہ مزے تو یہ تھے کہ ان کی اپنی بچی کو شہزادی پاشا کی بے حساب اُترن ملتی تھی…. کپڑے لتے ملنا تو ایک طے شدہ بات تھی، حد یہ کہ اکثر چاندی کے زیور اور کھلونے تک بھی اُترن میں دے دیئے جاتے تھے۔

اِدھر وہ حرافہ تھی کہ جب سے زرا ہوش سنبھال رہی تھی، یہی ضد کیے جاتی تھی کہ میں بی پاشا کے اُترن کیوں پہنوں ؟ کبھی کبھار تو آئنہ دیکھ کر بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ کہتی…. ’’امنی میں تو بی پاشا سے بھی زیادہ خوب صورت ہوں نا؟ پھر تو انوں میری اُترن پہنا نا؟

انا بی ہر گھڑی ہولتی تھیں۔ ’’بڑے لوگ تو بڑے لوگ ہی ٹھہرے۔ اگر کسی نے سن گن پالی کہ موئی انا نا اصل کی بیٹی ایسے ایسے بول بولتی ہے تو ناک چوٹی کاٹ کر نکال باہر کر دیں گے…. ویسے بھی دودھ پلانے کا زمانہ تو مدت ہوئی بیت گیا تھا۔ وہ تو ڈیوڑھی کی روایت کہیے کہ انا لوگوں کو مرے بعد ہی چھٹی کی جاتی تھی۔ لیکن قصور بھی معاف کیے جانے کے قابل ہو تو ہی معافی ملتی ہے، ایسا بھی کیا!‘‘ انا بی نے چمکی کے کان مروڑ کر اسے سمجھایا۔

’’آگے سے کچھ بولی تو یاد رکھ…تیرے کو عمر بھر بی پاشا کی اُترن پہننا ہے سمجھی کی نئیں، گدھے کی اولیاد۔‘‘

گدھے کی اولیاد نے اس وقت زبان سی لی…. لیکن ذہن میں لاوا پکتا ہی رہا۔

تیرہ برس کی ہوئیں تو شہزادی کی پہلی بار نماز قضا ہوئی۔ آٹھویں دن گل پوشی ہوئی تو ایسا زرتار، جھم جھماتا جوڑا مما نے سلوایا کہ آنکھ ٹھہرتی نہ تھی…. جگہ جگہ سونے کے گھنگھروؤں کی جوڑیاں ٹنکوائیں کہ جب بی پاشا چلتیں تو چھن چھن پازیبیں سی بجتیں۔ ڈیوڑھی کے دستور کے مطابق وہ حد سے سوا قیمتی جوڑا بھی اُترن میں صدقہ دے دیا گیا۔ انا بی خوشی خوشی وہ سوغات لے کر پہنچیں تو چمکی جو اپنی عمر سے کہیں زیادہ سمجھ دار اور حساس ہو چکی تھی، دُکھ سے بولی، ’’امنی مجبوری ناتے لینا ہور بات ہے مگر آپ ایسے چیزاں کو لے کو خوش مت ہوا کرو۔‘‘

’’اگے بیٹا….‘‘ وہ راز داری سے بولیں …. ’’یہ جوڑا اگر بکانے کو بھی بیٹھے تو دو سو کل دار روپے تو کہیں نئیں گئے۔ اپن لوگاں نصیبے والے ہیں کہ ایسی ڈیوڑھی میں پڑے۔‘‘

’’امنی….‘‘ چمکی نے بڑی حسرت سے کہا…. ’’میرا کیا جی بولتا کی میں بھی کبھی بی پاشا کو اپنی اُترن دیوں؟“\"\"

انا بی نے سر پیٹ لیا…. ”آگے تو بھی اب جوان ہو گئی گے زرا عمل پکڑ…. ایسی ویسی باتاں کوئی سن لیا تو میں کیا کروں گی ماں …. زرا میرے بڈھے چونڈے پر رحم کر….“

چمکی ماں کو روتا دیکھ کر خاموش ہو گئی۔

مولوی صاحب نے دونوں کو ساتھ ساتھ ہی قرآن شریف اور اُردو قاعدہ شروع کرایا تھا…. بی پاشا نے کم اور چمکی نے زیادہ تیزی دکھائی…. دونوں نے جب پہلی بار قرآن شریف کا دور ختم کیا تو بڑی پاشا نے از راہ عنایت چمکی کو بھی ایک ہلکے کپڑے کا نیا جوڑا سلوا دیا تھا۔ ہر چند کہ بعد میں اسے بی پاشا کا بھاری جوڑا بھی اُترن میں مل گیا تھا لیکن اسے اپنا وہ جوڑا جان سے زیادہ عزیز تھا…. اس جوڑے سے اسے کسی قسم کی ذلت محسوس نہ ہوتی تھی۔ ہلکے زعفرانی رنگ کا سوتی جوڑا…. جو کتنے ہی سارے جگمگاتے، لس لس کرتے جوڑوں سے سوا تھا۔

اب جب کہ خیر سے شہزادی پاشا بھر پڑھ لکھ بھی چکی تھیں، جوان بھی ہو چکی تھیں …. ان کا گھر بسانے کی فکریں کی جا رہی تھیں۔ ڈیوڑھی، سناروں …. درزیوں ، بیوپاریوں کا مسکن بن چکی تھی۔ چمکی یہی سوچے جاتی کہ وہ تو شادی کے اتنے بڑے ہنگامے کے دن بھی اپنا وہی جوڑا پہنے گی جو کسی کی اُترن نہیں تھا۔

بڑی پاشا، جو واقعی بڑی مہربان خاتون تھیں، ہمیشہ اپنے نوکروں کا اپنی اولاد کی طرح خیال رکھتی تھیں۔ اس لیے شہزادی کے ساتھ وہ چمکی کی شادی کے لیے بھی اتنی ہی فکرمند تھیں …. آخر نواب صاحب سے کہہ کر انھوں نے ایک مناسب لڑکا چمکی کے لیے تلاش کر ہی لیا۔ سوچا کہ شہزادی پاشا کی شادی کے بعد اسی جھوڑ جھمکے میں چمکی کا بھی عقد پڑھا دیا جائے۔\"\"

اس دن جب شہزادی پاشا کے عقد کو صرف ایک دن رہ گیا تھا…. اور ڈیوڑھی مہمانوں سے ٹھسا ٹھس بھری پڑی تھی اور لڑکیوں کا ٹڈی دل ڈیوڑھی کو سر پر اٹھائے ہوئے تھا، اپنی سہیلیوں کے جھرمٹ میں بیٹھی ہوئی شہزادی پاشا پیروں میں منہدی لگواتے ہوئے چمکی سے کہنے لگی، ’’تو سسرال جائے گی تو تیرے پیروں کو میں منہدی لگاؤں گی۔“

ایو خدا نہ کرے….‘‘ انابی نے پیار سے کہا…. ’’اس کے پانواں آپ کے دشمناں چھوئیں …. آپ ایسا بولے سو بس ہے۔ بس اِتی دعا کرنا پاشا کہ آپ کے دولہے میاں ویسا شریف دولہا اس کا نکل جائے۔“

”مگر اس کی شادی کب ہو رئی جی؟‘‘ کوئی چلبلی لڑکی پوچھ بیٹھی۔

شہزادی پاشی وہی بچپن والی غرور بھری ہنسی ہنس کر بولیں، ’’میری اِتی ساری اُترن نکلے گی تو اس کا جہیز تیار سمجھو۔“

اُترن …. اُترن …. اُترن …. کئی ہزار سوئیوں کی باریک باریک نوکیں جیسے اس کے دِل کو چھید گئیں …. وہ آنسو پیتے ہوئے اپنے کمرے میں آ کر چپ چاپ پڑ گئی۔

سر شام ہی لڑکیوں نے پھر ڈھولک سنبھال لی۔ ایک سے ایک واہیات گانا گایا جا رہا تھا۔ پچھلی رات رات جگا ہوا تھا۔ آج پھر ہونے والا تھا۔ پرلی طرف صحن میں ڈھیروں چولھے جلائے، باورچی لوگ انواع و اقسام کے کھانے تیار کرنے میں مشغول تھے۔ ڈیوڑھی پر رات ہی سے دن کا گمان ہو رہا تھا۔

چمکی کا روتا ہوا حسن نارنجی جوڑے میں اور کھل اٹھا۔ یہ جوڑا وہ جوڑا تھا، جو اسے احساس کم تری کے پاتال سے اٹھا کر عرش کی \"\"بلندیوں پر بٹھا دیتا تھا۔ یہ جوڑا کسی کی اُترن نہیں تھا۔ نئے کپڑوں سے سلا ہوا جوڑا، جو اسے زندگی بھر ایک ہی بار نصیب ہوا تھا، ورنہ ساری عمر تو شہزادی پاشا کی اُترن پہنتے ہی گزری تھی اور اب چوں کہ جہیز بھی تمام تر اُن کی اُترن ہی پر مشتمل تھا اس لیے باقی کی ساری عمر بھی اسے اُترن ہی استعمال کرنی ہوگی۔

لیکن بی پاشا…. ایک سید زادی کہاں تک پہنچ سکتی ہے۔ وہ تم بھی دیکھ لینا۔ تمے ایک سے ایک پرانی چیز مجھے استعمال کرنے کو دیئے نا؟ اب تم دیکھنا۔

ملیدے کا تھال اٹھائے وہ دولہا والوں کی کوٹھی میں داخل ہوئی…. ہر طرف چراغاں ہو رہا تھا…. یہاں بھی وہی چہل پہل تھی، جو دُلھن والوں کے محل میں تھیں، صبح ہی عقد خوانی جو تھی۔

اتنے ہنگامے اور اتنی بڑی کوٹھی میں کسی نے اس کا نوٹس بھی نہ لیا…. پوچھتی یا چھپتی وہ سیدھی دولہا میاں کے کمرے میں جا پہنچی…. ہلدی منہدی کی ریتوں رسموں سے تھکے تھکائے دولہا میاں اپنی مسہری پر دراز تھے۔ پردہ ہلا تو وہ مڑے، اور دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔

گھٹنوں تک لمبا زعفرانی کرتا۔ کسی کسی پنڈلیوں پر منڈھا ہوا تنگ پاجامہ، ہلکی ہلکی کلدانی کا کڑھا ہوا زعفرانی دوپٹا۔ روئی روئی، بھیگی بھیگی گلابی آنکھیں، چھوٹی آستینوں والے کرتے میں سے جھانکتی گداز بانھیں، بالوں میں موتیا کے گجرے پروئے ہوئے…. ہونٹوں پر ایک قاتل سی مسکراہٹ…. یہ سب نیا نہیں تھا…. لیکن ایک مرد جس کی پچھلی کئی راتیں کسی عورت کے تصور میں بیتی ہوں …. شادی سے ایک رات پہلے بہت خطرناک ہو جاتا ہے…. چاہے وہ کیسا ہی شریف ہو۔\"\"

تنہائی جو گناہوں کی ہمت بڑھاتی ہے۔

چمکی نے انھیں یوں دیکھا کہ وہ جگہ جگہ سے ’’ٹوٹ‘‘ گئے…. چمکی جان بوجھ کر منہ موڑ کر کھڑی ہو گئی۔ وہ تلملائے سے اپنی جگہ سے اٹھے اور ٹھیک اس کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ آنکھوں کے گوشوں سے چمکی نے انھیں یوں دیکھا کہ وہ ڈھیر ہو گئے۔

’’تمھارا نام؟‘‘ انھوں نے تھوک نگل کر کہا۔

’’چمکی….‘‘ اور ایک چمکیلی ہنسی نے اس کے پیارے پیارے چہرے کو چاند کر دیا۔

’’واقعی تم میں جو چمک ہے اس کا تخاضا یہی تھا کہ تمھارا نام چمکی ہوتا….‘‘

انھوں نے ڈرتے ڈرتے اپنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھا۔ خالص مردوں والے لہجے میں …. جو کسی لڑکی کو پٹانے سے پہلے خواہ مخواہ کی اِدھر اُدھر کی ہانکتے ہیں …. لرزتے ہوئے اپنا ہاتھ شانے سے ہٹا کر اس کے ہاتھ کو پکڑتے ہوئے بولے….

’’یہ تھال میں کیا ہے؟‘‘

چمکی نے قصداً ان کی ہمت بڑھائی…. ’’آپ کے واسطے ملیدہ لائی ہوں ، رت جگا تھا ناں رات کو….‘‘ اور اس نے تلوار کے بغیر انہیں گھائل \"\"کر دیا…. ’’منہ میٹھا کرنے کو….‘‘ وہ مسکرائی۔

ہم ملیدے ولیدے سے منہ میٹھا کرنے کے خائل نہیں ہیں …. ہم تو…. ہاں ….‘‘ اور انھوں نے ہونٹوں کے شہد سے اپنا منہ میٹھا کرنے کو اپنے ہونٹ بڑھا دیئے…. اور چمکی…. ان کی بانھوں میں ڈھیر ہو گئی…. ان کی پاکیزگی لوٹنے…. خود لٹنے…. اور اُنھیں لوٹنے کے لیے….

وداع کے دوسرے دن ڈیوڑھی کے دستور کے مطابق جب شہزادی پاشا ان کی اُترن ‘ اپنا سہاگ کا جوڑا اپنی انا اپنی کھلائی کی بٹیا کو دینے گئیں، تو چمکی نے مسکرا کر کہا: ’’پاشا…. میں ….میں ….میں زندگی بھر آپ کی اُترن استعمال کرتی آئی…. مگر اب آپ بھی….‘‘

اور وہ یوں دیوانوں کی طرح ہنسنے لگی…. ’’میری استعمال کری ہوئی چیز اب زندگی بھر آپ بھی….‘‘ اس کی ہنسی تھمتی ہی نہ تھی۔

سب لوگ یہی سمجھے کہ بچپن سے ساتھ کھیلی سہیلی کی جدائی کے غم نے عارضی طور سے چمکی کو پاگل کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments