بھارتی فلمیں بین کرنے کا مطالبہ۔۔۔ ہماری کمزوری یا جذباتیت!


(نادیہ خان)

\"\"آج کل ہم پاکستانی ایک دوسرے کی حب الوطنی بھارتی فلموں کو نہ دیکھنے سے پرکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کوشش کے پیچھے دلیلوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور ہمیں برباد کرنا چاہتا ہے۔ 1971 میں اس نے ہمیں تقسیم کیا اور آج بھی اپنی فلموں سے ہمیں اپنی ثقافتی یلغار کا نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ ‘‘ اسی سبب جو پاکستانی سینما مالکان نہایت بے شرمی سے بھارتی فلموں کی نمائش دوبارہ شروع کر رہے ہیں و محب وطن نہیں ہیں‘ حکومت نام کی کوئی شے اگر پاکستان میں ہے تو انہیں روکے وغیرہ وغیرہ۔

جو لوگ بھارت کے خلاف ایسی دلیلیں لاتے ہیں وہ جذبات میں بہہ جاتے ہیں۔ فلم ہی نہیں بھارت دوسرے شعبوں میں بھی پاکستان سے بہت آگے بلکہ بین الاقوامی دنیا میں مقام بنا رہا ہے۔ کمپیوٹر سوفٹ وئیر‘ دالیں سبزیاں‘ جانور اور ان کا گوشت اور مختلف کپڑے کی مصنوعات ہم بھارت ہی سے ہمسائیگی کی وجہ سے کم قیمت پر حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری بھارتی مصنوعات عالمی منڈی میں چین کے بعد سب سے زیادہ بکتی ہیں۔ ہم پاکستانی کس کس محاذ پر اپنی جذباتیت دکھائیں گے، بقول شاعر

پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!

کہا جاتا ہے بھارتی فلموں کی پاکستانی سینما گھروں میں نمائش سے پاکستانی فوج کے مورال پر برا اثر پڑے گا۔ مگر جناب! جب پاکستانی فوجی افسران شوق سے بھارتی فلمیں دیکھتے ہیں تو اس کا برا اثر نہیں پڑتا۔ ماضی قریب میں پاکستانی فوج کے سابق سربراہ نے ایک بھارتی اداکارہ کو اپنی محفل میں دیکھ کر کہا تھا ’’آپ کی اداکاری لاجواب ہے میں آپ کا بڑا فین ہوں۔ ‘‘
ایک اعتراض یہ ہے کہ بھارتی ناچ گانا ہمارے کلچر کو تباہ و برباد کردے گا۔ جناب ہمارا یعنی پاکستانی کلچر ہے کیا؟سوائے شلوار قمیض کے قومی لباس ہونے یا بریانی کے علاوہ کیا چیز پاکستانی کلچر ہے؟ 50 سال پہلے قدیم ہندوستانی نوابی کلچر کی وجہ سے ’’مجرا‘‘ ہمارے کلچر کا لازمی جز ہوا کرتا تھا اب 50 سال گزرنے کے باوجود بھی ’’ہیرا منڈی‘‘ کا عنصر آج تک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آب و تاب سے موجود ہے۔ اللہ معاف کرے، ایک’’ مرد مومن‘‘ جو پاکستانی سینما انڈسٹری کے سخت مخالف تھے اور اسے ہر قیمت پر برباد کرنا چاہتے تھے ان کی اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے 80 کی دہائی میں وی سی آر کلچر عام ہوا۔ مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گھر گھر میں ہندوستانی گانے چلنے لگ گئے۔ لیکن مجال ہو کسی دیندار شخص نے اعتراض کیا ہو اور انگلی اٹھائی ہو۔

بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش روک دیں مگر دوسری طرف ہم یہ نہیں دیکھتے کہ کئی پاکستانی فنکاروں نے بھارت میں جا کر نام کمایا ہے۔ کیا ہم ایسے تمام اداکاروں کو بھی ’’غداری‘‘ کا سرٹیفکیٹ دیں گے؟ پھر ان بھارتی فلمسازوں کو کس درجہ میں شمار کیا جائے گا جو انتہا پسند ہندوؤں کے دباؤ کے باوجود کچھ پاکستانی فنکاروں کو مواقعے دیتے ہیں۔ اگر اسی دلیل کو آگے بڑھائیں تو بنگالی عوام نے 1971 میں ہمارے ساتھ بڑا برا سلوک کیا تھا۔ اس حساب سے تو ہمیں ماضی کی مشہور پاکستانی اداکارہ شبنم اور ان کی فلموں کو بھی پاکستان میں روک دینا چاہیے کہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بنگلہ دیش کو واپس اپنا ملک بنا لیا ہے۔ محمد علی مرحوم اور زیبا نے بھی بھارت جا کر فلم میں کام کیا تھا ہمیں ان کی فلموں کو بھی پاکستان میں ممنوع قرار دینا چاہیے اور ان کی حب الوطنی پر شک کرنا چاہیے۔ اگر فن قومیت کے ہاتھوں یرغمال ہوتا تو ہم کبھی بھی دنیا کے دوسرے فنکاروں سے مستفید نہ ہوتے۔

اب دیکھتے ہیں ’بھارت ہمارا اصلی دشمن ہے‘ کی دوسری تصویر کیا ہے؟ کیا ہم بھارت کے دشمن نہیں ہیں؟ کیا ہمارے زید زمان حامد یا حافظ سعید یا مسعود اظہر جیسے لوگ کسی بال ٹھاکرے یا مرلی منوہر جوشی سے کم ہیں۔ کیا ہم ہر گھڑی بھارت کو۔۔ ’’ غزوہ ہند‘‘ سے نہیں ڈراتے، کیا آج ہمارے کچھ اینکر حضرات ٹی وی پر بیٹھ کر یہ نہیں کہتے کہ پاکستانی فوج کو 1965 کی جنگ میں بھارتی مفتوحہ علاقوں کی عورتوں کو اپنی کنیزیں بنا لینا چاہیے تھا۔ اگر بھارت 1971 میں ہم سے دشمنی کر رہا تھا تو کیا ہم 1984ء میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈارنوالہ کے ساتھ مل کر بھارت دوستی کا ثبوت دے رہے تھے؟ کیا 1999 کاہمارا کارگل ایڈوینچر بھارت کے ساتھ ہماری دوستی، ایمانداری اور اچھے اخلاق کا ثبوت ہے؟

کچھ لوگوں کا خیال ہے کلبھوشن جیسے بھارتی جاسوس ہمیں اور ہمارے بلوچستان کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ جناب! کیا ہماری ایجنسیوں کے ایجنٹ بھارت میں ہمارے لئے جاسوسی نہیں کرتے؟ کیا ہم بھارت کی جاسوسی نہیں کرتے؟ کیا ہماری ایجنسیوں کے افسران نیپال سری لنکا میں صرف سیر و تفریح کے لئے ڈیرے ڈالتے ہیں؟ کیا ہم یہ پتہ نہیں کرتے کہ بھارت کون کون سے ہتھیار بنا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تمام ممالک ایک دوسرے کی خبر رکھتے ہیں۔ یہ جاسوسی نظام ہے کہ موجودہ دور میں ہمسایوں کی خیر خبر ضرور رکھی جاتی ہے۔

ایک اعترض یہ بھی ہے کہ بھارت پاکستان سے پاکستان میں کرکٹ نہیں کھیلتا۔ بجا مگر اس میں بھارت کی کیا تخصیص۔ اب تو بنگلہ دیش اور افغانستان بھی پاکستان ٹیم بھیجنے سے کتراتے ہیں۔ کبھی انہیں بھی ایسا الزام دیں ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ جناب! آپ ٹیموں کو تحفظ فراہم کریں اور کرکٹ بورڈ کے افسران کو پابند کریں کہ وہ دبئی یاترا کے نام پر متحدہ عرب امارات کی سہولیات کا استعمال بند کریں۔

بات صرف اتنی ہے کہ آگ دونوں طرف برابر کی لگی ہوئی ہے اور جذبات کا ایندھن انڈیل انڈیل کر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ صرف ایسی فلموں کا بائیکاٹ کریں جو اسلام و پاکستان مخالف ہوں اور یہ کام ہمارا سنسر بورڈ انجام دے رہا ہے۔

ہمسائے ہم پسند کے لا نہیں سکتے اور اگر طاقتور بھی ہوتے تو ہمسائے کو نیست و نابود نہیں کر سکتے۔ گردنیں فتح کرنے سے ملک باقی نہیں رہتے، دل فتح کریں بہت سی مشکلیں خدا خود آسان کردے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments