باغ عدن سے کالے بکرے کا خط


میرا صدقہ دینے والوں کے نام ! \"\"

میں ہرے بھرے باغوں میں پہنچ گیا۔ کیا جگہ ہے یا ر سچ پو چھو تو یہاں بکروں کی تعداد دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ہے ہی بکروں کے لئے۔ قربانی کے بکرے، سوئم کے بکرے، چہلم کے بکرے ،  گیارویں کے بکرے ، دسویں کے بکرے ، صدقے کے بکرے، عقیقیہ کے بکرے خوشی کے بکرے غمی کے بکرے  مگر میرا جیسا کوئی نہیں  جو ائیر پورٹ  میں کسی جہاز کے پہیوں سے سیدھا یہاں  آیا ہو۔مجھے دیکھ کر پہلے سے موجود تمام بکروں نے  کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا کیونکہ یہاں بھی خشک سالی سے ہریالی کم ہوئی ہے اور خوراک کا مسئلہ درپیش ہے۔ خیر میں تو قومی بکرا ہوں ان کی طرح  میں کسی ایک کا صدقہ تھوڑی ہوں کہ کوئی مجھے نکال دے میں تو سینتالیس کا صدقہ ہوں اور پھر مزید آنے والوں کا  بھی قبل از وقت کا  صدقہ  ہوں اس لئے میری  تو یہاں شان ہی نرالی ہے۔

مجھے یہاں  وہ مسافر  ملے جو چترال سے اپنی منزل کے بجاۓ یہاں پہنچے تھے۔ انھوں نے بڑا گلہ کیا کہ میں اگر پہلے  آتا تو شاید ان کا یہاں آنا کچھ دیر اور معطل ہوجاتا۔   اب یہ میرے بس  کی بات تو  تھی  نہیں کہ میں سیدھے ائیر پورٹ جاکر اپنی سیکورٹی کلیئر کروادیتا اورجہاز کے پہیوں پر لیٹ کر اپنے گلے پر چھری پھیرلیتا۔  میرے لالچی قصائی  مالک کو  جب تک اس کی مرضی کے  دام نہ ملیں  وہ تو مجھے پانی پینے کے لئے بھی جانے نہیں دیتا تھا تو میں بھلا ایئر پورٹ  کے گیٹ پر موجود خونخوار اسلحہ برداروں سے چھپ کر  کیسے اندر چلا جاتا ۔ بھلا ہو پی ۔آئی ۔اے کی انتظامیہ کا جس نے نقد ادا کرکے میری جان  اس منحوس قصائی سے چھڑائی جو آے دن میری شکل دیکھ کر کہتا تھا کہ کوئی بلا آئے کہ میرے دام لگیں۔  آخر خدا خدا کرکے میں بک ہی گیا تو اس نے بھی شکرانے کے نفل پڑھ لئے۔

میں یہاں سب سے ملا، سب خیر خیریت سے یہاں پہنچے ہیں۔ چترال کے ان تین سکول ماسٹروں نے تو یہاں بھی سکول کھول رکھا ہے وہ کہتے ہیں تعلیم کی یہاں بہت ضرورت ہے کیوں کہ یہاں زیادہ تر بکرے ہی پہنچے ہیں جن  کو دنیا میں بھی کوئی تعلیم نہیں دی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ یہاں بھی  صرف میں میں ہی پکارتے رہتے ہیں۔   ان ماسٹروں کا خیال ہے کہ اگر ان کو یہاں تعلیم نہیں دی گئی تو وہ اس کا  بھی حشر سے پہلے ہی    حشر کر دیں گے۔\"\"

پریشان تو جہاز کی ایئر ہوسٹس  بھی  ہے جو  روز صبح ناشتے پر اپنے بچوں کو ڈھونڈتی  رہتی ہے۔ وہ  کہہ رہی تھی کہ اس نے اپنی ڈیوٹی شمال جانے والے جہازوں  پر اس لئے لگوائی تھی کہ شام کو وہ اپنے بچوں کے پاس پہنچ سکے  جن کو اس کی زیادہ ضرورت تھی۔   شایداس کو معلوم ہی نہیں  تھا کہ  پہاڑوں کی بلندی پر پرواز کرنے والے جہاز انجن کے زور پر کم اور میرے بھروسے پر زیادہ چلتے ہیں۔

جب سے یہاں آۓ ہیں چترال کے ایک ہی خاندان کے چھ افراد اپنے پیچھے  زندہ بچنے  والی واحد  بچی کے لئے سخت پریشان ہیں۔ ان کی رخصتی کے   بعد ان کے جو طرح طرح کے رشتے دار   نمودار ہوے ہیں وہ ان سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں وہ ان کے خاندان کی   واحد  نور چشم  کو ہی گل نہ کردیں۔  ان سے پوچھا  کہ سب نے ایک ساتھ ہی سفر کیوں کیا تو کہنے لگے لواری کے بند ہوجانے کے بعد جہاز ہی ان کا واحد زریعہ  آمد و رفت ہے    جس میں سفر لاکھ خود کشی سہی مگر مجبوری بھی تو ہے۔

یہاں پہنچتے کے بعد  میاں جنید کی دعوتیں ہی ختم نہیں ہو رہی ہیں۔  کہیں نعتوں کا سلسلہ ہے تو کہیں تبلیغ کا۔  پچھلے کئی دنوں سے ان کی محفل یہاں پہلے سے موجود امجد صابری کے ساتھ جمی ہے جو تھمنے کو نہیں آرہی۔ چترال کے ڈپٹی کمشنر صاحب بھی یہاں کے انتظام سے مطمئن نہیں ہیں کہتے ہیں کہ جب تک کنٹرول نہ ہو، انتظام صحیح نہیں ہوتا۔ کل ہی وہ کہہ رہے تھے کہ یہاں بھی ہنگامی حالات سے نمٹنے کے ایک منصوبے کی ضرورت ہے  ورنہ اگر یہاں کچھ ہوا تو  آگے کہیں جانے کی جگہ بھی نہیں ہے۔\"\"

جہاز کا پائلٹ گم سم ہے اور  وہ ہر وقت خود کلامی میں  کہتے ہیں کہ نہ جانے کیوں اس نے چترال  کے لئے  جہاز کو اڑانے سے انکار  نہیں کیا۔ انھوں نے اپنے شوق سے گلگت اور چترال کے روٹ پر پرواز کرنے کی زمہ داریاں لی تھیں کیونکہ انھیں سکردو جاتے ہوۓ دنیا کے دوسرے نمبر کی اونچی چوٹی ملکہ چھو غوری عرف کے ٹو ،   گلگت جاتے ہوۓ  دنیا کے  نویں نمبر کی اونچی ننگا پربت کی چوٹی  اور چترال جاتے ہوے ترچ میرکی  برف پوش چوٹیوں سے نظریں ملانا اچھا لگتا تھا۔ جب وہ گلگت، سکردو اور چترال کے ایئر پورٹ پر اترتے تھے تو لوگوں کے چہروں پر اپنے لئے متشکر تاثرات دیکھ کر مطمئن ہو جایا کرتے تھے۔ یہاں سے  کسی کو امتحان دینے جانا ہوتا تھا، کوئی مریض ہسپتال پہنچنا چاہتا تھا تو کوئی ماں اپنی بیٹی کے پاس پہنچنے  کے لئے بے تاب  ہوتی تھی اور کوئی سجیلا  جوان کئی عرصے بعد چھٹی ملنے پر سجنی سے ملنے کے لئے بےقرار  نظرآ تا تھا تو  جہاز اڑانے سے انکار ممکن نہ ہو پاتی۔   ان کو   ان جہازوں  کے پروں سے  رستا ہوا گریس تو نظر آرہا تھا اور کبھ کبھار تو چلتے انجن بھی بند ہو جایا کرتے تھے  مگر  وہ کہتے ہیں کہ ان سے گلگت اور بالخصوص چترال کے لوگوں کی مجبوری دیکھی نہیں جاتی تھی کہ جب جہاز نہیں چلتا ہے تو ان  کا پوری دنیا سے گویا رابطہ  ہی کٹ جا تا ہے۔  دنیا کے کتنے ایئر پورٹ ایسے ہیں جہاں چلنے والے جہازوں کے  پائلٹوں کے نام لوگوں کو یاد ہوتے ہیں  ،   گلگت ، چترال اور سکردو میں سب جانتے  تھے  کہ چاہے موسم کیسا بھی ہو ، جہازجیسا بھی ہو مگر پہنچ جائیگا اگر اسکاپائلٹ صالح یار جنجوعہ ہے۔میری تو شکل دیکھ کر ہی پائلٹ نے کہا کہ جتنی رقم مجھے  خریدنے  پر خرچ ہوئی ہے اگر اتنی بھی اس جہاز کے انجن کے  دیکھ بھال پر خرچ ہو جاتی تو  وہ  اب بھی گلگت ، سکردو اور چترال کی پرواز کے دوران فلمیں بنا بنا کر دنیا کو حیرت میں ڈال رہے ہوتے۔

مزید بکروں کا منتظر

پی ۔ آئی ۔ اے کے صدقے کا کالا بکرا

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments