خواجہ پیا، موری رنگ دے چندریا


 اردو نثر کے شاہکار \”آواز دوست\” سے تحریک پا کر علی گڑھ میڈیکل کالج کے شعبہ سرجری کے سابق سربراہ جناب نسیم انصاری مرحوم نے \”جواب دوست\” کے عنوان سے اپنی یادوں کی باز آفرینی کی تھی۔ ایک اقتباس

\"\"برصغیر میں ہندوستان اور پاکستان کا قیام تاریخی اعتبار سے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ہمیشہ یہاں ایک سے زیادہ ریاستیں رہی ہیں، گو ہر طاقتور ریاست کی خواہش رہی ہے کہ بقیہ ملک بھی اسی کے قبضے میں آ جائے۔ ہماری ہزاروں برس پرانی تاریخ میں غالباً چار پانچ سو برس بھی کوئی ایسی زبردست حکومت نہیں رہی جس کے قبضے میں شمال، جنوب، اتر، دکھن سب ہو۔ چندر گپت، اشوک، بکرماجیت ، خلجی، اورنگ زیب اور پھر انگریز… یہی نام بڑی بڑی سلطنتوں سے متعلق ہیں۔ لیکن 3000 برس کی دستاویز شدہ تاریخ میں ان بڑی سلطنتوں کا زمانہ بہت تھوڑا رہا ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان بہت حد تک ویسی ہی ایک وحدت رہا ہے جیسا کہ یورپ۔

آخر کیا چیز ہندوستان کو ایک رکھے ہوئے تھی؟ کیا یہاں کا ہندو مذہب ؟ اشوک، خلجی ، اکبر ، اورنگ زیب اور انگریزوں کے زمانے میں اقتدار ہنود کے پاس نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہندو مت ہندوستانی تہذیب کا ایک اہم ستون ہے… مثلًا کنبھ کا میلہ یا پھر سنسکرت جو ہزاروں برس تک ہندوستان کی علمی زبان رہی ہے ۔ بعد کے زمانے میں مسلمان صوفیا نے ملک کے کونے کونے میں ایسے مرکز بنائے جہاں سارے ہندوستان سے لوگ آنے لگے۔ یہ سب چیزیں ہماری وحدت کی ضامن رہی ہیں۔ یہ ہماری روحانی وحدت کی نشاندہی ضرور کرتی ہیں لیکن سیاسی وحدت سے ان کا بہت زیادہ تعلق نہیں رہا۔ حکومت چاہے بدھ مت کے ماننے والوں کی رہی ہو، خواہ اہل اسلام کی یا عیسائیوں کی… ہندوستان کی روحانی وحدت پر حکومتوں کا بہت اثر نہیں پڑا۔ چنانچہ آج بھی ہندوﺅں کے تیرتھ استھان، مسلمانوں کی زیارت گاہیں اور سکھوں کے متبرک مقامات برصغیر کی سیاسی تقسیموں سے بہت کم متاثر ہوئے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات چاہے کتنے ہی خراب کیوں نہ ہو جائیں (سوائے جنگ کی صورت کے) اجمیر، ہردوار اور ننکانہ صاحب کی رونق وہی رہتی ہے ، چاہے تخت دہلی پراشوک بیٹھیں یا اورنگ زیب، خواہ لارڈ ارون یا جواہر لال نہرو۔

آر ایس ایس کے کچھ نا سمجھ لوگ شاید سمجھتے ہوں کہ 1947ءکے بعد بھارت کے ٹکڑے ہو گئے لیکن میں اسے ایک منٹ کے لیے بھی \"\"ماننے کو تیار نہیں ۔ میرے سامنے تو کراچی، دہلی، اور ڈھاکا اسی وحدت کے حصے ہیں۔ میرے قریبی رشتے دار ان سب شہروں میں ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ گرو نانک، فرید گنج شکر، خواجگاں اجمیر ، نظام الدین اولیا، غالب، ٹیگوراور اقبال کی قومیت ہندوستانی ہے یا پاکستانی یا بنگلہ دیشی۔ 47ء اور 71ء کے سیاسی حادثات تو ضرور ہوئے لیکن ان سے ہماری روحانی وحدت نہیں ختم ہوئی۔

میں نے دانستہ تہذیبی وحدت کا نام نہیں لیا کیونکہ ہندوستان میں تہذیبی وحدت کبھی نہیں رہی اور نہ آج کے برصغیر میں پائی جاتی ہے۔ مجھے اپنی تہذیب ویسی ہی عزیز ہے جیسے کسی کشمیری کو اس کی تہذیب ۔میں چاہوں کہ ہمارے تہذیبی فرق مٹ جائیں تو یہ نہیں ہو سکتا۔ نہ کشمیریوں کو لکھنؤ کا مزعفر اچھا لگ سکتا ہے اور نہ اہل لکھنؤ کو سری نگر کا گوشتابہ۔ کشمیر کے صوفیانہ کلام کا لطف تو کشمیر والوں ہی سے پوچھیے، یہ نعمت بہار شریف کے علما کی قسمت میں کہاں۔

ہماری تہذیبی بو قلمونی تسلیم، اس کا ہر رنگ اپنی جگہ دل فریب، چاہے کشمیری دوشالہ ہو یا بنارسی ساری، حیدر آباد کی جامہ وار ہو یا ڈھاکہ کی ململ ۔ لیکن اس تہذیب کے تانے بانے ایک ہیں۔ خیال، ٹھمری اور دادرا تو بھارت ،پاکستان اوربنگلہ دیش کی سرحدوں کے آرپار سنائی دیتے ہیں۔ اقبال بانو کی غزلیں ہوں یا لتا کے گیت، بنیاد تو وہی راگ ہیں جو صدیوں سے یہاں کے مرغزاروں میں گونج رہے ہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ میں جب آواز آتی ہے :

خواجہ پیا، موری رنگ دے چندریا، اور رنگ بھی چوکھا آئے

تو پھر دیکھیے کیسے کیسے گریبان چاک ہوتے ہیں اور کیسے کیسے صاحب دل بے قرار ہو کر منہ ڈھانپ لیتے ہیں کہ کہیں ان کے دل کا معاملہ سر محفل نہ کھل جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments