نوجوان جوڑے کا مجسمہ


\"\" پرانے تذکروں میں ایک ایسی سرزمین کا ذکر ملتا ہے جہاں یہ رواج تھا کہ مرد اور عورتیں نگاہیں جھکا کر چلیں۔

انھیں آسمان کی طرف ایک نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اگر کبھی کسی سے یہ جرم سرزد ہو جاتا تھا تو قانون اور رواج کے مطابق اسے سخت کا حق دار ٹھہرایا جاتا تھا۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس رسم کا آغاز ایک ظالم و جابر فرماں روا کے دور میں ہوا جو اپنی رعایا سے اپنے آپ کو اس قدر بلند و بالا تصور کرتا تھا کہ اس نے اپنی ذات یا اپنے تخت کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے کو جرم قرار دے دیا تھا۔ حد یہ ہے کہ خود اس کے خاندان کے افراد بھی اس کی اس تحقیرآمیز روش سے محفوظ نہیں رہے تھے۔ چنانچہ اس کے انتقال کے بعد جب نیا فرماں روا اپنا سر جھکائے اور نگاہیں زمین پر گاڑے اپے تخت کی طرف بڑھا تو اپنے پیش رو سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ اس مقدس حکم کی پابندی کرنے اور کروانے لگا۔

مذہبی پیشوا اور سرکاری عملدار اس حکم کی نشر و اشاعت میں لگ گئے۔ لوگوں کو بتایا گیا کہ یہ حکم صاحب علم و فضل بزرگوں کی طرف سے جاری کیا گیا ہے اور جو بھی آسمان کی طرف نگاہیں اٹھا کر دیکھنے کی جرات کرے گا وہ یقینا موقع پر ہی ہلاک ہو جائے گا۔ آسمان سے آنے والی شعایں زہریلی قرار دے دی گئیں اور وقتاً فوقتاً جو بجلی سی چمک جاتی تھی اسی کی یہ توجہ کی گئی کہ یہ گستاخ کو سزا دی جاتی ہے جو اپنی عاقبت اندیشی میں سر اٹھا کر دیکھنے کی حماقت کر بیٹھتا ہے۔ طبیعات دان اور فن کار دونوں ہی اس بات پر متفق تھے کہ آسمان کا رنگ پیلا ہے اور پیلا بھی ایسا کہ جسے دیکھ کر قے آئے اور جس کی کوئی مثال زمین پر موجود نہ ہو۔

اس عقیدے پر جنون کی حد تک ایمان رکھنے والوں کی تو ساری زندگی الٹا لیٹ کر رینگتے رہنے میں گزر جاتی۔ بہت جلد اس سرزمین کے سماجی ڈھانچے نے یہ شکل اختیار کر لی کہ سب سے زیادہ اہم اور اعلیٰ منصب اس شخص کو دیا جاتا جس نے سب سے زیادہ طویل عرصے تک اپنا سر جھکائے رکھا ہو۔ چنانچہ پست ترین افراد اس مقام پر آ گئے جنھیں ہم اعلیٰ ترین مراتب کہتے ہیں۔ بچے کو جھولنے میں منہ نیچا کر کے لٹایا جاتا اور مردوں کو قبروں میں اس طرح دفن کیا جاتا کہ ان کا رخ خاک کی طرف ہوتا۔

اس سرزمین پر بسنے والے چونکہ کسی اور طریق زندگی سے آگاہ نہیں تھے اس لیے کسی کو خوف و جبر کے اس ماحول میں مقید ہونے کا \"\"احساس نہیں ہوتا تھا۔

تذکرہ نویسوں کے مطابق بہار کی ایک صبح ایک نوجوان لڑکی اور لڑکا ایک سبزہ زار سے گزر رہے تھے۔ اپنے چہار جانب کھلے ہوئے پھولوں کو دیکھ کر انھیں بے انتہا مسرت ہو رہی تھی۔ نوجوان لڑکی کا خیال تھا نیلے شگوفے سب سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ لڑکے کو اس خیال سے اتفاق تھا مگر دونوں ہی کو اس بات کا دکھ تھا کہ نیلا جو سب سے زیادہ مسرور کن اور مسحور رنگ ہے، بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے۔

ہر چند کہ وہ فرمان شاہی کی پابندی کرتے ہوئے نگاہیں جھکائے ٹہل رہے تھے مگر یوں لگتا تھا کہ وہ یقینا تھوڑے بہت لاپرواہ ہو گئے ہوں گے۔ کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ انھیں ٹھوکر لگی اور وہ گھاس پر گر گئے۔ پہیل تو انھوں نے لمبی لمبی گھاس میں اپنا منہ چھپا لیا مگر پھر نوجوان لڑکی نے اپنے ساتھی کو دیکھنے کے خیال سے اپنا چہرہ اس طرف موڑا۔ اپنے محبوب کا چہرہ دیکھتے دیکھتے جو اس کی نگاہیں اٹھیں تو آسمان نظر آ گیا ”دیکھو آسمان نیلا ہے!“ اس نے حیرت زدہ ہو کر کہا۔

نوجوان لڑکے کو کفر کے ان کلمات کے خوف سے نجات ملی تو اس نے خود آسمان کی طرف دیکھنے کی ہمت کی اور پھر اپنی اس دریافت کی خوشی میں دیوانہ وار اچھل کر اٹھ کھڑا ہوا اور شہر کی طرف بھاگنے لگا۔

”آسمان نیلا ہے!“

وہ بار بار چلا رہا تھا اور ہاتھ ہلا ہلا کر آسمان کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔\"\"

”خود دیکھ لو کہ آسمان نیلا ہے یا نہیں!“

مگر وہ جس طرف سے گزرتا لوگ اس کی بات سن کر زمین پر اور بھی زیادہ جھک جاتے اور اس خو ف سے کہ اب آسمان سے بجلی گرنے ہی والی ہے پناہیں ڈھونڈنے لگتے۔

نوجوان بازار کے درمیان میں کھڑا ہوا تھا اور آسمان کو دیکھے جا رہا تھا کہ بادشاہ کے سپاہیوں نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا اور اسے قیدی بنا کر لے گئے۔ پھر اسے اس کے کفر بکنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتارنے کی سزا سنا دی گئی۔ اسے بیڑیاں پہنا کر معبد کی دیوار تک لے جایا گیا اور بندوقچیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ تیار ہو جائیں۔

بدقسمت نوجوان کے چہرے پر بکھری ہوئی مسکراہٹ سے گمراہ ہو کر ایک سپاہی اپنی خواہش پر قابو نہ رکھ سکا کہ وہ خود کم از کم ایک نظر آسمان کی طرف دیکھ کر معلوم کرے کہ کیا واقعی نوجوان غلط کہہ رہا ہے۔ اپنی بندوق کو آزمانے کا بہانہ بنا کر اس نے چوری چوری آسمان کی طرف دیکھا اور اپنے ساتھ کھڑے ہوئے سپاہی کو کہنی ماری۔

”نوجوان سچ کہہ رہا ہے۔ آسمان نیلا ہے“

”آسمان سچ مچ نیلا ہے“ دوسرے سپاہی نے تیسرے کے کان میں کہا۔

”نشانہ لو۔“ افسر دھاڑا۔

”نیلا ۔۔۔ اور ہمیں کچھ بھی نہیں ہو گا“

”ہمیں کچھ بھی نہیں ہو سکتا“

”گولی چلاﺅ۔“ افسر نے کڑک دار آواز میں حکم دیا۔ مگر سپاہی جو آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے گولی چلانا بھول گئے۔

جب باغی سپاہیوں کو سزا دینے کے لیے آسمان سے کوئی پیلی روشنی کی تلوار نہیں گری تو تماشائیوں میں سے کچھ نے اپنی نگاہیں اوپر اٹھائیں اور ذرا سی دیر میں بازار میں موجود لوگ سیدھے کھڑے ہو کر دنیا کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے لگے۔ وہ طلسم ٹوٹ چکا تھا۔

سو تذکرے ہمیں بتاتے ہیں کہ اس بازار میں ایک نوجوان جوڑے کا مجسمہ جن کی مضطرب نگاہیں آسمان کو تک رہی تھیں، صدیوں تک نصب رہا۔

اسٹیفن لیکز

ترجمہ : سید کاظم رضا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments