پاکستانی سیاست کا دائرے میں سفر


\"\"
ہماری سیاست دائرے میں گردش کرتی چلی آ رہی ہے۔ ہر چند برس بعد ہم گھوم پھر کر اُسی مقام پر آ پہنچتے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ اس لاحاصل پاکوبی کا سب سے بڑا سبب خود ہمارے اپنے بالادست طبقات ہیں۔ جب تک اقتدار ان طبقات کے مخصوص مفادات کے نگہبانوں کی گرفت میں رہے گا، عوام کے دیدہ و دل کی نجات کی گھڑی مسلسل دور سے دور ہوتی چلی جائے گی۔ اقبال نے سچ کہا تھا:

مجلسِ ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو

ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

دین اور سیاست کے جدا ہونے کا مطلب ہے سیاسی عمل کی اخلاقی اور روحانی اصول و اقدار سے روگردانی۔ جب تک سیاست کو اخلاقی اور روحانی اصولوں کے تابع نہ کر دیا جائے گا اُس وقت تک کتابوں سے اخذ کیا گیا اچھے سے اچھا سیاسی نظام بھی ہماری زندگی کو ہمہ گیر ویرانی سے نجات نہیں دلا سکتا۔ جب تک تن پرستی اور جاہ مستی کی شیطانی اقدار ہی ہمارے ہاں سیاسی عمل کا جلی عنوان بنی رہیں گی اُس وقت تک ہر نظامِ سیاست، چاہے وہ پارلیمانی ہو یا صدارتی فوجی آمریت ہو یا سویلین فسطائیت، ناکام اور رُسوا ہی ہوتا رہے گا۔

عوام نظامِ زندگی میں بامعنی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ وہ تبدیلیاں جو تحریکِ پاکستان کے پرچم پر مرقوم تھیں مگر ہمارا حکمران طبقہ اُن بنیادی تبدیلیوں سے ڈرتا چلا آ رہا ہے۔ یہ تبدیلیاں ہماری اجتماعی ہستی کی بقا اور ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔ حکمران طبقے نے تبدیلی کے عمل کو روکنے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کر رکھا ہے۔ یہ طریقہ فقط انتظامی تبدیلی سے عبارت ہے۔ جب لوگ ایک نظامِ حکومت کے بنجر پن سے باغی ہونے لگتے ہیں تو یہ طبقہ ایک دوسرا نظام لا کر یہ جھوٹا تاثر دینے لگتا ہے کہ تبدیلی آ گئی ہے۔ جب لوگ اس نظام سے اُکتا جاتے ہیں تو پھر وہی پُرانا نظام نیا قرار دے دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں حقیقی تبدیلی کے عمل کو روکنے کا یہ نسخہ بار بار آزمایا جا چکا ہے۔

ہماری زندگی اور ہماری سیاست پر ظالم طبقوں کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ گذشتہ نصف صدی کے دوران وقتاً فوقتاً رونما ہونے والی زرعی اصلاحات پر ابھی تک مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ جاگیرداروں اور وڈیروں سے اصولاً چھینی گئی لاکھوں ایکڑ اراضی ابھی تک عملاً انہی کے قبضہ میں موجود ہے۔ اسی طرح ربع صدی پیشتر وجود میں آنے والے سرداری نظام کی تنسیخ کا قانون آج تک اپنے عملی نفاذ کو ترس رہا ہے۔

ہمارے دین اور ہمارے آئین ہر دو سے متصادم سرداری اور جاگیرداری نظام کے عملا و قائم رہنے کے نقصانات بے پناہ ہیں۔ میں فی الحال اس ضمن میں فقط دو باتوں کی طرف اشارہ کرنا کافی سمجھتا ہوں۔ پہلی بات یہ کہ جو نظام قانونی طور پر کالعدم قرار دیا جا چکا ہو اُس کا غیر قانونی طور پر باقی رہنا قومی وقار کے سراسر منافی اور ریاستی وحدت کے لیے بے حد خطرناک ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اب پاکستان میں سرداری اور جاگیرداری نظاموں کی پروردہ سیاست کے زہریلے اثرات دائرہ امکان سے نکل کر حقیقی خطرات کا روپ دھارے چکے ہیں۔ آج ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم سرداری اور جاگیرداری کو قائم رکھیں یا پاکستان کو؟ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ فیصلہ ہمارے حکمران طبقے کو کرنا ہے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ تو فیض کی آواز میں آواز ملا کر نغمہ سرا ہیں:

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بُت اُٹھوائے جائیں گے
جب راج کرے گی خلقِ خُدا
جو ہم بھی ہیں، جو تم بھی ہو

خلقِ خدا کی حکمرانی ہی کا دوسرا نام سلطانی جمہور ہے جس کی بشارت بانیانِ پاکستان نے دی تھی۔ اسی بشارت کو اپنے دل و دماغ میں رچا بسا کر اسلامیانِ ہند نے پاکستان قائم کیا تھا۔ اس بشارت سے مسلسل روگردانی کے ہولناک نتائج کا خیال کر کے دِل کانپ کانپ اٹھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments