جمہوریت پسند حلقے : ذرا اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیر لیں


\"\"

جاری سال ختم ہونے میں دس دن باقی ہیں۔ ایک سال اور چھ ماہ میاں نواز شریف کی موجودہ ٹرم میں باقی ہیں۔ 5 جون 2018 کے نوے دن بعد الیکشن ہونے ہیں۔ جنرل مشرف کے غیر آئینی اقتدار کو ختم ہوئے اور سویلین اقتدار کو قائم ہوئے تقریبا 9 سال ہونے کو ہیں۔ تسلیم ہے کہ اس دوران اسٹیبلشمنٹ پس پردہ ریاستی اقتدار پر اپنی اجارہ داری سے لطف اندوز ہوتی رہی، چاہے وہ کیانی کا دور ہو یا پھر راحیل شریف کا۔

مگر دیکھئے، ووٹ تو شہریوں نے سیاست دانوں کو ہی دیا ہے۔ عوامی توثیق و تائید سے جو اقتدار میں آئے بس وہی اقتدار آئینی و اخلاقی ہے، یہ جمہوریت کا مقدمہ ہے۔ اسی طرح جمہوریت کا یہ بھی مقدمہ ہے کہ عوام جنہیں منتخب کریں وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ ان منتخب نمائندوں کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ انہیں اگر عوام منتخب کرتی ہے تو وہ اپنے اقتدار و اختیارات کا بھی تحفظ کریں۔ عوام اس چیز کا حق رکھتے ہیں کہ جسے ووٹ دے کر منتخب کریں، اس سے پوچھ بھی سکیں کہ جناب ہم نے جو آپ پر اعتماد کیا تو کیا آپ نے اپنی ذمہ داری صحیح طرح سے سرانجام دی بھی یا نہیں؟ اگر جواب میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ جناب اختیارات کے استعمال کا ہمیں موقع ہی نہیں ملا تو عوام یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ اقتدار و اختیار کی مسند پر تو ہم نے آپ کو بٹھا دیا مگر آپ اس مسند پر اپنے حقوق کا تحفظ بھی نہ کر سکے؟

اس وقت ملک میں مارشل لاء یا فوجی شب خون کے امکانات موجود نہیں۔ امکان یہی ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت اپنی ٹرم پوری کرے گی یوں سویلین اقتدار کو دس سال بیت جائیں گے۔ ہر بار پاکستان کے جمہوریت پسند کسی بھی فوجی شب خون کے خطرے کی صورت میں عوامی حق انتخاب کی حمایت کرتے رہے ہیں، یوں ان حلقوں میں ان سیاست دانوں کو بھی سپورٹ کیا جاتا رہا ہے جنہیں شاید ذاتی طور پر یا نظریاتی طور پر وہ پسند نہ بھی کرتے ہوں کیونکہ عوامی حق انتخاب کا احترام اور سیاسی اداروں کی مضبوطی پیش نظر رہی۔ یہ دلیل بھی دی جاتی رہی کہ جمہوریت کو چونکہ وقت نہیں مل سکا اس لئے ڈیلیور نہیں کر سکی، اب شاید یہ دلیل کام نہ کرے۔

سوشل سائنسز میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جسے رینٹ سیکنگ (rent seeking ) کہتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی یا انتظامی عہدے پر فائض کوئی شخص کہیں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی مخلص ادائیگی کے بجائے، اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے اپنے عہدے کا غلط استعمال تو نہیں کر رہا؟ ۔ اختیارات و اقتدار کے ناجائز استعمال کا رجحان ساری دنیا میں پایا جاتا ہے مگر تجزیاتی تحقیقی مطالعے بتاتے ہیں کہ ترقی پزیر دنیا کا یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اسی سبب سے ان ممالک میں ادارے مضبوط و مستحکم اور ترقی پسند نہیں بن سکے۔

ہمیں ماننا ہو گا کہ پاکستان کے سیاسی و انتظامی کلچر میں رینٹ سیکنگ کا یہ رجحان بہت زیادہ موجود ہے۔ صرف سیاست دانوں میں ہی نہیں بلکہ سارے اداروں میں، چاہے وہ نجی انتظام میں چلنے والے ادارے بھی ہوں۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی و انتظامی اداروں کی کمزور کارکردگی میں اگر اسٹبلشمنٹ کا کردار بھی شامل ہے تو رینٹ سیکنگ کے اس طاقت ور کردار کا بھی انکار ممکن نہیں۔

رینٹ سیکنگ کا مسئلہ سزاؤں سے دنیا بھر میں کہیں حل نہیں ہوا۔ خود انصاف فراہم کرنے والے اداروں میں براجمان صاحب مسند لوگ انصاف میں اگر ملاوٹ کر رہے ہوں اور کھوٹے کو کھرا بنا کر پیش کر رہے ہوں تو کسی دوسرے ادارے سے کیا توقع؟ ترقی یافتہ دنیا میں اس مسئلہ کا حل طاقت کی سائنس میں تلاش کیا گیا ہے جسے عرف عام میں سوشل سائنسز کے طلباء accountability کے نام سے پڑھتے ہیں۔ طاقت کو کیسے ذمہ دار رکھا جائے کہ وہ رینٹ سیکنگ میں ملوث نہ ہو سکے، یہ گورننس کا سب سے بڑا سوال ہے اور پوری دنیا میں بیورو کریٹک انتظام کی ناکامی کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس میں رینٹ سیکنگ کا رجحان غالب ہوتا ہے۔

ضروری ہے کہ پاکستانی جمہوریت پسند ان سوالات پر بھی سنجیدگی سے غور کریں کہ ساڑھے آٹھ سال کے اس جمہوری سفر میں عوام کو کیا ملا اور کیا نہیں؟ کیا ادارے مظبوط ہوئے اور ان کی کارکردگی عوامی ہوئی؟ ان ساڑھے آٹھ سالوں میں ہماری بطور قوم کارکردگی کیا رہی؟ اگر ہم واقعی پاکستانی عوام سے مخلص ہیں تو ہمیں ان سوالات پر ضرور غور کرنا ہو گا۔ اگلا الیکشن نزدیک ہے یوں ہم اس قابل ہو سکیں کہ ووٹ ڈالتے ہوئے سیاسی جماعتوں بالخصوص حکمران جماعت کا احتساب بھی کر سکیں، اس پر دباؤ بھی بڑھا سکیں کہ جناب محض نعرے بازی یا وعدوں کی دیگ پکا دینے سے کام نہیں چلے گا، اور نئی گورنمنٹ کے قیام میں عوامی حق انتخاب کے معاون بھی بن سکیں۔ میرا ماننا ہے کہ سچا جمہوریت پسند عوام اور عوامی حق انتخاب کے ساتھ ہوتا ہے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments