فضائے دل پہ کہاں جسم کو یقیں آتا (غزل ۔۔۔ دلاور علی آزر)۔


شاعروں کی محفل میں کوئی گپ چپ بیٹھا دکھائی دے، تو جا ملیے؛ یہ دلاور علی آزر ہوں گے۔ یہ دِل آور صناع ہیں۔ ان کے یہاں مضامین و موضوعات کا عمدہ چناو کا خیال رکھا جاتا ہے؛ لفظوں سے تصویر کشی کرتے ہیں، کہ عکس بولتا ہے؛ نوجوانی ہی میں کلام کی وہ پختگی، جو بہت سوں کو نصیب نہ ہوئی ہو۔ اردو ادب کو دل آوروں ہی نے رُوپ دیا ہے، اور ادب کو ہمیشہ سے دل آوروں کی ضرورت رہی ہے۔ ناقدین کو دلاور علی آزر سے بہت امیدیں ہیں۔ ابدالوں کی بستی میں دِل آور وہاں بستے ہیں، جہاں سنگلاخ راستوں کا سفر شروع ہوتا ہے۔

فضائے دل پہ کہاں جسم کو یقیں آتا
گلِ سپید سرِ شاخِ سرمگیں آتا

ہوا جو رُخ نہ بدلتی گھنی اُداسی کا
غبار ہُوتا ہوا کارواں یہیں آتا

کمال یہ ہے مجھے دیکھتی ہیں وہ آنکھیں
ملال یہ ہے اُنھیں دیکھنا نہیں آتا

مہکتی وصل کی خوش بو سے رہ گذارِ حیات
کسی کا ساتھ میّسر کہیں کہیں آتا

جب اپنی اوک میں بھر لیتے پیاس منظر کی
کہیں سے بہتا ہوا آبِ نیلمیں آتا

فسوں کا کوئی تعلق نہیں فسانے سے
کہانیوں پہ ہمیں کس لیے یقیں آتا

میں جس کی چاہ میں کاغذ سیاہ کرتا ہوں
وہ لفظ برسرِ امکان کیوں نہیں آتا

سجے ہوئے اُسے ملتے یہ سقف و بام آزر
مکانِ دل میں اگر وقت پر مکیں آتا

 \"\"


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments