آسمان کو اتنی فرصت کہاں؟


\"\"گزشتہ ہفتے میں پہلی بار محمد علی جناح سمیت انیسویں اور بیسویں صدی کے متعدد سندھی اکابرین کی جنمِ علمی سندھ مدرستہ السلام یونیورسٹی گیا۔ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شیخ سے ملاقات ہوئی۔ بات جناح صاحب کب اور کہاں پیدا ہوئے سے شروع ہوئی اور درمیان میں یہ سوال بھی آ گیا کہ ہم بحثیت قوم بعض بنیادی مسائل کا آج تک متفقہ تعین کرنے میں کیوں ناکام رہے ہیں اور انھیں متعین کیے بغیر آگے کیونکر بڑھا جا سکتا ہے۔ تشخیص کے بغیر علاج کیسے ممکن ہے اور تشخیص سے کس شے نے روکا ہواہے؟ کوئی خوف، تساہل، یادداشتی کمزوری، بزدلی یا انفرادی و اجتماعی شُترمرغیت؟
یہ بھی تو ممکن ہے کہ ہمیں اپنا بنیادی مسئلہ بخوبی معلوم ہو مگر حل نہ معلوم ہو۔ یا حل بھی معلوم ہو لیکن اتنا تکلیف دہ اور مہنگا لگتا ہو کہ ہم جم کے علاج کرنے کے بجائے وقتی ریلیف کے لیے طرح طرح کے پین کلرز اس امید پر آزما رہے ہوں کہ کوئی مسیحا آئے گا اور سب ٹھیک کر دے گا۔
فرض کر لیتے ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ طے کرنا ہو کہ ہم کون ہیں اور یہاں سے کہاں جانا چاہتے ہیں؟ اگر تو یہی بنیادی مسئلہ ہے تو یہ تب تک طے نہیں ہو سکتا جب تک یہ طے نہ ہو جائے کہ ہم اپنے بچوں کو کیا بتانا اور بنانا چاہتے ہیں؟ گزشتہ ستر برس سے نسل در نسل ہم نہ صرف اپنے بڑوں سے یہ جملہ سنتے آ رہے ہیں بلکہ ہو بہو رٹا رٹایا اگلی نسل کو منتقل کرتے جا رہے ہیں کہ ہم سب پاکستانی ہیں؟
بظاہر یہ ایک سہل اور ہر کسی کی سمجھ میں آنے والا جملہ ہونا چاہیے۔ مگر کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ کیا ہم سب پاکستانی ہیں اور وہ بھی برابر کے؟ اگر ایسا ہی ہے تو ہمیں اس کی مسلسل گردان کیوں کرنا پڑ رہی ہے؟ چاند کے بارے میں تو کوئی نہیں کہتا کہ دیکھو یہ جو آسمان پر ایک چمکتا سفید گولہ دکھائی دے رہا ہے یہ دراصل چاند ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ چاند ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ یہ سفید روٹی یا بتاشہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو حقیقت ٹھوس ہو اور سب کو دکھائی بھی دے رہی ہو اسے گردان یا اشتہار کی حاجت نہیں ہوتی؟ لیکن جب کوئی حقیقت محض تصوراتی ہو تو پھر ہر شخص کے ذہن میں اس کی تصویر بھی مختلف ہوتی ہے۔ سب سے بڑا ظلم ایک غیر ٹھوس حقیقت کو دلیل کے بجائے طاقت کے بل پر ہر ایک کے گلے میں زبردستی اتارنے کی کوشش ہے۔
اگر سب کو ایک ہی طرح کی پاکستانیت کی لڑی میں پرونا مقصود ہے تو کیا ہم نے واقعی اس کے لیے آج تک کوئی مضبوط دھاگا بنانے کی کوشش کی ہے کہ جس میں سب قبیلے، قومیتیں، طبقات اور علاقے بخوشی پروئے جانے پر آمادہ ہوں۔
ڈاکٹر شیخ کا کہنا تھا کہ تعلیمی مساوات ایک ایسا منگل سوتری دھاگہ بن سکتا ہے۔ مگر تعلیمی پالیسی کا حال یوں ہے کہ ہم پچھلے ستر برس سے ہر سال اس امید پر چنا بو رہے ہیں کہ اس بار یقیناً گندم پیدا ہو گی۔ اسی بات کو آئین سٹائن نے کچھ یوں کہا ہے کہ پاگل پن کی تعریف یہ ہے کہ بار بار ایک ہی تجربہ اس امید پر کیا جائے کہ اس بار اس سے مختلف نتیجہ نکلے گا۔
مثلاً ہر سال دینی مدارس سے ہزاروں طلبا فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کا اپنا نظریہِ حیات اور زاویہِ نگاہ ہے، ہر سال سرکاری اسکولوں سے لاکھوں طلبا و طالبات نکلتے ہیں ان کا حالات کو دیکھنے کا انداز بالکل مختلف ہے، ہر سال نیم متوسط اور متوسط طبقات کے نام نہاد انگریزی میڈیم اسکولوں سے ایک پوری کھیپ نکلتی ہے جس کا زاویہِ زندگی اور اپروچ بالکل الگ طرح کے ہیں۔
ہر سال ہزاروں طلبا اعلی مہنگے ایلیٹ اسکولوں سے نکلتے ہیں پاکستان اور پاکستانیت کے بارے میں ان کا تصور دیگر تمام اقسام کے نظام ہائے تعلیمات کے تحت فارغ التحصیل ہونے والے بچوں سے قطعاً مختلف ہے۔ اور جب چار تعلیمی سمتوں سے آنے والی چار مختلف نسلیں عملی زندگی میں ایک دوسرے کے مدِ مقابل آتی ہیں تو ان میں سے ہر نسل دوسری کو ذہنی و ساختیاتی اعتبار سے مریخی مخلوق سمجھتی ہے۔
ایسا نظامِ تعلیم ذہنوں میں شک، بدزنی اور ایک دوسرے سے خوف اور اس خوف کے ردِ عمل میں منفی مقابلے بازی تو پیدا کر سکتا ہے، وہ دھاگہ ہرگز نہیں بن سکتا جس میں سب کو پرو کر کے ایک قوم بنایا جا سکے۔ یعنی ہم کتنی محنت اور اربوں روپے صرف کر کے نفاق کے فروغ کو پاکستانیت کے فروغ کا سفر سمجھ رہے ہیں اور اس بنیادی کجی کو دور کیے بغیر مُصر ہیں کہ ایک نہ ایک دن ایک قوم بن کے ضرور دکھائیں گے۔ نیت کو عملی شکل دینے والے اسباب پیدا کیے بغیر ایسے دعوے کرنے والے یا تو نرے بدھو ہو سکتے ہیں یا پھر انتہائی چالاک منافق کہ جن کا مقصد باقی قوم کو مختلف سمتوں کی طرف روانہ ٹرکوں کی بتی کے پیچھے لگا کے اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔
ایک ایسا یکساں، جدید اور مساوی نظامِ تعلیم رائج کرنا کہ جس میں بنیادی سیاسی، سماجی و اقتصادی حقائق کو ایجاد کرنے کے بجائے جوں کا توں بیان کر کے ایک تجزیاتی ذہن کی آبیاری ممکن ہو سکے کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ مگر پھر ایک منتشر الخیال قوم پر کسی محضوص سوچ کی بالا دستی خطرے میں پڑ جائے گی۔ لہذا کھیل قوم سازی کا نہیں مخصوص بالا دستی کا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ جاہل بالا دستی کا۔
جی ہاں تعلیم یافتہ جاہل بالا دستی۔ کیونکہ ان پڑھ اور جاہل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ان پڑھ کے ذہن میں صرف سوالات پیدا ہوتے ہیں اور جب اسے ان سوالات کا تشفی بخش جواب مل جاتا ہے تو وہ شعور کی جانب چل پڑتا ہے۔ جاہل بننے کے لیے پڑھنا لکھنا ضروری ہے۔ پڑھنے لکھنے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ وہ علم کی روشنی کو قبول کرتے ہوئے اس روشنی کو مزید اندھیرے چھانٹنے کے لیے استعمال کرے بلکہ وہ تعلیم اس لیے حاصل کرتا ہے تا کہ کج بحثی کے ہتھیار سے مسلح ہو کر علم کو اور پھر اس علم سے سماج کو ذہنی اعتبار سے کنفیوز کرپٹ اور فکری کنگال کر سکے اور جھوٹ کو سچ کے کپڑے پہنا کر اپنا مطلب نکال سکے۔ ان پڑھ کے لیے ہر نئی بات علم کی اگلی سیڑھی ہے۔ جاہل کے لیے ہر نئی بات بالادستی کی نفسیات کو خطرہ ہے۔ لہذا وہ اس خطرے کے تدارک کے لیے تریاق نہیں وائرس بننا پسند کرتا ہے اور پھر اس وائرس کو بانٹتا پھرتا ہے۔
اس وائرس کا ایک ہی توڑ ہے۔ ایسا نظامِ تعلیم جو ہر رنگ و نسل و عقیدے کے دائروں کو بہت احترام کے ساتھ جوں کا توں سمیٹ کر ایک بڑے قومی دائرے میں سمونے کی گنجائش رکھتا ہو۔ اس نظامِ تعلیم کو نہ رد کا خوف ہو اور نہ ہی قبولیت کی ہوس۔ سوال اور دلیل کی پٹڑی پر یہ نظامِ تعلیم اپنا سفر از خود طے کرنے کی اندرونی صلاحیت رکھتا ہے۔ بس اس پر اعتماد کرنے اور جہالت کے وائرس سے بچائے رکھنے کی شرط ہے۔ پھر دیکھئے ذہن کیسے کھلتا ہے اور کھلے ذہن سے گڈ گورنننس اور شرافت کیسے پھوٹتی ہے۔
آپ بھلے کچھ بھی کر لیں۔ایک نہ ایک دن آنا اسی طرف پڑے گا۔ ورنہ اتنی قومیں ختم ہو گئیں۔آسمان کس پر اور کتنا رویا؟ آسمان کو اتنی فرصت کہاں؟

(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments