چاند کو تالاب، مجھ کو خواب واپس کر دیا
چاند کو تالاب، مجھ کو خواب واپس کر دیا
دِن ڈھلے سورج نے سب اسباب واپس کر دیا
اِس طرح بچھڑا کہ اگلی رونقیں پھر آ گئیں
اُس نے میرا حلقۂ احباب واپس کر دیا
پھر بھٹکتا پھر رہا ہے کوئی برج دل کے پاس
کس کو اے چشم ستارہ یاب واپس کر دیا
میں نے آنکھوں کے کنارے بھی نہ تر ہونے دیئے
جس طرف سے آیا تھا سیلاب واپس کر دیا
جانے کس دیوار سے ٹکرا کے لوٹ آیا ہے گیند
جانے کس دیوار نے مہ تاب واپس کر دیا
پھر تو اس کی یاد بھی رکھی نہ میں نے اپنے پاس
جب کیا واپس تو کل اسباب واپس کر دیا
التجائیں کر کے مانگی تھی محبت کی کسک
بے دلی نے یوں غم نایاب واپس کر دیا
(عباس تابش)
Latest posts by ادب جدید (see all)
- قدیم دور کی جدید محبت کی کہانی - 01/04/2017
- عید گاہ: معصوم پوتے اور بوڑھی دادی کی پریم چند کہانی - 06/03/2017
- میرے گھر کا پتا (عزیز فیصل)۔ - 02/03/2017
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).