عورت گھوڑا اور مرد (محمد الیاس)۔


\"\"

گرمیوں کے موسم میں صبح سویرے تین بجے ہی سڑک کنارے لگی سرکاری ٹونٹی میں سے پھرپھر کی آواز کے ساتھ پانی نکل کر سیمنٹ کے فرش پر گرنے لگتا تو اس کے تیز شور کی وجہ سے چند گز کے فاصلے پر ایک کمرے پر مشتمل گھر کے دروازے کے آگے بچھی چار پائی پر سوئے ہوئے پھمن کی نیند کا سلسلہ ٹوٹ جاتا۔ پاس ہی ایک جھلنگا چارپائی پر اس کی کم سِن بیٹی اور بیٹا ایک دوسرے کے اوپر نیچے پڑے سو رہے ہوتے۔ چوں کہ گھوڑا بیٹی اور بیٹے کی نسبت زیادہ کارآمد اور قیمتی تھا لہٰذا اسے دروازے کے آگے اس طرح باندھ رکھا ہوتا کہ دونوں چارپائیوں تانگے اور گھر کے حصار میں محفوظ رہے۔ گھوڑے سے دو گز آگے تانگا اپنے دونوں پہیوں کے سہارے پیٹھ زمین سے ٹکائے دونوں بازو آسمان کی جانب بلند کیے رات بھر خدا سے بچوں اور ان کی ماں کے گناہوں کی معافی مانگتا رہتا۔ بچوں کی ماں زلیخا کمرے کے اندر ٹاٹ کے پردے کی اوٹ میں فرش پر پڑی سورہی ہوتی۔ پھمن اپنی ہی طرز کا ایسا مرد تھا جسے محض اپنے مرد ہونے ہی پر بڑا فخر تھا۔ بقول اس کے زلیخا، پھمن خان کی جورو تھی اور ”راجپوتاں“ کی بہو۔ کسی ایرے غیرے کی نہیں جو ڈومنیوں کی طرح باہر سڑک پر پڑی سوتی رہے۔ بھلے گرمی سے مرجائے لیکن اندر ہی رہے۔
پھمن کی کسل مندی دور کرنے کے لیے گھوڑا ہلکی آواز میں پھرڑکا مارتے ہوئے اپنی پچھلی ٹانگوں کو قدرے واکر کے اکڑا لیتا اور پیلے زرد رنگ کے جھاگ دار پیشاب کی موٹی سی دھار اینٹوں کے اونچے نیچے فرش پر سرکاری نلکے کے سے پریشر کے ساتھ مارتا تو اس کی پھوار پھمن کے بدن پر ننگے حصوں کو چھو جاتی۔ وہ یک دم کروٹ لے کر اٹھ جاتا اور گھوڑے کو دو چار ننگی گالیوں سے نواز کر اپنے دن کا آغاز کردیتا۔ جاگ جانے کے باوجود پھمن کی آنکھیں ابھی بند ہوتیں۔ وہ تیل اور میل کچیل میں گندھے ہوئے تکیے کے نیچے سے استری شدہ ریڈ لیمپ مارکہ سگریٹ کا پیکٹ ہاتھ میں لے کر اس میں سے ایک سگریٹ نکالتا جو پیکٹ کے دب جانے کی وجہ سے چپٹا ہوچکا ہوتا۔ سگریٹ کو زبان پر رکھ کرگھماتا۔ جب وہ تھوک سے تربتر ہو جاتا تو زبان سے چپک جانے والے تمباکو کے ذرات کو تھوکتے ہوئے تکیے کے نیچے سے دیا سلائی کی ڈِبیا ٹٹول کر نکالتا۔ جونھی سگریٹ سلگتا، پھیپھڑوں کی صفائی کا مشقّت طلب عمل از خود شروع ہو جاتا۔ ہرکش سے پہلے اور بعد کھگڑم بگڑم کی لے پر کھانسی اور بلغم کی اتھل پتھل کا گھمبیر دورہ پڑتا۔ بھلے سموں ایک آدھ سگریٹ ہی سے کام چل جایا کرتا تھا، لیکن اب دوسرے سگریٹ کے پہلے نصف پر کہیں جاکر اس کے بھاگ جاگتے تھے۔ اپنے سرتاج کی کھانسی کے الارم پر بھی زلیخا فوراً نہ جاگتی تو ارشاد ہوتا۔
”اَری اُٹھ جا بے سرم! نیوں چڈھے کھلیارے پڑی رہوے۔“
کمرے کے اندر الٹے ہاتھ کونے میں ٹین کے ایک خالی ڈبے کے اوپر ڈیڑھ فٹ سائز کا مکعب نما لکڑی کا کریٹ اوندھا پڑا ہوتا۔ کریٹ کے اوپر ایک بڑا سا سوراخ تھا۔ دو اطراف سے کمرے کی دیواروں نے بڑے احسن طریقے سے مطلوبہ پردہ پوشی کے مقاصد پورے کررکھے تھے۔ بقیہ دونوں جانب لٹکا ہوا ٹاٹ پردہ چاک کیے رکھتا۔ یہ اِس گھرانے کا بیت الخلا تھا۔ اس سے استفادہ کرنے کے وہی آداب تھے جو انگلش کموڈ کے استعمال میں روا رکھے جاتے ہیں۔ پھمن جب خلا کی مہم جوئی میں مصروف ہوجاتا تو زلیخا بیٹے کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑتی اور بیٹی کو بالوں سے نوچتی۔ دونوں بچے ابھی آدھے سوئے آدھے جاگے کی کیفیت ہی میں ہوتے کہ انھیں بازوﺅں سے پکڑ کر توری کی طرح لٹکائے گھر کے دروازے کے ساتھ بہتی گندے پانی کی نالی پر بٹھا دیا جاتا۔ زیرِعمل فعل پر پورا بوجھ صرف کرنے کی بجائے دونوں بچے اپنے گھوڑے کی تقلید میں ایک پاﺅں پر سارا بوجھ ڈالے دیوار کے ساتھ کندھے ٹکائے میٹھے سپنے دیکھنے لگتے اور انھی سہانے سپنوں ہی میں اپنی تشنہ تکمیل خواہشات میں ناجائز طور پر تجاوز کرکے ایک ایک آنے والی کھوئے ملائی کی ٹھنڈی میٹھی قلفیاں کھانے لگتے۔ گھوڑا بچوں کو اپنی نقل اتارتے دیکھتا تو ”پھررر پھررر“ کی آوازیں اپنے نتھنوں سے خارج کرکے انھیں ٹوکتا۔ گھوڑے کی ہر تنبیہ پر وہ اپنی اعصابی قوت کو براہ راست بروئے کار لاکر جاری فطری عمل کو مرحلہ مرحلہ پایہ تکمیل تک پہنچاتے۔ اس دوران میں پھمن میدان مار چکا ہوتا لیکن پسینے میں شرابور، ادھ موا ہوکے باہر چارپائی پر آن کے ڈھیر ہوجاتا۔
زلیخا بیت الخلا سے ڈبّا اٹھاکر باہر آجاتی اور جو کچھ بھی اس میں خاوند نامراد کی کاوشوں کا ثمر ہوتا؛ نالی میں بہا دیتی۔ علیٰ الصباح معروضی حالات اس خاندان کی موافقت میں ہوتے۔ بدر رو میں پانی کا بہاﺅ تیز ہوتا۔ زلیخا اسی پانی میں ڈبّا کھنگال کر خود عازمِ بیت الخلا ہوجاتی۔ حالاں کہ تھی وہ پاﺅں کی جوتی لیکن اکثر کام ایسے کرتی جیسے انسان کے فطری تقاضوں کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ جس وجہ سے پھمن کو تاﺅ آجاتا۔ وہ اپنی کھوئی ہوئی توانائی بحال کر چکتا تو دونوں گھڑے اور بالٹی پانی سے بھر کے اندر لے آتا۔ بیت الخلا کے مقابل دائیں کونے میں پڑے سٹوو اور کھانے پکانے کے برتنوں کے پاس رکھ دیتا۔ یہ اس گھرانے کا باورچی خانہ تھا۔ چوں کہ جورو کا پردہ زیادہ اہم مسئلہ تھا، اس لیے شیوہ مردانگی کے تقاضوں کے عین مطابق وہ پانی اور سودا سلف لانے کی مشقّت برداشت کر لیا کرتا۔
اس اثنا میں فجر کی اذانیں ہونے لگتیں۔ اگر اب تک زلیخا کی گلو خلاصی ہوچکی ہوتی تو وہ بیت الخلا سے نکل کر چند منٹوں کے اندر اندر چائے کا پانی ابلنے کے لیے رکھ دیتی۔ ورنہ پھمن کھانسی کے جھٹکوں میں مختلف النوع الفاظ ملاکر اگلنے لگتا۔
”ابے جلدی کر، تیرے باوا کی ٹرین نکل جاوے گی۔ اَری وہ ماں کا کھسّم سرکاری سانڈ آنے والاہے۔“
سرکاری سانڈ علیٰ الصبّاح ہی اس کے حواس پر چھانے لگتا۔ پھمن کی خواہش ہوتی کہ اس کے آنے سے قبل ہی ڈبّا دوسری مرتبہ نالی تک کا سفر مکمل کرکے واپس لوٹ جائے۔ اس عورت کی مت واقعی کھری تلے تھی۔ نہ جانے کن مسائل میں الجھ کر مزید تاخیر کردیتی تو حضرتِ سرتاج کا پارا سوا نیزے پر آجاتا اور وہ اپنے مسجع اور مقفّٰی الفاظ کو قریب ہی بہتی ہوئی گندی نالی میں رواں دواں مرکب آمیزے میں ڈبو بھگوکر اندر اُچھالنے لگتا۔
”ابے سسری اٹھ جا؛ تیری ماں….ٹوکرا بھر کے کھاوے اور بھینس کی تریا(طرح)….“
ذاتی طور پر گالیوں میں عملی کردار ادا کرنے سے اکتا جاتا تو رضا کارانہ طور پر اپنی سرتاجی گھوڑے کے سر پر سجادیتا۔
جب تک پھمن سِلور (ایلومینیم) کے گلاس میں ایک پاﺅ دودھ ایک آنے والا بروک بانڈ چائے کا پتا؛ گڑ کی بھیلی اور چھ عدد رس لے کر لوٹتا؛ کم و بیش اسی وقت مقامی تھانے کا حوال دار شاہ سوار شاہ، جو نزدیک ہی کرائے کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا تھا، سرکاری نل پر نہانے آجاتا۔ بقول پھمن وہ واقعی سرکاری سانڈ کی طرح پلا ہوا تھا۔ لگ بھگ چالیس سال کا تھا۔ اونچا لمبا چوڑا چکلا، جِنّ کا جِنّ اور شہ زور۔ لگتا تھا جیسے خدا نے اسے بناتے ہوئے کھلے دل سے ہر میٹریل استعمال کیا تھا اور جو بے کار مال مصالحہ اس کی تعمیر میں سے بچا رہ گیا اس سے کسی شاگرد پیشہ فرشتے کے ہاتھوں پھمن کو مختصر وجود کے قالب میں ڈھال دیا گیا تھا۔ سوار شاہ کا چہرہ اور سر بہت بڑا تھا۔ گردن خاصی موٹی اور ہونٹ بھرے بھرے ¾ سر کے بال چھوٹے لیکن سیاہ کالے۔ اوپر والے ہونٹ اور ناک کے درمیان خاصی چوڑی جگہ موجود تھی جس پر ہونٹوں کے دونوں گوشوں تک سارے ایریا پر کالی اور گھنی مونچھیں اُگی ہوئی تھیں۔ بپھرے ہوئے بیل کی طرح موٹی آنکھیں، جن میں ہر وقت سرخی رہتی اور خوب موٹی بھنویں آپس میں جڑی ہوئی تھیں۔ رنگ گورا اور سرخ۔ نظر بھر کے دیکھتا تو لگتا کہ کوئی جسیم وحشی درندہ جبڑے کھولے مقابل شکار سموچا نگلنے کے لیے جھپٹا مارنے کو ہے۔
پھمن کی متلون مزاجی کے باعث گلی کے دیگر مقیم ٹونٹی سے پانی بھرتے ہوئے منہ دھیان رہتے لیکن سوار شاہ پانی بھرنا تو درکنار، بنفسِ نفیس غسل ہی یہاں کیا کرتا۔ حالاں کہ اُس وقت تک روشنی پھیل چکی ہوتی۔ وہ از راہ تکلف ململ نما کپڑے کا ایک ٹکڑا جسم پر اُڑس لیتا۔ وہ کھل کھلا کر بڑا بھرپور غسل کیا کرتا۔ اڑوس پڑوس اور آس پاس سے گزرنے والے اپنی ذاتی ذمہ داری پر، رضا کارانہ حوال دار کو بحالت ِغسل دیکھ لیا کرتے تھے۔ تاہم مشغولِ غسل شخصیت نے اپنی عالی ظرفی کے طفیل کبھی بھی کسی کے شوقِ دید پر قدغن نہیں لگائی۔ کپڑا غریب بھیگ جانے کے بعد ستر پوشی کرنے میں اپنی ناکامی اور کم مائیگی پر از خود ہی شرم سار ہوکر پنہائیوں میں کہیں کھوجاتا۔ موصوف اپنا طویل ترین، زندہ و تابندہ غسل پھمن کے گھر کی جانب رخ کرکے پایہ تکمیل تک پہنچایا کرتا۔ پھمن اس دوران ٹاٹ کے پردے کی اوٹ میں بیٹھا مسلسل زیر لب مغلظات بکا کرتا اور معاشرے کی بگڑتی ہوئی اخلاقی اقدار پر جی جان سے کڑھ کر اپنے من کا بھاری بوجھ ہلکا کرنے کی سعیِ نا تمام کرتا رہتا۔ کافی (بہت) دنوں سے سنا جارہا تھا کہ سوار شاہ چھوٹا تھانے دار بننے والا ہے اور ترقی پاتے ہی وہ تھانے کے نزدیک سرکاری کوارٹر میں منتقل ہوجائے گا۔ وہ دل میں خیال کرتا کہ اس بھینسے کو موت آنی تو ممکن نہیں لہٰذا خدا کے حضور سچے دل کے ساتھ دعا کیا کرتا کہ وہ چھوٹا چھوڑ سب سے بڑا تھانے دار بن جائے؛ جہنم میں جائے لیکن اس محلہ سے جلد از جلد دفع دور ہوجائے۔
گجراتی مٹی کا پیالہ دو مرتبہ گڑ کے امرت سے لبالب بھر کر مع تین عدد رس تناوّل کرتا اور پھر تانگے میں بیٹھتے ہی چھانٹے کو گھوڑے کے بدن سے ایک دو گز دور ہوا میں تیزی سے لہراتے ہوئے سائیں سائیں کی آوازیں نکال کر للکارتا۔
”چل میرے سیژادے!“(شہزادے)۔
زلیخا ٹاٹ کی اوٹ سے زیر لب بڑبڑاتے ہوئے اپنے دل میں سربستہ راز جیسی اک خواہش کی کمان پر بد دعا کا زہریلا تیر چڑھا کر پھمن کی پیٹھ پر رسید کردیتی۔
”جا! تیں مرجائے! تری لاس (لاش) آئے گھر ماں( میں) منے دھار(میں ادھار) کے لڈو بانٹوں۔“
دونوں بچے خود ہی دیواروں کے سائیوں کے ساتھ ساتھ اپنی چارپائی گھسیٹتے رہتے۔ وہ سگریٹ کی خالی ڈبیوں اور دیگر بے شمار اشیا جو سڑک پر اِدھر اُدھر پڑی ملتیں۔ اپنے توشہ خانہ میں شامل کرلیتے اور ان کے ساتھ جی جان سے کھیلتے رہتے۔ انھوں نے اپنی ماں سے کوئی مطالبہ کرکے کبھی دکھ نہیں دیا۔ انسانی فطرت میں شامل کسی خواہش کی تکمیل کی خاطر مطالبہ کرنے کے لیے اگر کوئی مخصوص عنصر بطور جزو کے شامل ہونا ضروری ہوتا ہے تو زلیخا کے بچوں کی تعمیر کے عمل پر مامور مہربان فرشتے نے ان کا خمیر گوندھتے ہوئے یقینا اسے ترک کردیا تھا۔
پھمن ہر روز رات گھر لوٹتے ہوئے سبزی منڈی لوٹ کر لے آیا کرتا، اس لیے دوسرے روز زلیخا ہنڈیا پکا چکتی اور آٹا گوندھ کر رکھ دیتی تا کہ سجن گھر لوٹے تو تازہ پھلکا پکا کر پیش کرے۔ چوں کہ روٹی کے معاملے میں موصوف کا ذوق بڑا بلند تھا۔ کام کاج سے فارغ ہو کر آرام کرنے کے لیے لیٹ جاتی۔ آرام کرنے کے لیے اسے پورے مواقع میسّر تھے۔ اس کے سرکا سائیں صبح جاتے ہوئے اپنی کھاٹ اندر رکھ کر جاتا۔
سردیاں گرمیاں اس کے لیے ایک جیسی تھیں۔ کبھی کوئی رُت اس کے لیے سکھ کے لمحے لے کر نہیں آئی۔ سکھوں سے اس کا جنم جنم کا بیر تھا۔ اس کا یہ ایمان تھا کہ وہ جہاں بھی جائے گی مقدر تعاقب میں رہے گا۔ وہ کبھی بھی کسی مرد سے متاثر نہیں ہوئی ¾ نہ ہی کسی میں اسے کوئی دلچسپی تھی۔ وہ دنیا کے تمام مردوں سے نفرت کرتی تھی۔ اسے یقین تھا کہ ان مردوں کے بہروپ تو مختلف ہوسکتے ہیں لیکن اصل روپ ایک سے ہیں۔ اس کا اپنا مرا ہوا باپ اور بھائی بھی ایسے ہی تھے۔ اوپر چوبارے میں رہنے والا بابو سعید احمد سیڑھیاں اترتے چڑھتے اور سامنے سے گزرتے ہوئے کسی شدید جذبہ خیر سگالی کے زیر اثر کن انکھیوں سے دیکھتا اور مسکرایا کرتا۔ لیکن جب پھمن گھر میں موجود ہوتا تو اس کی ذات میں چھپی ہوئی شرافت کی دبیز چادر اس کے سارے سراپے کو ڈھانپ لیتی۔ کمرے کے پچھواڑے میں جو دُکان بازار میں کھلتی تھی۔ پھمن کے سگے ماموں رانا فتح محمد کی تھی، جسے وہ خود اور دیگر برادری والے ”پھتے پھروٹ مرچنٹ“ کہتے تھے۔ رانا کی بیوی کب کی مر چکی تھی۔ اب وہ ساٹھ کے پیٹے میں تھا۔ اس کی اولاد اپنے اپنے گھروں میں آباد تھی۔ روہتکی طرز میں نفاست کے ساتھ کیسری رنگ کی پگڑی باندھتا۔ بڑی بڑی مونچھیں گالوں پر پھیل کر گل مچھے بناتی تھیں۔ چوڑے سانولے چہرے اور جسم سے ساری جوانی کافور ہوکر صرف آنکھوں میں مرتکز ہوکے رہ گئی تھی۔ اپنے حلیے اور منفرد رکھ رکھاﺅ کی وجہ سے پتا چلتا تھا کہ وہ ایک کرڑا راج پوت ہے۔ اپنی دُکان میں فروٹ کے لیے جوڑے گئے کریٹوں کے پیچھے سکونت پذیر تھا۔ پھمن کے کمرے اور رانا کی دُکان کو ایک ہی دیوار دو حصوں میں تقسیم کرتی تھی۔ جس میں ایک دروازہ تھا جسے پھمن نے روزِ اوّل ہی سے لمبی لمبی میخیں لگا کر مستقل بند کررکھا تھا۔ وہ اپنے ماموں سے شدید نفرت کرتا تھا۔ ماماں بھی عمر کے ساتھ بدلا نہیں تھا۔ شادی سے پہلے جب زلیخا ابھی چھوٹی تھی تو وہ اسے ورغلانے سے باز نہیں رہتا تھا۔ دُکان پر سودا لینے آتی تو اسے دعوت دیتا کہ وہ جس قدر چاہے کریٹوں کے پیچھے بیٹھ کر فروٹ کھالے اور پیسے بھی لے لے۔ زلیخا کی شادی پھمن سے ہوگئی تو وہ اپنے میاں کے حکم پر پردہ کرنے لگی۔ پھمن صاف کہتا۔ ”میرا ماماں بڑا کھنجِیر (خنزیر) ہے۔“ ماماں کہتا۔ ”میرا بھانجا پکا حرام جادہ ہے۔“
ویسے ماماں تھا بڑا رنگین مزاج۔ اداکارہ نیلو کا اپنے تئیں بلا شرکت ِغیر عاشق تھا۔ اُس کے بڑے بڑے رنگین پوسٹر ساری دُکان کی دیواروں پر سجا رکھے تھے۔ اُس کی ہر فلم کا دوسرا یا تیسرا شو بلا ناغہ دیکھتا۔ پردہ اسکرین سے دُوری اُسے کھلتی تھی اِس لیے بارہ آنے والی کلاس میں سب سے اگلی رو میں براجمان ہو کر نیلو کے ہر پوز کو باریک بینی اور انتہائی دل چسپی سے اپنی آنکھوں میں سمو لیتا۔ ماماں بھانجا اور ان کی برادری کے بیش تر افراد خ ف ش اور ن وغیرہ کے ساتھ خدا واسطے کا بیر رکھتے تھے۔ ماماں نیلو سے اپنی بے پناہ محبت کے باوجود اسے ”لیلو“ کہہ کر یاد کرتا۔ بھری جوانی کے دور میں نیلو کی کسی کھڑکی توڑ فلم کا نظارہ کر رہا تھا کہ دورانِ رقص موصوفہ نے کوئی ایسا غیر معمولی ایکشن پیش کیا جو غالباً سینسر کی نذر ہونے سے بچ کر (حق بحقدار رسید کے مصداق) تماشائیوں کے رُو برو پیش ہو گیا۔ رانا جی اس ادا پر بے بس و بے اختیار ہوکر ایسے فریفتہ ہوئے کہ بھرے سینما ہال کے اندر عالمِ دیوانگی میں بے ساختہ بہ آواز بلند پکار اٹھے۔
”ہائے ری لیلو! تھورا پساپ (تمھارا پیشاب) پی لوں۔“ یہ موصوف کی نیلو سے حد درجہ کی عقیدت کا شاخ سانہ تھا کہ وارفتگی کے منہ زور جذبات کے باعث وہ انتہائی اقدام پر بھی تل گئے۔ انھوں نے اپنے حقیقی محسوسات کی عکاسی بڑے قدرتی سچے اور کھرے انداز میں بغیر کسی تصنع اور بناوٹ کے کردی، لیکن ظالم سماج نے بجائے اس کے کہ اُن کی سادگی اور حقیقت پسندی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا، اس نعرہ مستانہ کو مذاق کا رنگ دے دیا۔
ماماں نے چھڑاچھانٹ ہونے کے بعد کئی ایک بار بھانجے سے بچتے بچاتے موقع نکال کر اپنی دیرینہ پیش کش مزید پرکشش مراعات و ترمیم و تجدید کے ساتھ زلیخا کے رُو برو ہم دردانہ غور اور فوری عمل درآمد کے لیے رکھ دی۔ لیکن کوئی رُپے پیسے والا دُکان دار ہو، فیشن ایبل بابو یا دبنگ حوال دار، زلیخا کو کسی سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ وہ سب مردوں کی نظروں کا مطلب اچھی طرح سمجھتی تھی۔ اشارے کنائے اور مسکراہٹیں، لیکن وہ چپ رہتی۔ وہ اسے ایک مغلظ مخلوق سمجھتی تھی جس کے اندر ایک مخصوص طرح کی غلاظت بھری ہوتی ہے۔ مردوں کے تصور ہی سے اس کا جی متلانے لگتا۔ وہ منہ بھر کے ایک بڑی سی تھوک پھینکتی اور مرد کو ایک موٹی گالی دے کر مطمئن ہوجاتی۔ ماماں کبھی کبھار حوصلہ کرکے رشتہ داری کا حق جتلاتا اور بھانجے کو نصیحت کے رنگ میں کہتا۔ ”ابے کم عقل! نہ مارا کر جو رو کو۔ یہ بڑا جلم ہووے۔“ دراصل وہ ایک تِیر سے دو نشانے لگانا چاہتا تھا کہ شاید اس کی ہم دردی زلیخا پر اثر کرے اور دل کے اندر کسی گوشے میں اس کے لیے نرمی عمل پذیر ہونے لگے۔ لیکن پھمن کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلا ہوا تھا۔ پہلے وہ صاف صاف کہتا۔ ”ماماں تیں ہمارے بیچ ماں ( میں ) مت بول۔ تنے (تم نے ) ساری جندگی (زندگی ) مامی کی گلامی کری ( غلامی کی) ارے منے (میں ) کوچ وان ہوں کوچ وان۔ سو بدماس (بدمعاش) ڈالو ایک پلسیا بنے اور سو پلسیا ڈالو، سالا ایک کوچ وان بنے۔ میں سب جانوں۔ ارے وہ بھڑوا بھی کوئی مرد ہووے جو جنانی کی ٹھکائی نہ کرے۔ تیں مجھے جو رو کا گلام بناوے؟“
جوش میں اُس کی سانس پھولنے لگتی۔ قدرے توقف سے پھر اپنے شوہری نسخہ ہائے کیمیا بیان کرنے لگتا۔
”عام سکل (شکل ) کی جورو کو دن ماں ایک بار ماروتو کھوبصورت کو دوبار۔ ارے جلیخی کو تین بار ماروں تو بھی کم ہے۔ سسری ہے ہی بھیڈ کی بھیڈ (بھیڑ کی بھیڑ) اس لیے کبھی پھینٹی لگاﺅں کبھی ناغہ کر دیوں۔“ پھر وہ غصے کے گھونٹ پی کر کہتا۔
”ماماں! منے کِتی بار بولا، تیں ادھر مت آیا کر۔“
زلیخا کو اس بات پر بڑی الجھن ہوتی جب کوئی اسے کہتا کہ وہ خوب صورت ہے۔ وہ سوچتی کہ بس کوڑے کا ڈھیرہوں۔ پھر ہاتھوں کو دیکھ کر کہتی۔ ”ہاں رنگ گورا ہے۔ نین نقش پتا نہیں کیسے ہیں؟ کبھی غور نہیں کیا“۔ پھر خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتی۔ ”جیسے بھی ہیں، میں نے کوئی رِیندھ کے کھانے ہیں؟ بھاڑ میں جاویں۔“ فارغ اوقات میں وہ چارپائی پر پڑی ہوتی تو دُھلے ہوئے لٹھے کی طرح جیسے کوئی ایسا مردہ جو زندگی میں گورا چٹا رہا ہو لیکن مرنے سے قبل کسی حادثے کی وجہ سے اس کے بدن میں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچڑ گیا ہو۔ وہ زندہ تھی بھی نہیں۔ کب کی مرچکی تھی۔ شاید بہت سی گالیاں ٹھڈے تھپڑ اور چھانٹے اس کے مقدر میں لکھے تھے جو ابھی اس نے پھمن کی وساطت سے وصول کرنے تھے۔ جس وجہ سے اس کا بے روح بت کمرے میں چلتا پھرتا رہتا۔ اُسے اِس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ اِس بہت بڑے شہر میں موجود ایک کمرے کے گھر کے باہر بہت بڑی دنیا آباد ہے۔ نہ ہی اُس کی کوئی واضح خواہشات تھیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ چاہتی تھی کہ بچوں کو پیٹ بھر کے کھانا مل جائے اور اس کی مار کٹائی زرا کم ہو یا یہ کہ پھمن چھانٹے سے نہ مارے۔ اُس کا چھانٹا بڑا ظالم تھا۔ بید کی چھڑی کے آگے چمڑے کی لمبی باریک آپس میں گندھی ہوئی رسیاں لگی ہوئی تھیں۔ وہ اپنے گھوڑے کو چھانٹا مارتے ہوئے گھماتا زیادہ تھا لیکن ضرب لگانے کی بجائے پیٹھ پر رکھ دیتا۔ جب کہ گھر میں چھانٹا گھماتا تو شوں شڑپ ٹکادیتا۔ جس روز صبح یا دُپہر اِس کے بدن پر تین چار چھانٹے پڑجاتے، سارا وقت جلن ہوتی رہتی۔ حبس اور گرمی میں چارپائی پر لیٹی ہوتی تو مساموں سے پسینے کے قطرے پھوٹنے لگتے۔ جِلد سے چپکی ہوئی میل گھل جاتی۔ چھانٹوں سے پڑے نیل یوں دکھنے لگتے جیسے ان پر نمک یا تیزاب لگادیا گیا ہو۔ اس کے کپڑے بدن سے چپک جاتے اور لمبے گھنے بالوں کی جڑوں میں پسینے کے سیلاب سے جوئیں پریشان ہوکر کھوپڑی میں گھسنے کی کوشش کرنے لگتیں۔ زلیخا اپنے دونوں ہاتھوں کی کنگھیاں کھبڑ کھبڑ بالوں میں چلانے لگتی۔ ٹاٹ کا پردہ ہلتا تو اس کا جی چاہتا، کاش یہ آگے سے ہٹ جائے۔ عقبی دیوار میں نصب شدہ دروازہ چوپٹ کھل جائے۔ روشنی اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کمرے میں سرسراتے پھریں۔ اس خواہش کے بیدارہوتے ہی تصور میں کھو جاتی اور یوں محسوس کرنے لگتی کہ وہ کسی گھنے سایہ دار درخت کے نیچے کھلی فضا میں سوتر سے بنی کھاٹ پر سوئی ہوئی ہے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کے بدن سے مس ہورہے ہیں، جس سے اس کے جسم و جان میں راحت اور سکون رچ گیا ہے۔ ایسے لمحات میں وہ سچ مچ ہی سو جاتی اور تب اٹھتی جب پھمن اس کی کھاٹ کو چھانٹنے کی سوٹی سے ضرب لگاکر کھٹاک کی آواز کے ساتھ ڈانٹتا۔
”ابے سالی!بھنگ کا نسہ تو نہیں کرنے لگی۔ یوں بے کھبر(خبر) سووے ہے۔ جو کبھی کوئی لفنگا ماں کا یار اندر گھس آوے تو پھر؟ تیں ایک نہ ایک روج (روز) کسی کو میرے سے قتل کرا دے گی۔ سسری! منے کھاہ مکھاہ کوٹھی لگ جاوے گا۔“ (خواہ مخواہ پھانسی چڑھ جائے گا)
نہ جانے اُس کا نام کیا تھا اور وہ کون تھی۔ سارے کوچ وان اُسے لیڈی کہتے تھے۔ وہ کالے رنگ کا ریشمی برقع اوڑھے ہوتی۔ گورے پاﺅں میں کالے چمکیلے سینڈل؛ ہاتھوں کی جلد انتہائی اجلی اور ملائم؛ ایک ہاتھ میں ڈائری اور بڑا سا پرس؛ چہرے پر آنکھوں کے نیچے تک باریک سا نقاب اس نفاست سے دونوں کانوں کے اوپر برقع میں اُڑسا ہوتا کہ بڑی بڑی آنکھیں اور بھی نمایاں اور سحر انگیز لگتیں۔ جسمانی خدوخال کی موزونیت اور جاذبیت کا یہ عالم تھا کہ برقع مجبورِ محض ہو کے رہ گیا تھا۔ سراپے سے اٹھتی ہوئی بھینی بھینی مہک اک کیف سا طاری کردیتی۔ پھمن جی جان سے فریفتہ ہوچکا تھا لیکن اُس کی ظاہری معاشرتی حیثیت، رکھ رکھاﺅ اور حسن کی سحر کاری سے اس قدر مرعوب تھا کہ اسے اپنے جذبات کے اظہار کا حوصلہ تھا اور نہ ہی سلیقہ۔ تاہم جب وہ اس کے تانگے کی عقبی نشست پر بیٹھتی تو توازن برقرار رکھنے کے لیے پائے دان پر کھڑا ہونے کی بجائے اگلی نشست پر پوری طرح ٹیک لگا کے بیٹھتا تا کہ حتی الامکان نزدیک ہوسکے۔ وہ اپنے دل کی باتیں گھوڑے سے کرنے لگتا۔
”چل اوئے میری جان! آج اُڑالے چل پریاں کے دیس ماں۔“
شروع شروع میں چند ایک بار پھمن نے کرایہ لے لیا۔ بعد میں جب بھی لیڈی نے کرائے کی رقم آگے بڑھائی تو اس نے فوراً کہا۔
”اجی سرمندہ نہ کریں۔ آپ پر حلال مجھ پہ حرام۔“ باریک پردے کے پیچھے وہ ایک دل آویز مسکراہٹ بکھیرتی اور تانگے سے اترجاتی۔ وہ ہر ہفتے، سنیچر کے روز پچھلے پہر اسٹیشن سے صدر اور دوسرے روز اتوار کو پہلے پہر صدر سے واپس اسٹیشن آتی۔ یوں تو پھمن مُشتے از کوڑا کرکٹ ہی تھا لیکن اب کچھ عرصے سے سنیچر کو دُھلی ہوئی چار خانے کی دھوتی اور صاف سلوکا پہننے لگا۔ پاﺅں میں اپنے گھوڑے کے نتھنوں جیسے سوراخوں والے کالے ربڑ کے سلیپر دھو کے سجا لیتا۔ رگڑ کے داڑھی منڈواتا تو چھلے ہوئے آلو کی طرح لگتا اور الٹی مانگ نکالتا۔ اُس روز ریڈ لیمپ کی بجائے ہتھوڑا مارکہ سگریٹ کا پیکٹ خریدتا۔ خوش بو والا پان کلے میں دبائے گنگناتا پھرتا۔ ”بین نہ وجائیں منڈیا میری گت سپنی بن جائے دی۔“ کچھ اضافی خرچ ہوجانے کے باعث اُس روز ٹھیکے دار کے اڈے پر جوا بھی نہ کھیلتا۔ لیکن گھوڑے کی قسط ٹھیکے دار ضرور وصول کرلیتا خواہ اسے گھوڑے کی راسوں میں ہاتھ ڈالنے پڑ جاتے۔ وہ یہ بھی لحاظ نہ کرتا کہ تانگے میں کوئی مریض یا زنانہ سواریاں بیٹھی ہیں۔ وہ چرس اور جوئے میں ایک آنے کا ادھار نہ کرتا۔ لین دین کے معاملات میں ٹھیکے دار اپنے وضع کردہ اصول و ضوابط پر بڑی سختی سے کاربند تھا۔ وہ کہا کرتا کہ کسی کے گھر میں آٹا ہو یا فاقہ؛ وصولی کے معاملے میں رعایت نہیں ہوسکتی۔ بقول اُس کے وہ چار آنے کا بزنس کرتا تھا۔ مثلاً تانگا اسٹینڈ کی کمیشن چار آنے فی پھیرا؛ چرس فی گولی چار آنے؛ فلاش کھلاتے ہوئے چار آنے؛ اڈے کی کاٹ فی بوڑ؛ جوئے خانے میں چار آنے کی کپ چائے۔ جب کسی غریب یا مجبور کوچ وان کو گھوڑا تانگا یا ان دونوں میں سے کوئی ایک چیز قسطوں پر خرید کردیتا تو ایک رُپے پر چار آنے زائد منافع وصول کرتا۔ یعنی ہر مال ملے گا چار آنے میں۔
پھمن نے کافی (بہت) دنوں سے ایک رُپے والا لاٹری کا ٹکٹ خرید رکھا تھا جس پر پانچ ہزار رُپے کا انعام نکلتا تھا۔ جوں جوں لیڈی، پھمن کے حواس پر چھاتی گئی، اس نے دن میں کھلی آنکھوں سے سپنے دیکھنے شروع کردیے۔ وہ دیکھتا کہ پینٹ بوشرٹ میں ملبوس ایک ہاتھ جیب میں؛ دوسرا لیڈی کے ہاتھ میں؛ منہ میں پاسنگ شو کا سگریٹ؛ کبھی باغوں میں گھوم رہا ہے تو کبھی کسی سینما ہاﺅس کے باکس میں ایک ہی صوفے پر لیڈی کے ساتھ بیٹھا فلم دیکھ رہا ہے۔ تصوّر کے گھوڑے پر سوار وہ ایسی ایسی خوش نما وادیوں کی سیر کرنے لگا کہ سر خوشی اور سرشاری سے چور چور ہو گیا۔ زلیخا کے خیال ہی سے اسے گھن آنے لگی۔ وہ بڑ بڑانے لگتا: ”کیسی مردار بیوی ملی ہے؛ کوئی جوش نہ ولولہ؛ یوں جیسے وہ زندگی نہیں گزار رہی بلکہ زندگی اسے گزار رہی ہے۔“
آج آخری پھیرا اٹھانے کے بعد وہ اڈے پر گیا۔ ٹھیکے دار کو گھوڑے کی قسط ادا کی۔ دو گولیاں چرس کی خریدیں۔ پہلے وہ دو اڑھائی رُپے گھر کے خرچ کے لیے بچا کر بقیہ رقم سے فلاش کھیلا کرتا تھا۔ آج لیڈی کی محبت کا نشہ سوایا تھا۔ پھر اسے یقین تھا کہ دوسرے روز صبح آٹھ بجے لاٹری کی قرعہ اندازی ہونی ہے۔ پانچ ہزار رُپے اسے کمپنی کے اعلان کے مطابق نقد مل جانے ہیں اور پھر کل ہے بھی سنیچر کا دن۔ پچھلے پہر لیڈی سے ملاقات بھی ہونی ہے۔ گویا دوسرے دن کا سورج اس کی زندگی میں ایک انقلاب لے کر آرہا تھا۔ وہ ترنگ میں سارے پیسے ہارگیا۔ گھر میں آٹا بھی ختم تھا۔ وہ سبزی آٹے کے بغیر ہی گھر جاکے سوگیا۔ صبح اپنے وقت پر اٹھا۔ بیت الخلا سے نکل کر گھوڑا جوتنے لگا۔ جب چھانٹا لینے اندر آیا تو زلیخا نے ناشتے کے بارے میں استفسار کردیا۔ وہ زہرخند سے بولا:
”ارے جہر (زہر) کھالے کھد ( خود ) بھی اور سالے پلوں کو بھی کھلا۔ سسری ناستا مانگے ہے۔“ وہ ڈرتے ڈرتے بولی۔ ”بچوں کے لیے لادو، مجھے نہیں چاہیے۔“ وہ سیخ پا ہو گیا اور چیخا۔ ”ارے نہیں مرتے یہ کنجری کے بچے…. سالی بک بک کرے جا رہی….“ (قدرے توقف سے ) …. ”ہائے ری تقدیر! کیسی کیسی حوراں جیسی لڑکیاں مریں پھمن پر اور یہ دیکھ سالی بگی چچڑ۔ مردار کہیں کی؛ مجھے ٹی بی لگ گئی۔“ زرا مزید تکرار بڑھی تو اس مرد کے بچے نے چار پانچ چھانٹے شوں شڑپ زلیخا کی پیٹھ پر جھاڑ دیے۔ بچے رونے لگے تو نکلتے ہوئے ایک ایک بطور ناشتا انھیں بھی رسید کردیا۔
لاٹری والی کمپنی کے دفتر پر تالے پڑے تھے۔ سیکڑوں لوگ وہاں کھڑے شور مچارہے تھے کہ فراڈ ہوگیا۔ پھمن نے یہاں اپنی گالیوں کا فِلتھ (Filth) اَن لوڈ کیا۔ اُسے غصہ آرہا تھا کہ صبح ہی صبح زلیخا متھے لگ گئی؛ سالی سے منہ ماری ہوگئی۔ منحوس نے پانچ ہزار رُپے کا نقصان کرا دیا۔ پہلا پھیرا لے کر اسٹیشن پہنچا تو چائے رس کا ناشتا کرنے لگا۔ اسی دوران اس نے بڑی گہری سوچ بچار کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لیڈی اس سے پیسے کے لیے تو محبت کرتی نہیں؛ ویسے ہی مرتی ہے۔ پھر اس نے خود ہی سوال کیا، ”کیا اُسے معلوم نہیں کہ میں ایک معمولی کوچ وان ہوں؟“…. ”بے سک بے سک۔“ وہ اس جواب پر نہال ہوگیا۔ نتیجتاً اُس نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ بغیر زاد راہ، محض اپنے خالص جذبات کے بول بوتے پر محبت کے نئے سفر کا آغاز کردیا جائے تاکہ عشق کی نئی منزل پر جلد از جلد پہنچ کر اس کے جملہ ثمرات سے فیض یاب ہوا جاسکے۔ اس نے آج ہی لیڈی سے صاف صاف بات کرنے کی ٹھان لی۔ دُپہر کو پھمن گھر نہیں گیا۔ اسٹینڈ کے عقبی حصے میں نیم کے درخت تلے گھوڑے کو کھول کر اِس کی پیٹھ اور گردن پر تھاپڑے مارے، تھوڑا سا کھریرا لگا کر بڑے پیار سے ہاتھوں کے ساتھ مالش کی؛ ماتھے پر سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی سے مساج کرتے ہوئے اس کے ساتھ دھیمے لہجے میں پیار بھری باتیں کرنے لگا۔
”دیکھ بے سالے! آج پھمن کی لاج رکھیو۔ سسرے! پھولاں جیسی لیڈی اپنے ساتھ بیٹھی ہووے تو تیری مرلیا یوں باجے جیسے بیس من بوجھ لدا ہو۔ مجھے سرم آوے…. اے میرے باپ! سبک چلاکر؛ نیوں جیسے کوئی ہوا میں تیر رہا ہووے۔“ گھوڑے نے اپنے الف کھڑے کانوں کا رخ اس کی جانب کرکے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھرڑ کا مارا جیسے اس کی ساری باتیں غور سے سن کر پلے باندھ لی ہوں۔ پھمن مطمئن ہو کر مڑا ہی تھا کہ گھوڑے نے بڑی سر میں ہنہنا کر اسے متوجہ کیا۔ پھمن کو بھی جیسے کوئی بات یاد آگئی؛ وہ مسکراکے بولا۔ ”ہاں لاٹ صاحب!!! اب چسکی بھی لگاوے گا….اچھا پھر لے بھائی۔“ پھمن ڈبل سگریٹ سلگا کر اس کے سامنے بیٹھ گیا اور لمبے لمبے کش لے کر دھواں گھوڑے کے نتھنوں پر چھوڑتا رہا۔ سگریٹ سلگتے سلگتے اتنا رہ گیا کہ جن دونوں انگلیوں میں دبا رکھا تھا ان کے ناخنوں اور ہونٹوں پر اتنی جلن محسوس ہونے لگی کہ مزید کش لگانا ممکن نہ رہا۔ گھوڑے نے دونوں کان ڈھیلے چھو ڑ کر گردن جھکالی۔ پھمن نے توبڑا اس کے تھوتھ پر چڑھایا اور خود مست چال چلتا ہوا نیو ماڈرن کراچی زلف تراش و گرم حمام میں گھس گیا۔
حسب ِتوفیق میک اپ کے ساتھ وہ اسٹیشن پہنچا تو ساتھی کو چ وان اسے دیکھ کر ہنسے جارہے تھے اور رنگ رنگ کے فقرے کس رہے تھے۔ وہ کسی کی بات کی طرف دھیان ہی نہیں دے رہا تھا۔ دراصل ماضی میں جب بھی وہ ایک نئے عزم کے ساتھ کسی کے ساتھ بھڑا؛ نتیجہ ہر بار یہی نکلا کہ پھمن پٹ گیا۔ آج چوں کہ ویسے بھی وہ ذہنی طور پر خود کو کوچ وان برادری سے خارج کرچکا تھا، اس لیے وہ کسی بھی ”گھٹیا“ شخص کی بات کا جواب دینے کا روا دار ہی نہیں تھا۔ جونھی لیڈی اسٹیشن کی سیڑھیاں اترتی دکھائی دی، بیش تر کوچ وانوں نے بندروں کی طرح دانت نکوس کر ایک دوسرے کو متوجہ کیا اور دینو نے ہانک لگائی۔ ”چل اوئے پھمنا! تیری بے بے آئی آ….لیڈی تانگے میں بیٹھ چکی تو کسی نے سر نکالی۔ ”قسمت والیاں نے بالو تانگے تے بہائی ہوئی آ۔“
راستے میں پھمن نے اپنی چندھی آنکھوں میں سے دُنیا جہان کی مدھ اور مستی انڈیلتے ہوئے، پان کی پیک میں ڈوبے چھوٹے چھوٹے گھسے ہوئے کالے دانت نمایاں کرکے اپنا مدعا بیان کردیا۔ لیڈی اس کا الجھا ہوا مہمل سا جملہ سن کر خود الجھ گئی۔ پھر کچھ سمجھ کر توقف سے بولی: ”پھمنا! تمھارا تانگا گھوڑا کتنے کا ہے؟“
پھمن سینہ پھلا کر بولا۔ ”اَجی کم اَج کم؛ کم اَج کم، دو ہجار دو سو رُپے کا ہوگا۔“ وہ مسکرا کر بولی:
”ابے زنخواہ! چرس پی اور موج کر…. میں جس دوست کو ملنے آتی ہوں وہ ایک وقت میں مجھ پر ہزار رُپے خرچ کرسکتا ہے۔ کوئی دو لاکھ کی کوٹھی میرے نام کر رکھی ہے…. چڈاگل خیرو۔ میرے چندا! خواب دیکھنے چھوڑ دے۔ یہ لے سو رُپیا، میری طرف سے اپنی بیوی کے لیے کوئی تحفہ لے کر جانا۔ جھڈو کہیں کے۔“ اُس نے سو رُپے کا ایک کنوارا نوٹ پرس سے نکال کر اس کی آنکھوں کے سامنے نچایا اور اس کے سلوکے کے گریبان میں اُڑس کر ایک شانِ بے نیازی سے مسکرا کر پھر بولی:
”تمھارے اب تک بیالیس رُپے بنتے ہیں۔ کبھی اور ضرورت پڑی تو بلاجھجک مانگ لینا۔“
پھمن نے کئی مرتبہ ماریں کھائی تھیں۔ پولیس سے، سواریوں کے ہاتھوں اور اپنے ساتھیوں سے۔ لیکن آج یوں لگا جیسے لیڈی نے اُسے بھرے ٹانگا اسٹینڈ پر الف ننگا کرکے بڑی ستھری مار ماری ہے۔ آج اُس نے ایک کی بجائے چار گولیاں چرس کی خریدیں اور قبرستان کے ساتھ درخت کے نیچے تانگا کھڑا کرکے گھوڑے کے آگے راتب کا توبڑا رکھ دیا۔ خود گھاس پر لیٹ کر وقفے وقفے سے ڈبل سگریٹ پینے لگا۔ سگریٹ کا گل لمبا ہوجاتا تو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر جھاڑ کر تبرک کے طور پر زبان سے چاٹ جاتا۔ شاید اس خیال سے کہ کچھ نہ کچھ اثر راکھ میں رہ گیا ہو۔ وہ بہر حال اپنے پیسوں کا پورا نعم البدل وصول کرنا چاہتا تھا۔ آج اسے دل میں افسوس ہونے لگا۔ اُس نے سوچا کہ پہلے تو وہ یونھی زرا اپنی مردانگی کا سکہ جمانے کے لیے بیوی کو مارتا تھا لیکن آج سالی لیڈی نے خواہ مخواہ بے چاری کی پٹائی کرادی۔ لیڈی کا خیال دل میں آتے ہی بڑ بڑانے لگا۔
”ہت تیرے کی سالی۔ بڑی لیڈی بنی پھرے۔ کنجری۔ ارے تیری ایسی پوساک (پوشاک) میری جلیخی پہنے تو پری لگے۔“ پھر وہ لیڈی کے اعزاز میں اپنی گالیوں کا خزینہ لٹانے لگا۔ جب تھک گیا تو ماضی قریب ترین کی اپنی تشنہ تکمیل خواہش کی تشفی کے لیے اپنے گھوڑے کو بھی ملوث کرلیا۔ تب کچھ مطمئن ہوگیا گویا اہم مقدمہ لڑنے کے لیے کوئی مناسب وکیل کرلیا ہو۔
گھوڑا توبڑے میں تھوتھنی گھسیڑے راتب کھاتے کھاتے ایک لمحے کے لیے اپنے مالک کو تکتا اور لمبی سی پھررر کی آواز برآمد کرتا۔ پھمن کو یوں محسوس ہوتا جیسے گھوڑا کہہ رہا ہو۔ ”درفٹے منہ پھمنا۔“
پھمن نے اُسے بری طرح ڈانٹ دیا تو گھوڑے نے زور دار آواز میں ہنہنا کر اُسے مزید طیش دلائی۔ پھمن نے سمجھا جیسے گھوڑا کہہ رہا ہو۔
”چڈا گل خیرو؛ میرے چندا؛ چرس پی اور موج کر۔“
پھمن کو گھوڑے کی اِس حرکت پر غصہ آگیا اور اُس کو ماں کی گالی بک دی۔ گھوڑے نے گالی کا جواب گالی میں دینے کی بجائے تھوتھنی اُس کی طرف بڑھا کر ہونٹھی وا کی اور اوپر والا ہونٹ پورے کا پورے اٹھا دیا۔ چنے اورچھلکے کے آمیزے سے لب ریز دانتوں کی نمایش کر ڈالی۔ گویا وہ اپنے مالک کا منہ چِڑا رہا ہو۔ پھمن گھوڑے کی گستاخی پر سیخ پا ہوگیا اور اُسے اونچی آواز میں گالیاں بکنے لگا۔ گھوڑے نے شرمندہ ہو کر پھر سے توبڑے میں منہ گھسا لیا اور کڑک کڑک کرنے لگا۔ بمشکل دو ہی ڈبل سگریٹ پیے ہوں گے کہ پھمن کے حواس مختل ہوگئے اور وہ تحت الثریٰ میں اترنے لگا۔
زلیخا آج صبح والی مار پر اتنی دل گرفتہ نہیں تھی، جتنی اپنے بچوں کی بھوک پر رنجیدہ تھی۔ وہ پھمن کے ظلم برداشت کرتی رہی تھی کہ اس کے بچوں کو صبح چائے رس اور دن رات کا کھانا مل جایا کرتا تھا۔ جب دن کو بھی پھمن گھر نہ آیا اور کھانے کو کچھ نہ پکا؛ بچے بلکنے لگے تو زلیخا کے خالی بت میں ایک روح نے جنم لے لیا۔ اُسے قطعاً پروا نہ رہی کہ راجپوتوں کی بہو بے پردہ ہونے جارہی ہے اور نہ ہی پھمن کا خوف رہا۔ وہ سیدھی مامے کی دُکان پر آگئی۔ ماماں نوٹ گن رہا تھا۔ زلیخا کو سامنے دیکھ کر کچھ دیر چپ رہا۔ اُس کا چہرہ پڑھتا رہا۔ پھر اُسے موڑھے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ زلیخا نے کہا:
”ماماں بچے بھوکے ہیں‘ کچھ پیسے دے دے۔“ ماماں بولا:
”ارے جلیخاں! تیں پاگل پن چھوڑ دے۔ ارے جالم! آج تیں پھر پٹی اُس کتّے سے۔ میں سب سنوں بیچ والے درواجے سے لگ کے جو تیرے سے بیتے۔“
”ماماں! بچے بھوکے ہیں، کچھ پیسے دے دے۔“ زلیخا پھر بولی۔ ماماں نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے صبر کی تلقین کی اور خود اپنی بات جاری رکھی:
”اَری بھاگ چل میرے ساتھ۔ میرے پلے اِتّے رُپے ہیں کہ تیں سوچ بھی نہ سکے۔ تمام جندگی عیس (عیش) کرے گی۔“
”ماماں!تیں کچھ دے گا بھی یا میں جاﺅں؟ بچے بھوک سے تڑپ رہے۔“ اُس کی جان بس بچوں کی بھوک میں اٹکی ہوئی تھی۔ وہ ایک ہی بات دُہراتی رہی۔
ماماں نے چند نوٹ اُس کے ہاتھ میں تھمائے۔ اُسے گھر چلنے کو کہا اور بتایا کہ وہ خود روٹی لے کر اُس کے پاس آ جائے گا۔ زلیخا گھر لوٹ گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں ماماں بہت سی تندوری روٹیاں ڈھیروں قیمے کی تلی ہوئی ٹکیاں، کباب اور چٹنی اخبار میں لپیٹ کر لے آیا اور بچوں کے آگے رکھ کر بولا:
”جلیخاں! منے دُکان کب کی بیچ رکھی۔ رقم میرے کھیسے ماں پڑی۔ میں رات ملتان جا رھیا۔ منے وہاں مکان اور دُکان کھرید رکھی۔ تیں جو دماغ سے سوچو تو ابھی روٹی پانی کھاپی کے اڈے پر چلو۔ میں دُکان کی چابی حوالے کرکے ابھی سیدھا اُدھر پہنچا۔ اگر تیں اُدھر اڈّے پر ہوئی تو اکٹھے چلیں گے۔ نہیں تو بھائی اَپن اکیلے ہی جاویں گے۔“
نکلتے نکلتے رک کر پھر بولا: ”تیرا وہ چرسی کھوند قبرستان میں مردار کی تریا پڑ رھیا سسرا۔ منے کھد اپنی انکھیاں سے دیکھا۔“ ماماں باہر نکل گیا۔ بچے ندیدوں کی طرح کھائے جارہے تھے اور زلیخا جلدی جلدی کچھ کپڑے سمیٹ کر ایک ٹرنک میں ڈالنے لگی۔
لاری اڈے پر زلیخا ماماں سے بولی:
”ماماں! اگر تیں کبھی میرے بچوں کو مارا یا پیٹ بھر کے کھانے کو نہ دیا تو یاد رکھ، مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ ابھی سوچ لے۔ میں پھمن کے گھر لوٹ چلوں۔“
ماماں مسکراتے ہوئے بولا:
”ارے پگلی! میں کیوں ماروں گا اِن مسوماں (معصوموں) کو؟ لے تیں ابھی ساری رقم پاس رکھ لے۔“ وہ سلوکے میں ہاتھ ڈالنے لگا تو زلیخا نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔

پھمن تھانے میں دُہائی دے رہاتھا۔ ”رے میں لٹ گیا۔ میرا گھر اُجڑ گیا۔ کوئی میری ارج ( عرض ) سنو۔“ شاہ سوار دونوں کندھوں پر ایک ایک پھول سجائے اُس کے سامنے پہاڑ بنا مسکرا رہا تھا۔ اُس نے طنزیہ انداز میں پھمن سے استفسار کیا: ”اچھا بتا، تیرا سونا کتنا لے گئی اور نقد رقم؟“
پھمن روکے بولا: ”ہجور! وہ مجھ سے دھوکا کر گئی؛ میری جورو تھی۔ دل کی رانی۔ بے وفائی کرگئی۔ میں کیا بولوں۔ وہ میری ساری کھدائی (خدائی) لے گئی۔“
شاہ سوار نے اُس کے سلوکے کی جیبیں ٹٹولیں تو چرس کی گولیاں برآمد ہوئیں۔ گولیوں کو گھما پھرا کر دیکھا اور اُس کے بالوں میں ہاتھ کی انگلیاں پھنسا کے ایسا جھٹکا دیا کہ پھمن کے پاﺅں کی انگلیوں تک کرنٹ دوڑ گئی۔ اُس نے درد سے پھریری لی اور ہاتھ جوڑ کر التجا کی: ”سرکار! میں پھریادی (فریادی) ہوں۔ کچھ ترس کرو۔“
شاہ سوار نے جواباً کہا: ”بجو کی اولاد! یہ جتنی تو چرس پیتا رہا ہے، اپنی بیوی کو کچھ کھلایا پلایا ہوتا تو مکھن ملائی جیسی رن تھی؛ وہ حور آج بھی تیرے پاس ہوتی۔“ قدرے توقف سے اُس نے پہلا تھپڑ پھمن کے سیدھے گال پر جڑ دیا اور ابھی وہ سنبھلا ہی نہ تھا کہ دوسرا اُلٹے گال پر۔ پھمن زمین پر ڈھیر ہوگیا۔ شاہ سوار کے بارے میں مشہور تھا کہ اُس کا دوسرا تھپڑ کھا کے کوئی اپنے پاﺅں پر کھڑا نہیں رہتا۔ پھر اُس نے گرج کر پوچھا۔ ”بول اوئے تیری….اصل بات کیا ہے؟“
پھمن کا بدن بری طرح لرزنے لگا۔۔ شاہ سوار نے اُسے بالوں سے کھینچ کر ایک جھٹکے سے کھڑا کیا۔ خوف سے اُس کے گھٹنے بج رہے تھے۔ چارخانی دھوتی کھل کر نیچے گر پڑی اور شر شر پیشاب بہہ کر کچی زمین پر گرنے لگا۔ شاہ سوار نے ایک اور تھپڑ مارنے کو ہاتھ بلند کیا ہی تھا کہ وہ گھگیا کر نیچے خاک و بول کے آمیزے پر لوٹ لگانے لگا۔ وہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔ خوف اور دہشت سے اُس کی حالت مخدوش ہوگئی تو پاس کھڑا کانسٹیبل فکر مند ہوکر بولا۔ ”شاہ جی! جنانی کسی یار کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔“
شاہ سوار نے اپنے پاﺅ پاﺅ بھر کے لال لال ڈیلوں سے پپوٹوں کے غلاف یک سر نوچ ڈالے اور سپاہی پر گرجا: ”بھونک نہیں اوئے کتّے!…. پورا سال میں نے ٹرائی کرلی اُس پر؛ وہ مجھ سے نہیں پھنسی…. پتھر پر لکیر ہے وہ رن بدمعاش نہیں…. اس ماں کے یار نے کہیں خود بیچ دی ہے یا جوئے میں ہار گیا ہے۔ اب کنجر کی نسل شاہ سوار شاہ کو چکر دے رہا ہے۔“ کانسٹیبل سہم کر چپ ہوگیا۔
شاہ سوار بپھرے ہوئے ببر شیر کی طرح دھاڑا اور الٹا ہاتھ پھمن کی گدی پر رکھ کر سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی اس کی ٹھوڑی کے نیچے جمائی تو پورے سوا فٹ لمبے ہاتھ نے اُس کے شاہ دولہ کے چوہے جیسے سرکو آہنی شکنجے کی طرح اپنی گرفت میں کس لیا۔ دوسرے ہی لمحے شاہ سوار نے پھمن کو ہوا میں معلق کردیا۔ وہ ننگی ٹانگوں سے تیز تیز سائیکل چلانے لگا۔ چند ہی لمحے گزرے ہوں گے کہ پھمن یوں پھڑ کنے لگا جیسے شیر کے پنجے میں خرگوش۔ شاہ سوار نے دیو کا سا ہاتھ زرا اور اونچا کیا اور آگے کی طرف جھٹکا دے کر واپس کھینچ لیا۔ پھمن اسی لمحے دھڑام سے نیچے آرہا۔ شاہ سوار نے قدرے توقف کرکے اپنے تئیں کچھ اطمینان کرلیا اور اگلے مرحلے پر ہاتھی جیسا پاﺅں پھمن کے جسم پر ایک ایسی جگہ رکھ کر زرا سا دبایا کہ وہ مرد کا بچہ زندہ بچ بھی رہتا تو مستقبل میں اپنی کسی بھی گالی میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے قابل نہ رہتا۔ وہ دہشت اور اذیت کے پہاڑ تلے دبا ایسی خوف ناک اور دل خراش آواز میں چلاّنے لگا، جیسے ویران سڑک پر تیز رفتار ٹرک آوارہ کتّے کا پچھلا دھڑ ٹائیروں تلے کچل کر نکل گیا ہو۔
شاہ سوار نے پاﺅں اٹھالیا۔ دونوں ہاتھوں کوجوڑ کر بلک بلک کے فریاد کرنے لگا:
”ہجورمائی باپ! ماف کردو۔ منے کھنجیر نے کھد نیک بخت کو گھرسے نکالا۔ آپ سچ بولو، وہ بھاگی نہیں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments