ثقافت، کرپشن اور کام


\"naseerعکسی مفتی نے اپنی کتاب \”پاکستانی ثقافت \” میں ایک جگہ لکھا ہے کہ اگر \” ونڈوز کرپٹ ہو جائے کچھ بھی کام نہیں کرتا۔ ہر طرح کا پیکج کام کرنا چھوڑ جاتا ہے۔ کیونکہ بنیادی ماحول خراب ہوتا ہے۔\” اگرچہ انہوں نے اس بات میں کمپیوٹر کی ونڈوز کو مثال بنایا ہے لیکن دراصل یہ کرپشن کے حوالے سے پوسٹ ماڈرن تعقلی اظہار ہے۔ فوک وزڈم اب جدید بلکہ ما بعد جدید دانش میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارے ہاں پورا سسٹم ہی کرپٹ ہو چکا ہے۔ ونڈوز کیا دروازے بھی کرپٹ ہو چکے ہیں۔ صدر دروازے، اندرونی دروازے، بیرونی دروازے، بغلی دروازے، عقبی دروازے سب کے سب کرپٹ ہیں۔ یہاں تک کہ علی بابا چالیس چوروں کی قدیم کہانیوں میں \” کھل جا سم سم \” سے کھلنے والے دروازے جنہیں اب آٹومیٹک یا خود کار دروازے کہتے ہیں وہ بھی اتنے کرپٹ ہو چکے ہیں کہ چھوئے اور بولے بغیر خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ بس زیرِ زمین خفیہ میکنیزم یا ہاتھ ٹھیک اور مضبوط ہونا چاہیئے۔ چور بھی اب چالیس نہیں رہے، زیادہ ہو چکے ہیں۔ البتہ علی بابوں اور ان کے گدھوں کا زمانہ لد گیا ہے۔ ان کی جگہ سیاستدانوں نے اور سواری کے لیے ڈنڈہ پروف گدھا گاڑیوں معاف کیجیئے بلٹ پروف گاڑیوں اور مال اسباب کے لیے بڑے بڑے ٹرالرز، کنٹینرز نے لے لی ہے۔ بلٹ پروف گاڑیوں کا سب سے زیادہ فائدہ ہمارے سیاسی لیڈروں کو پہنچا ہے کہ ان گاڑیوں میں بیٹھتے ہی ان کی جان میں جان آتی ہے ورنہ عوام کے سامنے انہیں جان کے لالے ہی پڑے رہتے ہیں۔ کنٹینرز کا یہ اضافی فائدہ ہے کہ انہیں بوقتِ ضرورت جلسے جلوس اور لانگ مارچ روکنے کے کام لایا جا سکتا ہے اور تبدیلی دھرنوں کے دوران رات کو اسٹیج اور دن کو سونے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خزانے بھی اب خفیہ یعنی غاروں میں چھپے ہوئے نہیں رہے بلکہ کھلے بازار لوٹے جاتے ہیں اور زر و جواہر اور اشرفیوں کی جگہ ریالوں، ڈالروں، پونڈوں اور یورو نے لے لی ہے اور انہیں اِدھر سے ادھر ڈھونے کا فریضہ خوبصورت ماڈلوں یعنی ایانوں کو سونپ دیا گیا ہے۔ البتہ آف شور کمپینوں اور سوِس بینکوں کے اکاؤنٹس فی زمانہ بھی خفیہ اور قفل بند ہوتے ہیں جن تک رسائی کے نقشے اور قفلِ ابجد کے کوڈ نمبرز یعنی چابیاں صرف ان کے ’دیانتدار‘ مالکوں کے پاس ہوتی ہیں جو عام طور پر تیسری دنیا کے غریب پس ماندہ ملکوں کے سیاستدان اور سابق سربراہان ہوتے ہیں۔

جس ملک کے اپر ہاؤس اور لوئر ہاؤس دونوں کرپٹ ہوں وہاں کرپشن ’اعلیٰ ثقافتی اقدار‘کی طرح فارم ہاؤسوں سے لے گلی محلوں تک ہر جگہ رچ بس جاتی ہے۔ میڈیا چینلز کی طرح کرپشن اب پاکستانی ثقافت کا سب سے اہم اور اٹوٹ ستون ہے۔ ادیبوں کے حلقوں، ٹی ہاؤسوں اور رائٹرز ہاؤسز کا ماحول بھی کچھ کم خراب نہیں۔ وہاں ادب اور دانشوری میں جتنی لفظی کرپشن کی جاتی ہے شاید ہی کسی اور شعبے میں ہوتی ہو۔ تعلیم سے لے کر صحت تک ہر ادارے میں کرپشن کی ثقافت ہے۔ بعض سمجھدار تو کرپشن کی ثقافت کو ایسی صنعت کا درجہ دیتے ہیں جس کے ختم ہونے کا خدشہ نہیں۔ کوئی اور صنعت چلے نہ چلے کرپشن کی صنعت ہمیشہ چلتی رہے گی۔ اس کا پہیہ کبھی جام نہیں ہو گا۔ کیونکہ اس کے لیے پن بجلی کی ضرورت ہے نہ سولر انرجی کی۔ نہ تیل نہ گیس اور نہ کوئلے کی۔ یہ اپنی یعنی کرنسی کی طاقت سے خودبخود چلتی ہے۔ رہی کام کرنے کی بات تو جناب! کام ہماری ثقافت کا حصہ ہی نہیں۔ بابِ خیبر سے کراچی کے ساحل تک چلے جائیے آپ کو جگہ جگہ قومی فراغت کے مناظر دکھائی گے۔ شہروں میں لوگ دکانوں کے تھڑوں پر بیٹھے مکھیاں مارتے اور باتیں بگھارتے نظر آئیں گے۔ دیہاتوں میں رستوں، سڑکوں کے کنارے یا داروں، بیٹھکوں، حویلیوں میں چارپائیاں بچھائے حقے گڑگڑاتے یا سگرٹوں کے کش لگاتے خوش گپیاں کرتے دکھائی دیں گے۔ اگرچہ یہ مناظر اب کم ہو گئے ہیں لیکن فراغت کم نہیں ہوئی۔ پارکوں کے نیم پوشیدہ گوشوں میں بینچوں پر گھنٹوں بیٹھے ڈیٹ مارنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ کھوکھوں، تھڑا ہوٹلوں سے لے کر ریستورانوں اور پنج تارہ ہوٹلوں کی ہائی ٹی اور بوفے تک دوپہروں، سہ پہروں، شاموں اور راتوں کو دیر گئے تک مسلسل کھانے پینے والوں کی تعداد بھی ناقابلِ شمار ہے۔ ماہِ رمضان میں کوئی کام کیے بغیر دن کو سونا اور رات کو افطاری سے سحری تک کھاتے پیتے رہنا اب عین کارِ ثواب اور ثقافتی نیکی سمجھا جانے لگا ہے۔

آج کل پوری قوم دن رات کے چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے سات دن ایک اور کارِ بےکار یعنی موبائل اور انٹرنیٹ پر مشغول رہتی ہے۔ ہمیں تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ لوگ کام کس وقت کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں پنڈی اسلام آباد میں غیر ملکی سیاح بہت آیا کرتے تھے۔ جنہیں عرفِ عام میں بلا تخصیص ملک و قوم گورے کہا جاتا تھا۔ ا±ن سیاحوں سے جب کبھی بات کرنے کا موقع ملتا تھا تو وہ یہ ضرور پوچھتے تھے: آپ کے ملک میں لوگ کام کیوں نہیں کرتے؟ جدھر دیکھو لوگ فارغ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں یا بے مقصد کھڑے گپ شپ میں ’مصروف‘ ہوتے ہیں۔ آپ کے ہاں لوگ گھورتے اور مڑ مڑ کر بھی بہت دیکھتے ہیں، خاص طور پر عورتوں اور غیر ملکیوں کو، کیا یہ کوئی سوشل یا کلچرل لازمہ ہے؟ یاد رہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں فارغ رہنا اور بلا ضرورت کسی کی طرف دیکھنا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ وہ یہ بھی پوچھتے تھے کہ آپ کے ملک میں اکثر مرد بیٹھے، کھڑے، لیٹے یا کام کرتے ہوئے جسم کو جگہ جگہ سے کھجاتے کیوں رہتے ہیں؟ کیا یہ کسی وبائی یا موروثی یا نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں؟ اور ہم انہیں مسکرا کر ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بڑے فخر سے بتاتے کہ یہ سب ہماری تذکیری ثقافت کا استمراری اظہار ہے، کلچرل فریڈم ہے۔ بعض ٹورسٹ ایک اور دلچسپ سوال بھی پوچھا کرتے تھے۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے، کیونکہ ہمارے ہاں اکثر ثقافتی فریضے سرِعام ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں بطورِ خاص ایسی جگہوں پر جہاں ان کی ادائیگی ممنوع قرار دی گئی ہو۔

کام کی بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ آپ بِھکاریوں کی تعداد ہی سے اندازہ لگا لیں کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو کام کرتے ہیں اور کتنے ہیں جو بھیک مانگتے ہیں۔ حالانکہ اب بھیک مانگنے اور کام کرنے میں کوئی خاص فرق نہیں رہ گیا۔ شاعروں ادیبوں کی مثال لے لیں۔ بیش تر ایسے ہیں جو ہر کانفرنس، ہر مشاعرے، ہر تقریب میں موجود ہوتے ہیں۔ ہمہ وقت ادبی کارسازی و کار جوئی میں لگے رہتے ہیں۔ سوچیں یہ اپنا اصل کام یعنی لکھتے اور پڑھتے کب ہوں گے؟ خیر یہ الجھن بھی ایک دن ہمارے خرد سال نواسے نے بڑی معصومیت سے سلجھا دی۔ ہم اور ہمارے کچھ آرٹسٹ دوست ادب، آرٹ اور سائنس پر گفتگو کر رہے تھے۔ نواسا صاحب پاس بیٹھے بظاہر کھیل رہے تھے لیکن دراصل کان ہماری طرف لگائے ہوئے تھے۔ اچانک کہنے لگے، نانا ابو! سائنس اور آرٹ میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ہم نے پوچھا اچھا وہ کیا؟ فرمایا سائنس میں کام کرنا ہوتا ہے اور آرٹ میں کام نہیں کرنا ہوتا بس لکیریں کھینچو، کلر کرو، جیسے میں کرتا ہوں۔ افسوس کہ ہم اس کی بے ساختگی کے آگے خاموش ہو گئے اور گورکی کا یہ قول نہ بتا سکے کہ آرٹ، سائنس اور صنعت کلچر کی بنیادیں ہیں۔ تو جناب بچوں کی اپنی ثقافت ہوتی ہے جو بڑوں کی طرح کرپٹ تو نہیں ہوتی، لیکن ہرعہد کے بچوں میں مختلف ضرور ہوتی ہے۔ المختصر کرپشن، خورد ہو یا کلاں، جب عام ہو جائے تو وہ بذاتِ خود ایک کام اور ثقافت کا حصہ بن جاتی ہے۔ لوٹ کھسوٹ کی کہاوتوں کہانیوں کے کردار سیاسی خانوادوں کے ناموں میں بدل جاتے ہیں اور محاورے نئے معانی اختیار کر لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments