پاکستان میں ابلیس کی حتمی شکست


\"\"تلاش کسی کی بھی ہو ، جوکھم اٹھانا پڑتا ہے۔ روزانہ چھے گھنٹے ٹی وی دیکھنے، کہ برقی رو اتنی ہی دستیاب ہے۔ پیہم ٹاک شوز کا مضروبِ سمعی و بصری یہ ماننے پر مجبور کہ عالمِ جن وبشر کی تمام تر شیطانی اور طاغوتی طاقتیں اپنے وطنِ عزیز کے پیچھے پنجے یا دیگر دستیاب اعضا جھاڑ کر پڑی ہوئی ہیں۔ خداجانے قیامِ پاکستان سے قبل اُن کی کیا مصروفیات تھیں، قیاس ہے کہ بے کار ہی بیٹھی ہوں گی، لیکن اب تو وہ اس مملکتِ خداداد کو زک پہنچانے کے لیے ہمہ وقت سرگرمِ عمل، سازشوں کے جال بنتے ہوئے سر کھجانے کی فرصت نہ ہوگی۔ تو ادھر ہم نے وطن حاصل کیا، اُدھر اُن کی بے روزگاری دور ہوگئی۔

ایامِ رفتہ کے کچھ نیزہ باز، شمشیر زن، گرز افگن، قلعہ شکن وغیرہ جو ان بھلے دنوں میں، جب ان افعال کی گنجائش تھی، پیدا ہونے سے بوجوہ گریز کرگئے تھے ، آج عالمِ آب و گلِ نیز میڈیا جدید میں آنکھ کھول کر کالم نگار اور اینکر بن کرگردشِ ایام کا رخ پیچھے کی طرف موڑ کر اپنا کھویا ہوا اسپِ تازی تلاش کرتے رہتے ہیں، کو پڑھنے اور اُن کے لکھے اور کہے کو سچ ماننے کے بعد ہم نے بھی ٹھان لی کہ بہت ہوگئی، اب طاغوتی طاقتوں کو للکارنا پڑے گا۔ ایک دن کمر کسی اور کسی مبینہ طاغوتی طاقت کو ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوئے۔ ادھراُدھر دیکھا،راستے ناپے، گرد چھانی، افراد کو اچھی طرح گھورا، جواباً اُنھوں نے ہمیں بری طرح گھورا، راستے بدلے، لیکن کوئی ایسی دوٹوک طاقت نہ ملی جو طاغوتی ہو اور وطنِ عزیز میں دنددناتی پھرتی ہو۔ تگ و دو جاری، تو اسباب بھی بہم، چنانچہ راستے میں ملاقات ہوگئی مولوی محسن عظیم ردائی سے۔ یہ ملاقات شیڈول میں نہیں تھی ، لیکن جب ہوگئی تو سوچا کہ مشورہ کرنے میں کیا حرج، کیا پتہ جانتے ہوں ۔ پوچھا کہ طاغوت کہاں ملے گا، تو گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔ فرمایا کہ راہِ سلوک میں ایک مقام ایسا بھی آتا ہے جب سالک کو شیطان کی بھی پہچان کرنی پڑتی ہے کہ کہیں وہ جس کی سرگوشیاں اپنے من میں سن کر زمانے سے داد پارہا ہے، یہ وہی اولڈ بوائے تو نہیں؟عرض کی کہ ہم سالک نہیں، مجاہد بن کر شیطانی طاقتوں سے دو دوہاتھ کرنا چاہتے ہیں، تو مسکراتے ہوئے فرمایا، ’منزل شریک سفر کو ہی نصیب ہوتی ہے ‘۔ بات ہو رہی تھی ابلیس کو تلاش کرنے کی تو اگر یہ جوکھم ہے تو خطر پسند طبیعت کو راس آنا چاہیے۔ آپ سوچ رہے ہوں کہ ابلیس کو تلاش کیسے کریں گے؟ آپ ارادہ تو کریں، باقی منزلیں بھی طے ہوجائیں گے۔ اور ویسے بھی” سفر ہے شرط، مسافر نواز بہترے۔“ آپ غلط سمجھے ، یہ شعر سیاسی نہیں ہے۔

اشفاق احمد نے شیطان کوانتہائی پرعزم قرار دیا تھا۔ اردو کے واحد شاعر جن کے لیے لفظ عظیم جچتا ہے ، نے وفاداری بشرط استواری کو اصل ایمان قرار دے کر فیصلہ سنا دیا کہ ”مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو“۔ تو تلاشِ ابلیس کے لیے وفاداری اور عزم شرط ہیں، خلوص لازمی ، یک سوئی درکار ۔ یک سوئی سے یاد آیا، مستنصر حسین تارڑ ”سنہرے الو کے دیس میں “ میں اپنے ایک عمرے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مقاماتِ مقدسہ پر پڑھنے کے لیے کچھ دعائیں بتائی گئی تھیں لیکن بھول گیا۔ چنانچہ وہاں چچا (مرزا نوشہ) کے کچھ شعر یاد آئے تھے، وہی پڑھ ڈالے ، گزارا ہو گیا۔ اقبال نے بھی اکثراوقات ابلیس کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھا ہے ۔ اُن کی مشہور نظم ”جبریل و ابلیس“ چشم کشا ہے ۔ جب جبریل ”ہم دمِ دیرینہ“ سے مخاطب ہوتے ہوئے استدعا کرتے ہیں کہ کیا واپسی کی کوئی گنجائش باقی ہے تو اصولوں کو نجات پر ترجیح دینے والے نے سرا ٹھا کر جواب دیا کہ اُس کی نومیدی سے ہی تو سوزِ درونِ کائنات ہے ۔ اگر وہ سرنہ اٹھاتا تو نہ ذوق و شوق کا نخل پروان چڑھتا، نہ آہ کو رسائی ملتی، نہ آرزو لامکاں کی وسعتوں پر دستک دیتی، نہ کوئی کسی کو وعدہ وعید یاد دلاتا۔

مولوی محسن کی معیت میں خدا خدا کرکے ابلیس تک پہنچے۔ دیکھتے ہی مرعوب ہوئے کہ پیرانہ سالی مگر گمراہ چلبلا پن جلوہ دکھارہا تھا۔ عرض کی کہ اپنی مبینہ طاغوتی طاقتوں کو لگام دیجیے کہ ہمارے وطن عزیز کے درپے ہیں۔ انگلی کا اشارہ کیا، ایک عالم جن و بشر آنکھوں کے سامنے آشکار۔ کوئی جعلی دوائیاں بنا کر مسجد بنا رہا ہے، راشی افسر خیرات میں یکتا ہیں، منشیات فروشی کا ایک حصہ محفل میں بھی جاتا ہے، سرکاری زمینوں پر قبضے کرنے والے پیر کے لاکھوں مرید ہیں، ملاوٹ کرنے اور دونمبر کا مال بیچنے والے مدرسوں کے سرپرست ۔ الغرض نیکی اوربدی کا ایسا امتزاج کہ ”خضر بھی بے دست و پا ، الیاس بھی بے دست و پا“۔ سامنے آنے والے ہر گروہ کی دہشت کے سامنے پرانے گروہ کی دہشت گردی معصومانہ فعل دکھائی دیتی ہے۔ داعش کے سامنے طالبان لبرل اور امن پسند معلوم ہوتے ہیں۔ اس فہرست کا ماضی کافی طویل ہے لیکن کالم اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ابلیس دم بخود، طفلِ مکتب کی طرح حیراں کہ بہکائے تو کسے؟ ناحق چیلنج کربیٹھا تھا ، شکستِ فاش کے احساس سے شرمندہ۔بزدل کہیں کا۔ وہ ناامید ہوچکا تو ہم سوزِ درون کہاں سے لائیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments