یاسر پیرزادہ اور دلیل کا دفاع


\"\"امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ ( Robert Frost ) کی شاعری اپنی Inspirational خوبیوں کی بنا پر انگریزی ادب میں بہت اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ وہ اپنی شہرہ آفاق نظم The Road not Taken میں لکھتا ہے ، ” مجھے زندگی میں دو میں سے ایک راستے کے انتخاب کا موقع ملا اور میں نے ایسے راستے کا انتخاب کیا جس پر بہت کم لوگ چلتے ہیں۔ اور اسی فیصلے نے ایک بہت بڑا فرق ڈال دیا۔ جس کے بارے میں بات کرتے ہوئے میں ہمیشہ بے حد اطمینان محسوس کروں گا۔ “ یاسر پیر زادہ نے کالم نگاری میں ایک ایسے ہی مختلف راستے کا انتخاب کیا ہے جس پر بہت کم لوگ چلتے ہیں۔ یہ دلیل کا راستہ ہے۔ یہ اپنے محسوسات کو بلا خوف و خطر ، بغیر لگی لپٹی رکھے بیا ن کر دینے کا راستہ ہے۔ یہ ضمیر کی آواز کو سننے اور اُسکا من و عن اظہار کرنے کا راستہ ہے۔ یہ راستہ عام روش سے ” ذرا ہٹ کے “ ہے اور یاسر نے اس کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ وہ اپنے اسلوبِ تحریر سے لے کراندازِ فکر تک دوسروں سے مختلف ہے۔ اور یہی وہ فرق ہے جو اُسے دیگر کالم نگاروں سے مختلف ہی نہیں، ممتاز بھی کرتا ہے ۔

یاسر پیرزادہ کی تحریر سادہ اور آسان فہم ہوتی ہے۔ زیبِ داستان اور تصنّع سے بالکل عاری۔ ہلکی پھلکی لیکن مقصدیت سے بھرپور۔ وہ گنجلک اور بھاری بھرکم نثرسے کلیتاً گریز کرتا ہے۔ سیدھے سادھے جُملے ۔ ۔ لیکن کڑی کمان کے تیر جیسے۔ دل میں اُترتے ہوئے۔ وہ فلسفہ نہیں بگھارتا۔ وہ سوال پوچھتا ہے۔ تندو تلخ سوال۔ اُس کا طنز غضب کی کاٹ لئے ہوتا ہے۔ کبھی اس کی زد میں بنیاد پرست، قدامت پسند سوچ ہوتی ہے اور کبھی لبرل اور سیکولر مائنڈ سیٹ ۔ اُس کا کینوس زندگی پر پھیلا ہوا ہے۔ کوئی معاشرتی ناہمواری ہو یا شدّت پسندی، عدم مساوات نظر آئے یا کوئی غیر جمہوری رویہ، نا انصافی ہو یا حقوق کی پامالی، حقائق سے انحراف ہو یا تاریخ کا کوئی مسخ شُدہ باب اُس کا قلم پورے \"\"خُلوص کے ساتھ اُس کے ضمیر کی آواز بن جاتا ہے۔ مصلحت پسندی کبھی اُس کا شیوہ نہیں رہا۔ وہ جسے سچ سمجھتا ہے اُسے ببانگِ دُہل کاغذ پر لاتا ہے۔ وطنِ عزیز میں جب دہشت گردی عروج پر تھی اور ہر طرف خوف کا عالم تھا تو ایسے میں ہمارے کئی سُرخیل قلمکار بھی دبکے پھرتے تھے۔ ان دنوں بڑے بڑے جُغادریوں کا پِتاّ پانی ہو رہا تھا۔ اس دوران دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جو چند آوازیں اُٹھیں اُن میں ایک نمایاں آواز یاسر پیرزادہ کی تھی۔ مصلحت بینی اور جہالت کے اُس پُر آشوب دور میں یاسر نے انسانیت کے ان دشمنوں کو نہ صرف للکارا بلکہ اس پورے عرصے میں کسی خطرے کو پیش خاطر لائے بغیر پوری طرح خم ٹھونک کر میدانِ عمل میں کھڑا اور اپنا مؤقف پیش کرتا رہا۔ خوف اور بے یقینی کے اس دور میں قوم کی درست راہنمائی کرنا بلاشبہ وہ کارنامہ ہے جو ہر کسی کے بس میں نہیں تھا۔ کسی صاحبِ اسلوب اور معروف کالم نگار کے ہاں ایسی جراتِ رندانہ قابلِ تحسین ہی نہیں قابلِ رشک بھی ہے۔ یاد رہے اقبال نے کسی’ فقیہہ مصلحت بیں‘ سے تو ایسے ’ رند بادہ خوار ‘ کو بھی ترجیح دی ہے جو فکرِ سودوزیاں سے بالا ہو کر سچی بات کرتا ہے۔ اُن دنوں جب ایک طرف دہشت گردی کے زخموں سے قومی بدن چور تھا اور دوسری طرف قوم بدترین فکری انتشار، الجھنوں اور مخمصوں میں ڈوبی ہوئی تھی تو یاسر کا قلم پیہم یکسوئی اور کامل تیقّن کے ساتھ قوم کو صحیح سمت دکھاتا رہا۔ اُس کا کینوس تو اُس وقت بھی پوری تصویر دکھا رہا تھا جب کئی لو گ برش پکڑتے بھی ڈرتے تھے۔ اب حالات مختلف ہیں! اب اگر ہم ایسی کئی آوازیں سُن رہے ہیں تو افسوس کے ساتھ ہنسی بھی آتی ہے۔ حضرتِ غالب کا ایک مصرعہ یاد آتا ہے :  ’ وفاداری بشرطِ استواری اصل ایمان ہے‘۔

یاسرطنزو مزاح کی بے پناہ صلاحیتوں اور موروثی خوبیوں کا مالک ہے لیکن اُس کا مزاح اس کے سنجیدہ موضوعات کو متاثر نہیں کرتا۔ \"\"پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اگر مزاح لکھنے پر آئے تو کئی ثقہ بند مزاح نگاروں کو اپنی دکان بڑھانی پڑ جائے ۔ لیکن وہ سنجیدہ تاثر کو ترجیح دیتا ہے۔ اُس کا طنز ذاتیات سے بلند ہوکر منفی سوچ اور نقطہ نظر کو ہدف تنقید بناتا ہے۔ وہ پگڑیاں نہیں اُچھالتا لیکن اُس کا قلم فرسودہ اور غیر حقیقی نظریات و تصورات کے بُت خانوں میں بھونچال پیدا کر دیتا ہے۔ تحریر ہو یا گُفتگو، منطق اور دلیل ہمیشہ اُس کے ہتھیار ہوتے ہیں۔ وہ ایک مسحور کُن شخصیت کا مالک ہے اور اُس کی شخصیت کا سحر اُس کی تحریر میں بھی در آتا ہے۔ اُس سے گفتگو کا مزا آتا ہے ! تحریر ہو یا گفتگو وہ اختلافِ رائے کی قدر کرتا ہے۔ وہ مخالف کی بات کو پوری توجہ سے سُنتا ہے اور اُس کی رائے اور دلائل کو اتنی اہمیت دیتا ہے جتنی شاید وہ خود بھی نہیں دے رہا ہوتا۔ وہ ایک ایسا باکسر ہے جو حریف کو اپنے سارے پنچ آزمانے کا موقع دیتا ہے۔ اوروہ خود بڑی خوب صورتی سے صرف دفاع کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ حریف گمان کرتا ہے کہ شاید وہ جیت رہا ہے۔ پھر اچانک ایک زور دار پنچ حریف کے جبڑے پر لگتا ہے اور وہ ناک آﺅٹ ہو جاتا ہے۔۔۔ یہ دلیل کا پنچ ہے۔۔۔

یاسر کی جمہوریت سے محبت قابلِ تقلید ہے۔ وہ ناقص جمہوریت کا علاج مزید جمہوریت میں دیکھتا ہے۔ وہ مایوس قطعاً نہیں ہوتا لیکن محض خیالی دنیا میں رہنا بھی اُسے ہرگز پسند نہیں۔ بے عملی سے اُسے شدید نفرت ہے اور پیہم محنت اور جہدِ مسلسل پر اُس کا قوی ایمان ہے۔ اُس کا سرکاری عہدہ اُس کی حق گوئی میں مانع نہیں ہوتا۔ اُس کا شمار اُن ” محبانِ قوم “ میں نہیں ہوتا جو تمام عمر نوکری اور پوسٹنگ ہر  قیمت پر بچاتے رہے لیکن ریٹائرڈ ہوتے ساتھ ہی قوم کا درداُن کو بے حال کرنے لگتا ہے۔ اُس کا جنون اُسے وہ باتیں آج کہنے پر اُکساتا ہے جو ایک” عقل مند“ بیوروکریٹ ریٹائرڈ ہونے کے بعد کہتا ہے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ یہ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ فنونِ لطیفہ کے کسی بہت بڑے آدمی کے بچوں میں سے کوئی اسی صنف میں بڑا مقام حاصل کر سکے۔ یاسر کے والد گرامی جناب عطاءالحق قاسمی بلا شبہ عصرِ حاضر کے کالم نگاروں کے امام او ر ایک نابغہ روزگار شخصیت ہیں۔ یاسر کی دیگر کئی خوبیوں کے ساتھ ایک کمال یہ بھی ہے کہ صحافتی ادب کے حوالے سے اتنی بڑی شخصیت کا بیٹا ہونے کے باوجود اُس نے الگ سے اپنا تعارف اور ایک بڑا مقام حاصل کیا ہے۔

یاسر کے کالم کی تازگی اور خاص انداز قاری کو لُبھاتا ہے ۔ وہ کالم کے آغاز میں ہی قاری کو جکڑ لیتا ہے۔ لوگ اُسے شوق سے پڑھتے ہیں۔ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ دنیا کو خطرہ اُن لوگوں سے نہیں جو اسے نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ اُن سے ہے جو اس پر خاموش رہتے ہیں۔ یاسر ایسی خاموشی کے سخت خلاف ہے۔ وہ خود ایک مجسّم آواز ہے۔ ۔ جمہور اور انسانیت کے حق میں اُٹھنے والی بلند اور موئثر آواز۔ وہ قلم کا حق ادا کر رہا ہے۔۔۔ اُس نے اپنے حصّے کی شمع ہی نہیں، ایسا الاﺅ جلا رکھا ہے جس کی روشنی چار سُو پھیل رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments