گرفتاری کے وقت ملا عبدالسلام ضعیف کو سفارتی استثنا حاصل نہیں تھا


ہمارے ملک میں ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ پاکستان نے تمام بین الاقوامی قوانین پامال کرتے ہوئے سفارتی تحفظ کے حامل ایک حاضر سروس غیر ملکی سفیر کو گرفتار کیا اور امریکہ کے حوالے کر دیا۔ سفارتی ڈیوٹی پر موجود افراد ویانا کنوینشن میں دیے گئے سفارتی تحفظ کے تحت بیشتر ملکی قوانین سے بالاتر تصور کیے جاتے ہیں اور ان پر قتل تک کا مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا ہے تو پھر سفیر کو گرفتار کرنے کا حکومت پاکستان کو کیا حق حاصل تھا؟ ایک سفیر کو کسی بھی صورت میں حراست میں لئے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس وقت ملا عبدالسلام ضعیف کو گرفتار کیا گیا، تو وہ سفیر نہیں تھے۔

ملا عبدالسلام ضعیف کو امریکہ کے حوالے کیا جانا اس بنا پر پاکستانیوں کے لئے ہمیشہ باعث شرمندگی رہے گا کہ جب پاکستانی اہلکاروں نے انہیں امریکیوں کے حوالے کیا، تو پاکستانی اہلکاروں کی موجودگی میں ہی امریکی اہلکاروں نے ملا عبدالسلام ضعیف پر تشدد شروع کر دیا گیا اور ان کو برہنہ کر کے لے جایا گیا۔ پاکستان کو اپنی سرزمین پر، اور خاص طور پر اپنے اہلکاروں کی موجودگی میں، ایسے کریہہ عمل کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی اور پرویز مشرف کی حکومت کے اس عمل کی جتنی مذمت بھی کی جائے وہ کم ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ ایک سفیر کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا، حقائق کے خلاف ہے۔

ملا عبدالسلام ضعیف اپنی کتاب ’مائی لائف ود دا طالبان‘ میں لکھتے ہیں کہ ’میں 20 نومبر 2001 کو (قندھار سے) اسلام آباد واپس آیا تو مجھے پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے ایک باقاعدہ خط دیا گیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’’وہ امارات اسلامیہ افغانستان کو اب تسلیم نہیں کرتے ہیں‘‘ مگر اس کے سفیر، یعنی مجھے ’’پاکستان میں رہنے کی اجازت ہے جب تک کہ افغانستان میں ایمرجنسی کی صورت حال ختم نہیں ہو جاتی ہے‘‘۔ ۔ ۔ ۔ یہ نئے سال کا دوسرا دن تھا۔ پاکستان نے ابھی 2002 کی آمد کا جشن منایا تھا اور میں گھر میں اپنے خاندان کے ساتھ موجود تھا۔ اچانک میرا محافظ نمودار ہوا اور اس نے مجھے بتایا کہ پاکستانی افسران دروازے پر موجود ہیں اور مجھے ملنے کے خواہاں ہیں۔ یہ رات کے آٹھ بجے کا وقت تھا جو کہ میرے گھر پر میٹنگ کے لئے ایک غیر معمولی وقت تھا۔ میں چھوٹے مہمان خانے کی طرف گیا۔ کمرے میں تین افراد موجود تھے۔ انہوں نے خود کو متعارف کروایا۔ ایک گلزار نامی پشتون تھا جبکہ دوسرے دو اردو بول رہے تھے۔ اس (گلزار) نے کہا ’’عزت مآب، اب آپ عزت مآب نہیں رہے۔ امریکہ ایک سپر پاور ہے، کیا آپ کو اس کا علم تھا؟ اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا ہے، نہ ہی اس سے مذاکرات کر سکتا ہے۔ امریکہ آپ سے سوالات پوچھنا چاہتا ہے اور ہم آپ کو اسے کے حوالے کرنے آئے ہیں‘‘۔ ‘

پاکستان نے 22 نومبر کو امارت اسلامیہ افغانستان کا اسلام آباد میں سفارت خانہ بند کر دیا تھا اور طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان عزیز احمد خان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں کسی باقاعدہ حکومت کی غیر موجودگی میں، اور جبکہ طالبان اب ملک کے بہت کم حصے پر حکمران ہیں، تو پاکستان کو طالبان سے سفارتی تعلقات رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب بھی ملک میں ایک وسیع البنیاد عبوری حکومت قائم ہو گی، تو اس وقت مزید سفارتی حرکات پر غور کیا جائے گا۔

اس کے ساتھ ہی طالبان اہلکاروں کا پاکستان میں سفارتی مقام ختم ہو گیا تھا۔ سفارت کار، ایک ملک کے نمائندے ہوتے ہیں جن کو اس ملک کی حکومت مقرر کرتی ہے۔ اگر اس ملک پر وہ حکومت قائم نہ رہے تو سفارت کاروں کی نمائندگی بے معنی ہوتی ہے تاوقتیکہ نئی حکومت ان کی توثیق نہ کر دے۔

ویانا کنوینشن کے تحت کسی بھی میزبان ملک کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی سفارت کار کو ناپسندیدہ شخص قرار دے دے اور اگر بھیجنے والی ریاست اسے واپس نہیں بلاتی یا کسی بھی وجہ سے ایسا کرنے میں ناکام ہوتی ہے، تو میزبان ملک ایسے فرد کو سفارتی اہلکار تسلیم کرنے سے انکار کر سکتا ہے اور اس کا تحفظ ختم ہو جاتا ہے۔

ویانا کنوینشن کے تحت، جب کوئی سفارتی اہلکار اپنی ڈیوٹی سے سبکدوش کر دیا جاتا ہے، تو ملک چھوڑنے تک یا ایک معقول مدت تک سفارتی تحفظ کا حقدار ہوتا ہے، خواہ جنگ ہی کیوں نہ چھڑی ہوئی ہو۔ جنگ کی صورت میں ان اہلکاروں کو پہلی فرصت میں ملک سے نکل جانے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اگر یہ اہلکار ملک سے باہر نہ جائیں تو میزبان ملک کی جانب سے ان کا سفارتی تحفظ ختم کیا جا سکتا ہے۔

سفارت کاروں پر بھی لازم ہے کہ وہ ملکی قوانین کا احترام کریں اور اس ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔

اقوام متحدہ کے تحت بون میں کانفرنس ہوئی جس میں نئی عبوری افغان انتظامیہ قائم کی گئی جس نے 22 دسمبر 2001 کو حامد کرزئی کی سربراہی میں کام شروع کر دیا۔ یاد رہے کہ پہلے بھی طالبان حکومت کو صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی تسلیم کرتے تھے اور اقوام متحدہ میں افغانستان کی نمائندگی طالبان سے پہلے کی حکومت کے متعین کردہ افراد ہی کرتے تھے۔

اس طرح دیکھا جائے تو پاکستان نے ملا عبدالسلام ضعیف کو سفارت خانہ بند کر دینے کے بعد بھی تقریباً پانچ ہفتے کی مہلت دی کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔ افغانستان میں 22 دسمبر کو ایمرجنسی کی صورت حال ختم ہو چکی تھی اور نئی عبوری حکومت نے کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ طالبان شکست کھا کر زیرزمین چلے گئے تھے۔ ملا ضعیف نے پاکستان، اقوام متحدہ، سعودی عرب، برطانیہ، فرانس، متحدہ عرب امارات وغیرہ سے سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ طالبان کے سفارت خانے کے بیشتر دوسرے اہلکار اس مدت میں ملک سے نکل گئے تھے مگر ملا ضعیف پاکستان میں ہی موجود رہے۔

حکومت پاکستان کے اس موقف کو وزن دیا جا سکتا ہے کہ ملا عبدالسلام ضعیف ایک معقول مدت گزرنے کے باوجود پاکستان میں موجود رہے تھے اس لئے ان کا سفارتی تحفظ واپس لے لیا گیا تھا۔ دوسری طرف، ملا ضعیف ہی کی کتاب کے مطابق انہوں نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں سات سو علما کا فتوی جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی حکمرانوں اور اہلکاروں کو قتل کرنا جائز ہے کیونکہ وہ امریکی اتحادی ہیں۔ اس لحاظ سے انہوں نے نہ صرف میزبان ریاست کے اندرونی معاملات میں سنگین مداخلت کی تھی، بلکہ مقامی افراد کو میزبان ریاست کے خلاف بغاوت کی ترغیب دی تھی۔
Dec 23, 2016


طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف اپنی گرفتاری کی روداد بیان کرتے ہیں
گرفتاری کے وقت ملا عبدالسلام ضعیف سفیر نہیں تھے
جب ملا عبدالسلام ضعیف امریکیوں کو دیے گئے
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments