امیر صاحب تو بس پبلک ڈیمانڈ پر چلتے ہیں


\"\"

شدید گرمی میں امیر صالح ترین صاحب صبح گھر سے نکلے تو پان والے کی دکان پر پہنچے۔ انہوں نے گرمی سے ہلکان لوگوں کو دیکھ کر بیان دیا کہ ’ہماری حکومت آتے ہی سب کو سرکار کی طرف سے ٹھنڈی کوکا کولا مفت پلائی جایا کرے گی‘۔

آگے چوک پر امریکہ کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا اور امریکی اشیا کے بائیکاٹ کے بینر لگے ہوئے تھے۔ امیر صالح ترین صاحب نے خطاب کیا ’کوکا کولا کی ملک میں فروخت پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور اس کی بجائے عوام کو دیسی ستو پلائے جائیں‘۔

وہاں سے تندور پر پہنچے تاکہ کھانا کھا سکیں۔ وہاں لوگوں کو لائن میں لگے دیکھ کر بیان دیا کہ ’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ عوام کو سستی روٹی دی جائے اور روٹی کی قیمت آدھی کر دی جائے‘۔

اس سے آگے نکلے تو نانبائی ایسوسی ایشن کا جلسہ ان کا منتظر تھا۔ گرج ہی تو پڑے ’حکومت نے روٹیوں کی قیمت اتنی کم کر دی ہے کہ نانبائیوں کے لئے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا ہے۔ حکومت نے روٹیوں کی قیمت ڈبل نہ کی تو ہم دھرنا دیں گے‘۔

آگے چلے تو ایک میلہ سجا ہوا تھا اور کچھ نوجوان ڈھول باجے بجا رہے تھے اور دوسرے دھمال ڈال رہے تھے۔ فوراً بول پڑے کہ ’ہمیں اپنی ثقافت پر فخر کرنا چاہیے اور غیر ملکی تہواروں کی بجائے اپنی دیسی ثقافت کو ایسے ہی فروغ دینا چاہیے‘۔

کچھ دیر بعد یونیورسٹی کے جلسے میں یوں گویا ہوئے ’ہماری نئی نسل رقص و سرود کے چکر میں پڑ کر برباد ہو رہی ہے۔ رقص و موسیقی شیطان کا کام ہے۔ اس پر مکمل پابندی عائد کی جائے‘۔

شدت پسندی پر سیمینار ہو رہا تھا۔ کہنے لگے کہ ’جس شخص کو دیکھو وہ مسلکی اختلاف کو برداشت کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ فوراً ہتھیار اٹھا کر دہشت گردی کرتا ہے اور اسے جہاد کا نام دے دیتا ہے۔ حالانکہ اسلامی اصول یہ ہے کہ جہاد کا اعلان فرد نہیں بلکہ صرف ریاست کر سکتی ہے‘۔

اگلا جلسہ حکومت کے خلاف تھا۔ ببانگ دہل کہا کہ ’جب ایسی منافق اور ریاکار حکومت ہو جو کہ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود برما اور اسرائیل کے مظالم چپ چاپ دیکھتی رہے، افغانستان میں امریکی فوج کا ساتھ دے، تو پھر دینی غیرت و حمیت رکھنے والے نوجوانوں کو اس پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہتھیار اٹھا کر طاغوت کا خود ہی مقابلہ کرنے نکل کھڑے ہونا چاہیے‘۔

شام کو چند ترکوں کا سجایا ہوا جلسہ تھا جس میں ترک صدر ایردوان کی شخصیت پر انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’صدر ایردوان نے کہا ہے کہ روسی سفیر کو قتل کرنا ترکی اور ترکوں پر حملہ ہے۔ ہم ترکوں پر اس حملے کو اسرائیل کی سازش سمجھتے ہیں اور اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں‘۔

باہر نکلے اور اپنے دوستوں کی محفل میں پہنچے تو بپھر کر بولے ’جس مجاہد نے روسی سفیر کو جہنم واصل کیا ہے، اس نے ہمارے دلوں میں ٹھنڈ ڈال دی ہے۔ ہر نوجوان کو اسی طرح روسیوں سے حلب کا بدلہ لینا چاہیے‘۔

رات کا کھانا کچھ لبرل احباب کے ساتھ تھا۔ امیر صاحب فرمانے لگے کہ ’ہماری جماعت ہی اصلی لبرل جماعت ہے‘۔
بعد از عشا قریبی مسجد میں محفل درس جمی تو کہنے لگے کہ ’لبرل ملک اور آئین کے غدار ہیں اور اسلام دشمن ہیں‘۔

ایک صحافی صبح سے امیر صالح ترین صاحب کی کوریج کر رہا تھا۔ اس نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ امیر صاحب، آپ صبح سے جو پالیسی بیانات دے رہے ہیں ان میں تضاد کیوں ہے؟ امیر صالح ترین صاحب مسکرائے اور کہنے لگے کہ ’پالیسی بیان تو ہم کبھی دیتے ہی نہیں، ہماری کوئی پکی پالیسی ہو تو پالیسی بیان دیں، ہم تو بس پبلک ڈیمانڈ پر چلتے ہیں‘۔

صحافی نے کہا ’تو پھر پبلک آپ سے خوش ہو کر ووٹ دیتے وقت آپ پر اعتبار کیوں نہیں کرتی ہے جبکہ آپ تو اس کی ڈیمانڈ پر ہی چلتے ہیں؟‘
امیر صاحب آبدیدہ ہو کر بولے ’ہمیں ووٹ کیسے مل سکتا ہے، اس ملک میں کردار کو دیکھتا ہی کون ہے؟‘

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments