آنا انتظار حسین کا پاکستان میں


\"\"بس اتنا ہی دھیان میں آتا ہے کہ مسافروں سے اٹا اٹ بھری ایک ریل گاڑی ہے کہ آباد اور اجڑی بستیوں کے بیچ سے دوڑی چلی جا رہی ہے، اجالے میں پھر اندھیرے میں۔ ایک اتھاہ ڈراؤنا اندھیرا، مسافر ٹھسا ٹھس مگر جیسے پتھر کے بنے ہوں۔ سانس تک کی آواز نہیں۔ گاڑی سے باہر نہ آدمی نہ آدم زاد۔ اور گاڑی کہاں جاکر رکے گی کچھ خبر نہیں۔ اور اگر رک گئی تو کبھی چلے گی بھی! کچھ خبر نہیں۔

اب سمجھ میں آ رہا ہے کہ وہ دو وقتوں کے ملنے اور جدا ہونے کی گھڑی تھی۔ صبح و شام کے جھٹپٹے میں دو وقت کیسے چشم زدن میں ملتے ہیں اور جدا ہو جاتے ہیں۔ پتا چلتا ہے کہ پہر بدل گیا۔ تاریخ کے اپنے صبح و شام ہوتے ہیں، اپنے ڈھلتے چڑھتے پہر۔ تو وہ تاریخ کا جھٹپٹا تھا۔ جب ہی تو میرٹھ سے لاہور تک کا مختصر سفر قیامت کا سفر بن گیا۔ گھر سے منہ اندھیرے نکلے تھے۔ اب دوپہر ہونے لگی ہے۔ سہارنپور کا سٹیشن گزر گیا ہے۔ یعنی یو پی کی سرحد سے نکل کر اب اس دیار سے گزر رہے ہیں جہاں کل تک بہت قیامت مچی ہوئی تھی۔ اب سناٹا ہے۔ جن کی قسمت میں نکلنا تھا وہ نکل گئے۔ جن کے لکھے میں کھیت ہونا تھا وہ کھیت ہو گئے۔ اب ان کے نام قریب و دور کچھ جلے پھنکے گھر نظر آ رہے ہیں۔ جہاں تہاں اجڑی پجڑی بستیاں۔ اور گاڑی ہے کہ بے نیاز دوڑی چلی جا رہی ہے۔ سہارن پور تک تو ہر سٹیشن پر باقاعدہ رکتی تھی۔ پھر سیٹی بجتی، ہری جھنڈی دکھائی جاتی اور بھرے سٹیشن سے دھیرے دھیرے کر کے نکلتی۔ پلیٹ فارم پر کھڑے بیٹھے مسافر پیچھے سرکتے جاتے، گاڑی آگے سرکتی جاتی۔ پھر بتدریج رفتار میں تیزی آتی۔ مگر اب سماں دوسرا ہے ۔ کسی سٹیشن پر گاڑی نہیں رکتی۔ بلکہ \"\"سٹیشن آتا ہے تو اس کی رفتار مزید تیز ہو جاتی ہے۔ مگر لیجئے رک گئی اور کس شان سے رکی ہے کہ مسلح گارڈ ڈبوں کے آگے پہرہ دے رہی ہے۔مجال ہے کہ پلیٹ فارم پر چلتے پھرتے لوگوں میں سے کوئی گاڑی کے قریب آ جائے۔ کرپان سے مسلح سکھ دور دور سے ہمیں گھورتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ پلیٹ فارم پر کتنے شرنارتھی ڈیرے ڈالے پڑے ہیں۔ بیزاری سے ہمیں دیکھتے ہیں اور بے تعلق ہو جاتے ہیں۔ اے لو شرنارتھیوں سے لدی پھندی ایک سپیشل مخالف سمت سے چل کر ٹھیک ہماری سپیشل کے متوازی کھڑی ہو جاتی ہے اور ہمارادل دھک سے رہ جاتا ہے۔ کتنی ستم رسیدہ خون بھری نظریں ہماری نظروں سے چار ہوتی ہیں۔ مسافر اندر ٹھسا ٹھس چھت پر جو مسافر لدے ہوئے ہیں وہ ان پہ مستزاد۔ یا اللہ گاڑی جب تیز چلتی ہو گی تو یہ کیسے خود کو سنبھالتے ہوں گے۔ مگر جب لوگ جانیں لے کر بھاگتے ہیں تو کچھ نہیں دیکھتے۔ نکلنے کی کوئی بھی صورت ہو غنیمت نظر آتی ہے۔مگر ہماری گاڑی چلتی کیوں نہیں۔ گاڑی سر کے تو غضبناک نظروں کی زد سے نکلیں۔ مگر گاڑی تو جم کر کھڑی ہے۔ سرکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

خیر دن تو جیسے تیسے گزر گیا۔ اب کالی رات ہے اور کالی سی کالی۔ باہر بھی اندھیرا، اندر بھی اندھیرا۔ انجن کی روشنی بھی غائب ہے۔ اندھی گاڑی اندھیرے میں دوڑ رہی ہے۔ اور تاریک ڈبے میں مسافر یوں بیٹھے ہیں جیسے آدم زاد نہیں، بھوت ہیں۔ اور گاڑی کیسے خوفناک \"\"انداز میں دوڑ رہی ہے کہ راہ میں آتے سٹیشنوں کو مطلق خاطر میں نہیں لا رہی۔ ہم ایک بے حس نابینا انجن کے رحم و کرم پر ہیں۔ سو طرح کے وسوسوں نے گھیر رکھا ہے۔ اے لو گاڑی رک گئی۔ یہ اچانک بیچ اندھیرے جنگل میں کیوں رکی ہے۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگے۔ سب کوجیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ سانس لینے کی بھی آواز نہیں۔ اندر باہر گھپ اندھیرا۔ ہاں بیچ بیچ میں سرچ لائٹ جھلک مارتی ہے۔ کچھ مسلح سپاہی نیچے اترے ہوئے ہیں۔ شاید انھوں نے خطرے کو سونگھا ہے۔ سرچ لائٹ روشنی کا احساس نہیں دلاتی، خطرے کے احساس میں شدت پیدا کر رہی ہے۔

خیر گاڑی چل رہی ہے۔ ‘ اطمینان کا لمبا سانس کہ حملہ کا خطرہ ٹل گیا۔ مگر اطمینان کی پچھلی گھڑیوں کی طرح یہ اطمینان کی گھڑی بھی عارضی نکلی۔ جلدی ہی بے کلی شروع ہوئی کہ گاڑی کی رفتار آخر تیز کیوں نہیں ہوتی۔ کیوں اس جنگل سے تیزی کے ساتھ نہیں گزر جاتی۔ گاڑی ہے کہ رینگ رہی ہے۔ عجب سا احساس ہو رہا ہے کہ جیسے زمانہ پہلے اس سفر پر نکلے تھے۔ زمانہ گزر گیا اور ہم اسی طرح چلے جا رہے ہیں۔ منزل پہ کب پہنچیں گے۔ پہنچ بھی پائیں گے یا بیچ میں ہی کھیت ہو جائیں گے۔ اس راہ اس سے پہلے کتنی گاڑیاں کٹ چکی ہیں۔ کتنی گاڑیاں منزل پر اس رنگ سے پہنچیں کہ نگ پورے یعنی جتنے سوار ہوئے تھے اتنے ہی مگر زندہ کوئی نہیں۔ لاشیں ہی لاشیں۔ یہ ہم ہیں یا زمانہ قدیم کا کوئی قافلہ ہے کہ جوکھوں بھری راہوں سے گزر رہا ہے۔ گاڑی کے باہر دن میں ایک اور منظر نظر آیا تھا۔ بیل گاڑیوں کی ایک لمبی قطار۔ ٹبر اپنے کاٹھ کباڑ کے ساتھ لدے ہوئے اپنی بستیوں سے اجڑ کر نکلے ہیں اور چلے جا رہے ہیں۔ گاڑی تیز دوڑ رہی ہے۔ مگر بیل گاڑیوں کی قطار کا کوئی انت نہیں ہے۔ جب باہر جھانکو قطار اسی طرح بندھی ہوئی۔\"\"

میں نے پاکستان میں قدم رکھنے کے بعد کرشن نگر میں آنکھ کھولی تھی۔خوب جگہ تھی۔ اجڑی اجڑی اور ساتھ ہی میں اتنی آباد کہ بازار سے گزرتے ہوئے کھوے سے کھوا چلتا تھا۔ یہ سب کھوے پناہ گیروں کے تھے جو رفتہ رفتہ پناہ گیر سے مہاجربن گئے۔

اسی بازار کے ایک نکڑ پہ ایک دکان کے تھڑے پہ میر عترت حسین بیٹھے تھے۔ مظفر نگر سے لٹ پٹ کر آئے تھے۔ مگر اس تھڑے پہ آ کر ایسے بیٹھے تھے جیسے پشتوں سے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پان سگرٹ کی اس دکان پر گاہک تو کم ہی دکھائی دیتے تھے۔ گپ ہانکنے والوں کی پھڑ جمتی رہتی تھی۔ اس حلقہ خاص کے رکن رکین ڈاکٹر صفدر حسین بھی مظفر نگر ہی سے آکر اس دکان سے قریب ہی ایک مکان میں بسے تھے۔تو کرشن نگر کا بازار تو بہت آباد تھا۔ مگر گلیاں اجڑی اجڑی نظر آتی تھیں۔ کتنے گھر ابھی تک بے آباد تھے۔ مکان بہت اچھے بنے ہوئے، دو منزلہ، سہ منزلہ۔ باہر تالے پڑے ہوئے۔ اندر فرنیچر سے آراستہ۔ نقشہ بتا رہا تھا کہ یہاں کوئی فساد نہیں ہوا۔ بس ان مکانوں کے مکین اچانچگ یہاں سے رخصت ہوئے ہیں اور اس طرح رخصت ہوئے کہ اوپر کی منزلوں میں جو کھڑکیاں کھلی تھیں، کھلی ہی رہ گئیں۔ دن میں ان مکانوں پر اداسی برستی۔ رات کے اندھیرے میں وہ بھوت بن جاتے تھے اور جب تیز ہوا چلتی تو کھڑکیوں کے پٹ دھاڑ دھاڑ بولتے تھے۔

ارے یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ پہلے مجھے اپنے پہلے دن کا ذکر کرنا چاہیے۔ میں نے اپنا بستر بوریا ساز و سامان والے ڈبے میں سنگھوا دیا تھا۔ \"\"سپیشل نے ہمیں مغلپورہ سٹیشن پر انڈیلا اور اس بند ڈبے سمیت پنڈی روانہ ہو گئی۔ پہلی رات تو جیسے تیسے گزر گئی۔ صبح کو میں نے کہا کہ جاڑا تو شروع ہو چکاہے۔ بغیر لحاف گدے کے یہ راتیں کیسے گزریں گی۔ عسکری صاحب نے کہا کوئی بات نہیں۔ یہاں ایک لنڈا بازار ہے۔ وہاں کمبل بہت سستے مل جائیں گے۔ لنڈا بازار میں کوڑیوں کے مول دو کمبل خریدے۔ ہماری تو عید ہو گئی۔ لاہور کے کڑکڑاتے جاڑوں کو یہ ایک پناہ گیر کا دنداں شکن جواب تھا۔

شاہد دہلوی بھی خوب تھے۔ جب گھر سے قدم نکالتے تھے تو اکیلے کبھی نہیں ہوتے تھے۔ اشرف صبوحی، حبیب اشعر، عسکری صاحب اور اب میں اس برات میں شامل ہو چکا تھا۔ ایک شام شاہد صاحب نے پوری برات کے ساتھ کینال بینک کے ایک گھر پر جا کر دستک دی۔ پتا چلا کہ یہ وہ گھر ہے جہاں حکیم اجمل خاں کی آل اولاد نے آ کر ٹھکانا کیا ہے۔ دلی کے اجڑے لوگ جوق در جوق چلے آ رہے تھے۔ اصل میں یہاں شاہد صاحب کو دلی کے حوالے سے لکھا اپنا رپورتاژ سنانا تھا ۔ کتنی دیر تک شاہد صاحب سناتے رہے اور محفل پہ سناٹا چھایا رہا۔ مگر شاہد صاحب اس رپورتاژ کو پورا نہیں پڑھ سکے۔ پڑھتے پڑھتے اچانک ان کی آواز بھرا گئی۔ پھر ایسی رقت طاری ہو ئی کہ ہڑکی بندھ گئی۔ پھر وہ پوری محفل ہی محفل گریہ بن گئی۔ بس ہم دو غیر دہلوی، میں اور عسکری صاحب ،اپنی خشک آنکھوں کے ساتھ دم سادھے بیٹھے تھے۔

اب میں اس منظر کو دھیان میں لاتا ہوں تو دھیان زقند لگا کر اس سے کہیں بہت پیچھے پہنچ جاتا ہے۔ 1857ء کی قیامت میں بھی دلی سے اک خلقت کو نکلنا پڑا تھا۔ فرنگی حاکموں نے خلقت کو واپس آنے کی اجازت دے دی تو بھی کتنے لوگ تھے کہ جنھیں اپنے شہر میں واپس آنا نصیب نہیں ہوا۔ کتنوں کی باقی زندگی اس طور گزری کہ مستقل دلی کو یاد کرتے اور روتے رہتے تھے۔ دلی نے ہمیشہ ہی وقفے وقفے سے اپنے گود کے پالوں کو بہت رلایا ہے۔ وہ اس کی گود سے چھٹ کر در بدر روتے پھرتے ہیں۔ ادھر یہ خاک و خون میں لوٹ کر پھر سے جی \"\"اٹھتی ہے۔ چولا بدل کر نئے نویلوں کو گود لے کر پھر خوش و خرم نظر آنے لگتی ہے۔ جب مولانا حالی دلی مرحوم کا فسانہ سنا رہے تھے عین اسی ہنگام اس خاکستر سے ایک نئی دلی جی اٹھنے کے لیے کنمنا رہی تھی۔ اور ادھر جب شاہد احمد دہلوی اپنے باپ دادا والی دلی کی بربادی پر اشک بہا رہے تھے تو ادھر دلی نے اپنی خالی ہو نے والی گود کو تازہ وارد خانہ بربادوں کے لیے وا کر رکھاتھا اور اب دلی میں پہلے سے بڑھ کر امی جمی ہے اور کسی کو یہ یاد بھی نہیں ہے کہ یہاں کسی کوچے میں بیٹھ کر ڈپٹی نذیر احمد نے دلی کی نئی کہانی لکھی تھی اور بلیماراں کے کوچے میں ایک دیوان خانہ تھا جہاں رنگ رنگ کے لوگ جمع ہوتے تھے۔ رات کو شاعری اور داستان گوئی کی محفلیں۔ دن میں گاندھی جی اور پنڈت موتی لال نہرو کے ساتھ مل کر سیاسی مسکوٹیں۔ دلی کے پرانے روڑے خاک ہوئے۔ اب دلی نئی نویلی ہے اور نئے اس کے روڑے ہیں۔

مگر خیر یہاں ذکر ان دلی والوں کا تھا جنھوں نے دلی سے نکل کر لاہور میں چھاﺅنی چھائی تھی۔ مشرقی پنجاب سے جو بچ کر آ سکتے تھے وہ پہلے ہی آ چکے تھے۔ اب ادھر بچا کون تھا جو آتا۔ دلی سے بھی جنھیں آنا تھا کم و بیش آ چکے تھے۔ مگر یو پی سے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ فساد آج اس نگر میں کل اس نگر میں۔ جو نگر فساد کی زد میں آتا وہاں سے خلقت لٹ پٹ کر نکلتی اور پاکستان کی طرف چل پڑتی۔ لشٹم پشٹم واہگہ کی سرحد پر پہنچتے اور پھر سیدھے لاہور میں۔

ہجرت اور فسادات شاعروں کا ان دنوں مرغوب موضوع تھا۔ مشاعروں میں اس مضمون کو مقبولیت حاصل تھی۔ دل دکھے ہوئے تھے۔ شعر\"\" ذرا بھی اچھا ہوتا تو دل میں جا کر تیر کی طرح لگتا تھا۔ ہاں اس زمانے کا ایک شعر یاد آیا۔ شعر بھی نرالا، شاعر بھی نرالا۔ عسکری صاحب اور میں چلتے پھرتے لارنس باغ میں جا نکلے۔ وہاں اوپن ائیر تھیٹر میں مشاعرہ ہو رہا تھا۔ وہاں نقشہ یہ تھا کہ سٹیج پر ایک شاعر چہل قدمی کر رہا تھا۔ گوری رنگت، چھریرا بدن، بر میں ململ کا کرتا، ٹانگوں میں پتلی موری کا پائجامہ۔ ہاتھ میں چھڑی۔ اوپن ائیر تھیٹر کے سٹیج پر ٹہلتا چھڑی گھماتا دائیں سے بائیں جاتا ہے، بائیں سے دائیں آتا ہے اور یہ شعر پڑھتا ہے۔

دیکھتا کیا ہے مرے منہ کی طرف

قائد اعظم کا پاکستان دیکھ

میں نے حیرت سے شاعر کو دیکھا اور عسکری صاحب سے پوچھا ”عسکری صاحب، یہ کون شاعر ہے“ ”ارے رے تم نہیں جانتے۔ یہ نفیس خلیلی ہیں“

مگر اب جب میں پچاس برس بعد ان سارے مشاعروں کو تصور میں لا رہا ہوں تو مجھے نفیس خلیلی اپنی سج دھج کے ساتھ سب شاعروں پر چھائے نظر آ رہے ہیں۔ جیسے مشاعرہ اسی رنگ سے گرم ہے اور نفیس خلیلی چھڑی گھماتے ہوئے اوپن ائیر تھیٹر کے وسیع سٹیج پرٹہل رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں۔

دیکھتا کیا ہے مرے منہ کی طرف

قائد اعظم کا پاکستان دیکھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments