تقی عثمانی اور سندھ اسمبلی کا جبری تبدیلی مذہب کے خلاف قانون



\"\" مجھے اس سے غرض نہیں کہ یہ قانون سندھ اسمبلی نے پاس کیا ہے یا بل پاس کروانے والے سیکیولر ہیں یا لبرل، دین سے دورہیں یا ترقی پسند یا اسلام دشمن جیسا کہ ان پر مذہبی حلقوں کی جانب سے لعن طعن کیا جا رہا ہے۔ اصل سوال علمی ہے اور تحقیق طلب بھی ’’کیا شریعت اسلامیہ کی رو سے کسی کو زبردستی مسلمان بنانا جائز ہے یا ناجائز بچہ ہو یا بڑا مرد ہو یا عورت؟ محترم مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنی جس ٹوئٹ کے ذریعے اس بل کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا ہے پہلے اسے غور سے پڑھیں پھر دیکھیں مفتی صاحب کی دلیلیں کیسی ہیں۔

چونکہ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ زبردستی کسی کو مسلمان کرنا، ناجائز ہے (یہاں زبردستی سے مراد لالچ دے کر یا بہلا پھسلا کر یا اس کی کسی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر) چناچہ مفتی صاحب نے اسے تسلیم کر لیا مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بل پر اعتراض لازم کرنا تھا ( ایسا کیوں کرنا تھا یہ بحث ہم آخیر میں کریں گے۔ ) اس لئے انہوں نے ایک بچے کی مثال پیش کر دی۔ لکھتے ہیں ’’15 سال کا’ عاقل و بالغ بچہ جو دین و مذہب کو سمجھتا ہے اور شرعی احکام کا مکلف ہو چکا ہے اسے اسلام قبول کرنے سے 3 سال تک روکنا ظلم ہے اسی سبب سندھ اسمبلی کا یہ بل غیر اسلامی ہے۔ مانے لیتے ہیں مفتی صاحب کی دلیل مضبوط ہے مگر اگلی سطروں میں وہ کہتے ہیں اٹھارہ سال کے غیر مسلم فرد کو 21 دن کی مہلت دینا کہ وہ غور و خوص کر لے کہ اس نے کس مذہب کا انتخاب کیا ہے بھی ناقابل فہم ہے۔ خوب جناب 15 سال کا بچہ تو عاقل و بالغ ہے بہادر ہے ماں باپ سے لڑ بھڑ کر اسلام پر قائم ہو جائے گا مگر 18 سال کا جوان رعنا محض 21 دنوں کے انتظار پر ماں باپ سے ڈر کر اور ان کے ڈرانے دھمکانے پر واپس پرانے دین کو پلٹ جائے گا۔ جو تاثر مفتی صاحب نے اپنی پہلی دلیل سے قائم کیا تھا خود ہی اگلی سطروں میں اسے زائل کر دیا۔

آگے چل کر وہ خود ہی سوال اٹھاتے ہیں ’’کہ اگر میاں بیوی مسلمان ہو جائیں تو ان کی 18 سال سے کم عمر اولاد کیونکر غیر مسلم تصور ہوگی۔ عرض یہ ہے کہ جناب! ابتدائی تاریخ اسلامی میں جن لوگوں نے دین برضا و رغبت اختیار کیا تھا اس کے لئے بڑی قربانیاں دی تھیں آج کے پیدائشی مسلمانوں کو اس کی اہمیت کا کوئی اندازہ نہیں۔ بیٹا مسلمان تو باپ کافر حتیٰ کہ میدان جنگ تک میں یہی کیفیت دکھائی دیتی تھی۔ اگر ماں باپ مسلمان ہوں گے  تو اس کا اثر خود بخود اولاد پر پڑے گا۔ آج نہیں تو کل وہ اسلام کا اثر قبول کریں گے اور مسلمان بھی ہو جائیں گے۔ انہیں کون روکتا ہے کہ وہ شریعت اسلامی کے احکامات کی پابندی نہ کریں مگر وہ کیا وجہ ہے کہ انہیں مسلمانوں کا شناختی کارڈ حاصل کرنے کی ایسی کیا جلدی ہے حالاںکہ ابھی ان کی عمر شناختی کارڈ کے حصول کے معیار تک بھی نہیں پہنچی ہے!!

ایسا لگتا ہے مفتی صاحب ان دلیلوں کے سہارے کسی ایسے پیر صاحب کے نقطہ نظر کی وکالت کر رہے ہیں جو صوبہ سندھ میں ہندوؤں پر اپنی چودراھٹ قائم کرنے کے لئے زبردستی کم عمر ہندو لڑکیوں کو جبراً مسلمان کرواتا ہے پھر اپنے خاص الخاص مریدوں سے ان کا نکاح پڑھوا دیتا ہے۔ قانوناً ابھی یہ تعین کرنا باقی ہے کہ ہندو لڑکی اغوا پہلے ہوتی ہے یا اسلام پہلے قبول کرتی ہے۔ چونکہ ہندو لڑکی 18 سال سے کم عمر ہوتی ہے اس لئے ان پیر صاحب اور ان کے مریدوں کو مشکل پیش آتی ہے۔ پولیس لڑکی کے ہندو والدین کی مدعیت میں اغوا کا مقدمہ درج کرتی ہے اور مغوی کی برآمدگی پر لڑکی کو والدین کے پاس واپس بھجوا دیتی ہے۔ اسی لئے مفتی صاحب کم عمر بچہ (15 سالہ ہندو لڑکی) کو مسلمان قرار دلوا کر اسے ہندو والدین کے اثر سے آزاد کروانا چاہتے ہیں اور بل میں دی گئی 21 دن کے انتظار کی مہلت کو اس لئے ختم کروانا چاہتے ہیں کہ اس عرصے میں لڑکی ماں باپ کی بات سن کر واپس پرانے مذہب یعنی ہندومت کو نہ لوٹ جائے۔

مفتی صاحب کے ٹوئیٹ کی حمایت میں کچھ صاحب نظر حضرات یہ بھی فرما رہے ہیں کہ ’’اگر ایک ہندو لڑکی کسی مسلمان لڑکے کے عشق میں مبتلا ہو کر اس سے شادی کرنا چاہتی ہے تو اسے اسلام لانے سے کیوں روکا جائے؟ بالکل بجا! لیکن جناب عشق اور گھر بسانے کی کوئی عمر بھی ہوتی ہے اور اس کے لئے کم ازکم 18 سال تک کا انتظار تو کیجیے۔ آپ حضرات تو کچی عمر کی 15 سالہ لڑکیوں کو اس میدان میں اتارنا چاہتے ہیں اور یہ بھی دیکھیں ایسے عشق کا کیا انجام ہوتا ہے۔ آپ اپنی مسلم بہن بیٹیوں کے لئے کیا اس قسم کی شادی قبول کریں گے؟ ذرا سوچیں!!!

جبراً مذہب کی تبدیلی کی یہ ایک خاص قسم ہے۔ جب جبراً مسلمان بنانا جائز نہیں تو یہ گورکھ دھندا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ قانون و قانون سازی میں سقم ضرور ہو سکتا ہے، اسے دور کیا جا سکتا ہے مگر پورے قانون کو شرمناک کہنا انصاف نہیں۔ مفتی صاحب کے دلائل وزن نہیں رکھتے۔ ایسے میں ان کا عوام، سیاسی جماعتوں، شرعی عدالت اور دوسرے اداروں کو اکسانا کہ وہ خود نوٹس لے کر اس قانون کو ختم کریں اسلامی حمیت نہیں نرا تعصب اور سیاست گری ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی اگر سندھ میں صرف اپنا ووٹ بینک دیکھیں گی اور ہندو والدین کے جائز مطالبات کو ہوا میں اڑا دیں گی تو نہ ہی یہ عوام کی خدمت ہو گی اور نہ ہی پاکستان کی۔

________

مفتی تقی عثمانی صاحب کی ٹویٹ:

سندھ اسمبلى نے اقليتوں كے حقوق كے عنوان سے ايك بل منظور كيا ہے pic.twitter.com/cLokwxr4iW

— Muhammad Taqi Usmani (@muftitaqiusmani) November 25, 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments