اسلامی جمعیت طلبہ کو یوم تاسیس مبارک ہو


پاکستان کی تاریخ کے روشن ترین دنوں میں سے ایک 23 دسمبر کا دن ہے۔ آج سے ستر برس پہلے، 23 دسمبر 1947 کو جبکہ پاکستان کے قیام کو محض چند ماہ ہی گذرے تھے، وطن عزیز طرح طرح کے مصائب سے دوچار تھا۔ مہاجروں کا مسئلہ۔ ہندوستان کی بدمعاشیاں۔ فنڈز کی کمی۔ ساز و سامان کی کمی۔ لوٹ مار۔ قتل و غارت۔ فسادات۔ پاکستان بھی انوری کا گھر بنا ہوا تھا کہ آسمان سے جو بلا بھی نازل ہوتی تھی، اس کا رخ کرتی تھی۔ ایسے میں 23 دسمبر کو اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔

جمعیت نے جلد ہی تعلیمی اداروں پر نظریاتی قبضہ کر لیا جس سے پاکستان کو بے انتہا فائدہ پہنچا۔ چالیس کی دہائی میں جماعت اسلامی کے قیام کے بعد سے پڑھے لکھے طبقات جماعت اسلامی کے اثر میں آ رہے تھے۔ جب اسلامی جمعیت طلبہ نے تعلیمی اداروں میں اپنے قدم جمانے شروع کیے تو ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائیوں میں طلبہ جوق در جوق جمعیت سے متاثر ہونے لگے۔

اس موقعے پر ایک لحظے رک کر اسلامی جمعیت طلبہ کی ملک کے لئے خدمات کا اعتراف نہ کرنا بخیلی ہو گی۔ اگر اسلامی جمعیت طلبہ نہ ہوتی تو متاثر ہونے والے یہ بے شمار افراد جماعت اسلامی کی طرف راغب ہو سکتے تھے اور ملک اس راہ پر کہیں آگے جا سکتا تھا جس پر وہ ہے اور ممکن ہے کہ آج پاکستان بھی طالبان کی امارت اسلامیہ یا داعش کی دولت اسلامیہ بن چکا ہوتا۔ ملک کو کسی حد تک اعتدال کی راہ پر رکھنے میں اسلامی جمعیت طلبہ کی تربیت اور کردار کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔

جمعیت نے ملک میں طلبہ کی کردار سازی پر بہت توجہ دی اور عملی اقدامات اٹھائے۔ قیام پاکستان کے بعد روز اول سے ہی یہ حققیت عیاں ہو چکی تھی کہ مکار بھارتی ہمارا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور کسی وقت بھی اپنی بے پناہ اکثریت کے زعم میں ہم پر حملہ کر سکتے ہیں۔ ایوب خان کی حکومت تو سنہ 65 کی جنگ کے باوجود عیاشیوں میں پڑی ہوئی تھی اور صنعتیں وغیرہ لگا رہی تھی، لیکن اسلامی جمعیت طلبہ نے اس بھارتی خطرے کو بھرپور طریقے سے محسوس کیا اور تعلیمی اداروں میں اپنے کارکنوں کو اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دینے کی بھرپور مہم چلائی۔

لیکن ہر ایک محاذ پر جمعیت کو کامیابی نصیب نہ ہو سکی۔ مغربی پاکستان کے تعلیمی اداروں پر تو جمعیت اپنی بے مثال تربیت کی وجہ سے قبضہ کرنے میں کامیاب رہی تھی، مگر مشرقی پاکستان میں اس سے کوتاہی ہو گئی۔ یوں چھپن فیصد پاکستانی نظریاتی طور پر کمزور رہ گئے اور غیر اسلامی اساتذہ کے بہکانے میں آ کر آمریت کے خلاف ہو گئے اور جمہوری حقوق مانگنے لگے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے اس موقعے پر عظیم جرنیل جناب یحیی خان صاحب کی پکار پر لبیک کہا اور ان چھپن فیصد نام نہاد پاکستانیوں کو خوب سبق سکھایا۔ مگر بدقسمتی سے بھارتی سازش کامیاب ہوئی اور وہ چھپن فیصد پاکستانی بنگلہ دیشی بن گئے اور یوں وطن عزیز پاکستان دشمن غداروں سے پاک ہو گیا۔

اس موقعے پر مشرقی پاکستان کی اسلامی جمعیت طلبہ نے یہ دیکھا کہ اگر ہم ان بنگلہ دیشیوں کو چھوڑ کر پاکستان چلے گئے تو یہ لوگ تو کہیں بھارت میں ہی نہ شامل ہو جائیں۔ اس لئے ان عزیمت و قربانی کے پتلوں نے بنگلہ دیشی شہریت لی اور ادھر کے الیکشن وغیرہ میں حصہ لیتے رہے اور پاکستان نہ آئے۔ اگر وہ محمود علی یا چکمہ راجہ تری دیو رائے کی طرح پیدائشی بنگالی ہونے کے باوجود سچے پاکستانی ہونے کی جذباتی سوچ اپنا کر یہاں آ جاتے، تو ہمیں یقین ہے کہ آج بنگلہ دیش بھارت کا حصہ ہوتا۔ بہرحال ہمارے علاوہ بھارت اور حسینہ واجد کو بھی اس بات کا علم ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ والے بنگلہ دیش کیوں رہ رہے ہیں اس لئے وہ ان کے خلاف ایک مذموم مہم چلائے ہوئے ہے۔

ادھر باقی ماندہ پاکستان میں بھی حالات اچھے نہیں تھے۔ بھٹو نامی ایک گمراہ سا شخص حکمران بنا بیٹھا تھا اور ملک کو تباہ کرنے ہی لگا تھا کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر قوم کو ویسا ہی ایک عظیم جرنیل نصیب ہو گیا جیسا کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے پہلے نصیب ہوا تھا۔ جنرل ضیا نے اسلامی جمعیت طلبہ کے جذبے کی خوب قدر کی اور پنجاب یونیورسٹی اور دوسرے تعلیمی اداروں سے غدار لبرل طلبہ تنظیموں کو بندوق کی نال پر باہر نکال دیا۔ کراچی میں بھی جنرل صاحب کی دعا سے جمعیت کو خوب عروج نصیب ہوا اور اس نے وہاں کے طلبہ کی خوب تربیت کی۔

کہا جاتا ہے کہ جناب الطاف حسین صاحب میں بے تحاشا حب الوطنی ہے جو اسلامی جمعیت طلبہ نے ان کے زمانہ طالب علمی میں ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ الطاف حسین کی آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے اسلامی جمعیت طلبہ سے خوب اسباق لئے اور ایک دن ایسا آیا کہ وہ اس علم و حرفت میں اپنے استاد سے بھی چار قدم آگے نکل گئے۔

یوں کراچی سے اسلامی جمعیت طلبہ کی اسی تربیت کے سبب جماعت اسلامی کا سیاسی خاتمہ ہو گیا اور وہاں ایم کیو ایم ابھری۔ اس احسان کو کراچی کا مہاجر طبقہ تازیست چکا نہیں پائے گا۔

افغانستان میں سوویت یونین کے حملے کے وقت بھی اسلامی جمعیت طلبہ نے ویسا ہی کردار ادا کیا جیسا کہ 71 کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں ادا کیا تھا۔ یہاں سے جوق در جوق طلبہ کو بھرتی کر کے سوویت فوجوں اور افغان سرکاری فوج سے لڑنے کے لئے بھیجا۔ یہیں سے القاعدہ سے جمعیت کی دوستی کی داغ بیل پڑی لیکن نائن الیون کے بعد جب القاعدہ نے پاکستان پر حملے شروع کر دیے تو یہ دشمنی میں بدل گئی۔

یہی وجہ ہے کہ 2013 میں القاعدہ نے اپنے خطرناک دہشت گرد پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹلوں میں بھیجے تاکہ جمعیت کو نقصان پہنچا سکیں مگر خوش قسمتی سے وہ کوئی بڑا نقصان کرنے سے پہلے ہی پکڑے گئے۔ یہ دہشت گرد اتنے مکار تھے کہ وہ ہوسٹل نمبر ایک میں شعبہ اسلامیات کے جمعیت کے ناظم کے کمرہ نمبر 237 میں ہی رہنے لگے تھے۔ اخبار میں تو غالباً معاملے کی حساسیت کے پیش نظر ذکر نہیں آیا، مگر ہمیں یقین ہے کہ ان دہشت گردوں کو پکڑوانے میں بھی جمعیت کا ہی ہاتھ ہو گا۔

جمعیت نے ہمیشہ ریاست پاکستان کے محب وطن عناصر کا ساتھ دیا ہے۔ جنرل یحیی خان جب پاکستان کو بچا رہے تھے، تو جمعیت نے ہی ان کی بھرپور مدد کی تھی۔ جب جنرل ضیا الحق پاکستان کو بچا رہے تھے، تو یہ جمعیت ہی تھی جس نے ان کی بھرپور مدد کی تھی۔ جب حکومت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے جنرل مشرف کے خلاف عمران خان ایک مذموم مہم چلا رہے تھے، تو یہ جمعیت ہی تھی جس نے پاکستان کے خلاف یہ سازش ناکام بناتے ہوئے عمران خان کو پکڑ کر جنرل مشرف کے حوالے کیا تھا۔

ہم جمعیت کے کس کس احسان کا ذکر کریں۔ ہماری رائے میں تو جمعیت کو خراج تحسین پیشن کرنے کی خاطر ہر سال 23 دسمبر کو تمام تعلیمی اداروں کو بند کر دینا چاہیے ورنہ وہ خود بند کرا دے گی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments